Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مسجد کی بے حرمتی

تاج محل کی
***معصوم مرادآبادی***
حسن اور عشق کی لافانی یادگار تاج محل یوں تو ایک عرصے سے شرپسندوں کے نشانے پر ہے اور وہ مختلف بہانوں سے اسے نقصان پہنچانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں لیکن جب سے اترپردیش میں یوگی آدتیہ ناتھ کی حکومت قائم ہوئی ہے تب سے تاج محل کے خلاف شرپسندوں کی ریشہ دوانیوں میں غیر معمولی اضافہ ہوگیا ہے۔ تاج محل کو صفحۂ ہستی سے مٹانے کی کوششیں وہ لوگ کررہے ہیں جو ہندوستان سے مسلمانوں کا نام ونشان مٹانا چاہتے ہیں۔ اپنی تمام تر تخریبی کارروائیوں کے ناکام ہونے کے بعد اب ان عناصر نے تاج محل پر بعنوان دیگر قبضہ کرنے کی مہم شروع کردی ہے۔ سب سے زیادہ حیرت اس بات پر ہے کہ تاج محل کی حفاظت پر مامور سیکیورٹی دستوں کے جوان ہی نہیںخودمحکمہ آثار قدیمہ بھی جانے انجانے میں شرپسندوں کی سازشوں میں شریک نظر آرہا ہے۔ 
ورنہ کیا وجہ ہے کہ گزشتہ ہفتے ایک ہندو انتہا پسند تنظیم سے وابستہ خواتین نے تاج محل کی شاہ جہانی مسجد میں جب باقاعدہ پوجا کی اور اس کی ویڈیو بناکر سوشل میڈیا پر ڈالی گئی تو اس انتہائی اشتعال انگیز حرکت کا فوری طورپر کوئی نوٹس نہیں لیاگیا۔ کافی دیر تک چلی اس غیر قانونی اور غیر اخلاقی کارروائی کی اطلاع نہ تو محکمہ آثار قدیمہ کے افسران کوہوئی اور نہ ہی تاج محل کی حفاظت پر مامور نیم فوجی فورس کے جوان حرکت میں آئے۔ 
المناک بات یہ ہے کہ یہ واقعہ اسی شاہ جہانی مسجد میں پیش آیا جہاں محکمہ آثار قدیمہ نے حال ہی میں نماز پنجگانہ کی ادائیگی پر پابندی لگائی ہے۔ مقامی مسلمان نماز پر عائد کی گئی اس پابندی کے خلاف سراپا احتجاج ہیں اور وہ نماز کا حق حاصل کرنے کے لئے دربدر کی ٹھوکریں کھارہے ہیں لیکن محکمہ آثار قدیمہ سپریم کورٹ کے ایک حالیہ فیصلے کا حوالہ دے رہا ہے جس میں تاج محل کی مسجد میں نماز جمعہ کی ادائیگی کے لئے بعض شرائط عائد کی گئی تھیں۔ سپریم کورٹ نے اپنے حکم نامے میں کہاتھا کہ محض مقامی باشندے ہی یہاں نماز ادا کرسکتے ہیں اور باہر کے لوگوں کو مسجد میں نماز جمعہ کی اجازت نہیں ہوگی۔ سپریم کورٹ کی یہ پابندی محض نماز جمعہ کے تعلق سے تھی لیکن محکمہ آثار قدیمہ نے وہاں نماز پنج وقتہ پر ہی پابندی عائد کردی ہے اور اس میں مقامی لوگوں کو بھی نماز پڑھنے سے روک دیا گیا ہے۔ ظاہر ہے یہ ایک ایسی کارروائی ہے جس سے مقامی مسلمانوں میں شدید غم وغصہ پھیل گیا ہے۔ 
تاج محل کی شاہ جہانی جامع مسجد میں نماز پنجگانہ پر عائد کی گئی پابندی کو توڑتے ہوئے گزشتہ ہفتے 5 مقامی مسلمانوں نے وہاں نماز ادا کی تھی جس کے ردعمل میں ہندو تنظیمیں چراغ پا ہوگئیں اور انہوں نے اس قسم کی کارروائی انجام دی گویا یہ کوئی متنازع مسجد ہو جہاں دونوں فرقوں کو عبادت کی آزادی ملنی چاہئے۔ 17نومبر کو راشٹریہ مہیلا پریشد سے وابستہ3 خواتین نے مسجد میں داخل ہوکر وہاں پوجا کی۔ اتنا ضرور ہے کہ محکمہ آثار قدیمہ کو جب سوشل میڈیا کے ذریعے اس واقعہ کی اطلاع ملی تو وہ حرکت میں آیا اور اس معاملے میں تینوں خواتین کے خلاف پولیس میں شکایت درج کرائی اور تاج محل کی حفاظت پر مامور سی آئی ایس ایف سے پوجا کا سامان اندر لے جانے پر جواب طلب کیا۔ لیکن یہاں بنیادی سوال یہ ہے کہ جب شرپسند خواتین مسجد کے تقدس کو پامال کررہی تھیں تو اس وقت محکمہ آثار قدیمہ کے افسران اور سیکورٹی فورسز کے جوان کہاں تھے؟ 
یہ کوئی پہلا موقع نہیں ہے کہ تاج محل سے چھیڑ چھاڑ کرنے اور اس کی ہیئت کو بدلنے کی کوشش کی گئی ہے بلکہ اس سے قبل بجرنگ دل کے لوگ تاج محل میں باقاعدہ پاٹھ پڑھ چکے ہیں۔ ان لوگوں کا دعویٰ ہے کہ یہ عمارت شاہ جہاں کا تعمیر کردہ تاج محل نہیں بلکہ کسی ہندو بادشاہ کا بنایاہوا تیجو مہالیہ نام کا ایک مندر ہے۔ اس قسم کا دعویٰ پہلے پہل 90کی دہائی میں سنگھ پریوار کے ایک نام نہاد مؤرخ پی این اوک نے کیا تھا۔ اس شخص نے نہ صرف تاج محل بلکہ ہندوستان میں مسلم بادشاہوں کی بنائی ہوئی تمام عمارتوں اور مسجدوں کو مندروں سے تشبیہ دی تھی اور ان عمارتوں کے ہندو نام بھی رکھے تھے۔ پی این اوک اب اس دنیا میں نہیں ہیں لیکن ان کی ناجائز اولادیں ان کے ایجنڈے کو پورا کرنے کے لئے اپنی شرانگیزیوں میں مصروف ہیں۔ انہوں نے دھمکی دی ہے کہ اگر تاج محل کی مسجد میں پوجا کرنے والی خواتین کے خلاف کارروائی کی گئی تو وہ تحریک چھیڑ دیں گے۔
 ان کا کہنا ہے کہ مذکورہ خواتین کے خلاف کارروائی سے پہلے وہ ان افراد کے خلاف کارروائی کریں جنہوں نے محکمہ آثار قدیمہ کی پابندی کے باوجود مسجد میں نماز ادا کی۔ یہاں قابل غور بات یہ ہے کہ محکمہ آثار قدیمہ نے تاج محل کی مسجد میں نماز پنجگانہ پر جو پابندی عائد کی ہے، وہ اس کا اپنا فیصلہ ہے۔ سپریم کورٹ نے محض تاج محل کے تحفظ کے پیش نظر نماز جمعہ کے دوران نمازیوں کی تعداد کو محدود کیا تھا۔ اگر محکمہ آثارقدیمہ چاہتا تو مسجد میں پنجگانہ نماز ادا کرنے والوں کو شناختی کارڈ جاری کرسکتا تھا تاکہ نماز کی آڑ میں کوئی شخص غلط ارادے سے وہاں داخل نہ ہوسکے لیکن ایسا کرنے کی بجائے محکمہ آثار قدیمہ نے وہاں نماز پنجگانہ پر ہی پابندی لگادی۔
 نماز پڑھنا مسلمانوں کا مذہبی اور دستوری حق ہے ۔ ایک طرف مسلمانوں کو عوامی مقامات پر نماز پڑھنے سے یہ کہہ کر روکا جارہا ہے کہ وہ مسجدوں میں نماز پڑھیں لیکن دوسری طرف مسلمانوں پر مسجدوں میں نماز کی ادائیگی پر بندشیں لگائی جارہی ہیں۔ آخر یہ کون سا قانو ن اور دستور ہے۔ 
 

شیئر: