Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کرتاپورراہداری اور ہند کی مجبوری

***صلاح الدین حیدر***
حیران نہ ہوں، کبھی کبھی جانے انجانے میں دل شرارت پر اتر آتا ہے، دماغ میں تنائو اور کشمکش کی بھرمار تھی کہ آخر لکھا کیا جائے۔ جب کچھ سمجھ نہیں آیا تو سوچا کہ کیوں نہ آج کچھ بلا عنوان ہی زیر قلم کردیا جائے تو لیجیے حاضر ہے جو کسی بھی طرح مضمون کے زمرے میں نہیں آتا لیکن ہمیں کچھ سوچنے پر مجبور ضرور کردیتا ہے کہ ایک عنوان یہ کہ آج کی تحریر کا ملغوبہ بنادیا۔ آپ کی نظر میں یہ بکواس ہی سہی، مجھے تو اعتراض نہیں لیکن تھوڑا سا ذہن پر زور ڈالیں تو خود ہی جواب مل جائے گا کہ ملکی حالت کس ڈگر پر جارہے ہیں۔ ایک طرف تو عدالت عظمیٰ کے فرشتہ صفت چیف جسٹس انگلستان کے دورے پر بیٹے سے ملنے گئے کہ انہوں نے سوچا کہ کیوں نہ ایک ہفتہ اپنے فرض اولین سے انگلستان میں رہنے والوں کو بھی باخبر رکھا جائے، مانچسٹر، بریڈ فورڈ اور لندن میں تقریبات سے خطاب کیا۔ مسرت اس بات کی ہے کہ جو بیڑا انہوں نے بھاشا اور دیامر ڈیم کے لیے اٹھایا تھا آج ایک تحریک بن چکی ہے۔ ہر جگہ لوگوں نے جس میں مخیر حضرات کے علاوہ چیمبر آف کامرس اور عام اوسط درجے کے لوگ بھی موجود تھے، دل کھول کر چندہ دیا۔ صرف ایک میٹنگ میں 90 کروڑ پونڈ جمع ہوگئے۔ ان کی خوشی کی انتہا نہیں تھی۔ پانی جو اب زندگی اور موت کا مسئلہ بن چکا ہے، لوگ اسے اپنی بقا کی جنگ سمجھ کر لڑ رہے ہیں۔ 
دونوں ڈیمز کے لیے 2200 کروڑ روپوں کی ضرورت ہے لیکن اللہ نے چاہا تو یہ کام بھی بخیر و خوبی سر انجام پائے گا ۔ عوام میں جوش خروش ہے۔ہر شخص اپنا حصہ ڈالنے کیلئے چاہے وہ 10 روپے کاکیوں نہ ہو بے تاب ہے۔ اس کی مثال اس چڑیا کی ہے جو آگ کے شعلوں کو بجھانے کیلئے اپنی ننھی سی چونچ میں پانی کا ایک قطرہ لاکر گراتی رہی ۔ شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ   
شکوہ ظلمت شب سے تو کہیں بہتر تھا
اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے
دوسری طرف وزیراعظم نے کرتارپور سرحد کا سنگ بنیاد رکھ دیا اور سکھ بھائیوں کے لئے پاکستان میں ویزا ختم کر دیا کہ وہ اپنے مقدس علاقوں کا بھی بلا روک ٹوک دورہ کرسکیں۔ سدھو کے ساتھ ہند کا ایک وفد بھی تقریب میں شرکت کے لئے ہند سے آیا تھا۔ افسوس یہ ہے کہ ہند کی وزیر خارجہ سشما سوراج نے تو پہلے ہی انتخابات کی وجہ سے معذرت کر لی تھی، ان کے کہنے کے باوجود مشرقی پنجاب کے وزیر اعلیٰ نے تقریب میں شرکت نہیں کی۔ سشما سوراج نے خفت مٹانے کے لیے تو یہ کہہ دیا کہ وہ پچھلے 3 مہینوں سے اس بات پر قائم تھیں کہ کرتارپور کی تقریب میں ضرور شرکت کرینگی ۔ عمران نے ہندوستان کے وزیراعظم نریندر مودی کو بھی شرکت کی دعوت دی تھی، لیکن جواب نفی میں ملا۔ ادھر سشما سوراج نے ایک اور منطق گھڑ ڈالی کہ ہند پاکستان کو بات چیت اور اچھے ہمسائے بننے کی اشد ضرورت ہے لیکن صرف اسی ایک پوائنٹ پر باقاعدہ مذاکرات نہیں ہوسکتے۔ دلوں میں عداوت موجود ہو تو پھر آپ کچھ بھی کہہ لیں سمجھنے والے سمجھ جاتے ہیں، بہرحال پاکستان اور وزیراعظم نے اپنا فرض ادا کر دیا جس پر سکھ برادری بہت خوش ہے۔ معاملہ صرف اتنا ہے کہ ہند اس وقت اس تقریب کی مخالفت نہیں کرسکتا تھا کیونکہ انتخابات سر پر ہیں اور سکھوں کے ووٹ کہیں بی جے پی سے ناراضی کی وجہ نہ بن جائیں۔ تقریب میں شرکت کے لئے آمادگی بی جے پی کے لئے ایک مجبوری تھی۔ تقریب میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ بھی شریک ہوئے، ورنہ بی جے پی کا بس چلتا تو کرتارپور کی تقریب کا بائیکاٹ کردینے میں دیر نہیں لگاتی۔
ادھر کراچی میں تجاوزات کو گرانے کا سلسلہ زور و شور سے جاری ہے، مقصد تو ٹھیک ہے لیکن وقت غلط چنا گیا، ہزاروں بلکہ لاکھوں افراد اور خاندان بے روزگار ہوگئے۔ پہلے ان کے گھر کے اخراجات یا کاروبار کو جاری رکھنے کا بندوبست کیا جاتا ۔3 ماہ کا نوٹس دیا جاتا اور پھر اگر یہ کام ہوتا تو سب ہی سراہتے۔ اس کا ذمہ دار کون ہوگا؟ کیا کراچی کے میئر صاحب جواب دے پائیں گے؟ کراچی پہلے ہی کچرے کا ڈھیر بنا ہوا ہے، اب ایک نئی مصیبت آن پڑی ہے۔ پیپلز پارٹی کی حکومت تو بہت خوش ہوگی کہ چلو سب کچھ ایم کیو ایم کے میئر کے کھاتے میں لکھا جارہا ہے لیکن کیا سندھ کے وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ کی بھی کوئی ذمہ داری بنتی ہے کہ نہیں؟ اہم سوال ہے، جواب ضرور ڈھونڈیئے۔
 

شیئر: