Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

محبان عمران کا ”یوٹرن“

حکومت کے 100دن مکمل ہوئے تو ڈالر کی قدر میں 8روپے اضافہ ہوگیا،اسٹیٹ بینک کے اعلیٰ عہدیداران نے چپ سادھ رکھی ہے، مہنگائی کے نئے طوفان کے امکانات ہیں 
زبیر پٹیل۔ جدہ
اگست میں پاکستان میں انتخابات کے بعد وجود میں آنے والی پی ٹی آئی حکومت کو ابھی 100دن ہی مکمل ہوئے ہیں، اس عرصے میں کئے جانے والے حکومتی اقدامات سے عوام اتنے زیادہ خوش نہیں جتنے وہ انتخابات سے قبل اور پھرانتخابات میں کامیابی پر خوش تھے۔ حکومت کے 100 دن مکمل ہونے کے بعد ڈالر نے اونچی پرواز کی اور 8روپے کے اضافے کے بعد قیمت 142تک جاپہنچی۔ جس کے بعد کرنسی کا کاروبار کرنے والوں نے بلیک مارکٹنگ کاسلسلہ شروع کردیا اور یوں ڈالر ملک میں نایاب رہا۔ملکی اسٹاک مارکیٹ میں سرمایہ کاروں نے مزید سرمایہ کاری سے ہاتھ کھینچ لیااس طرح ایک نیا تکلیف دہ سلسلہ شروع ہوگیا۔ بعدازاں اسٹیٹ بینک کی جانب سے بیان آیا کہ ڈالر کی قیمت میں اضافہ اس نے کیا ہے اور یہ اقدام معیشت کی بہتری کیلئے کیا گیا ہے ۔ اس کے ساتھ ہی اسٹیٹ بینک نے شرح سود میں 1.5فیصد اضافہ کر دیا یوں گویا ”یک نہ شد ،دو شد“ والا معاملہ ہوگیا۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اسٹیٹ بینک نے روپے کی قدر گرا کر آخرکس بہتری کی نوید سنانے کی کوشش کی ہے ؟کیا اسے یہ علم نہیں تھا کہ ڈالر کی قدر بڑھانے سے ملک پرقرضوں کا بوجھ مزید بڑھے گا۔ کیا اس بوجھ سے ملک و قوم کو بچانے کے سلسلے میں اس نے کوئی کارروائی کی ہے؟اسی طرح آئندہ چند دنوں میں ملک میں مہنگائی کا نیا طوفان بپا ہونے کے جو خدشات سر ابھار رہے ہیں، انہیں روکنے یا لگام دینے کے لئے کسی قسم کے ا قدامات کئے گئے ہیں؟معیشت کی اس غیر یقینی دگرگوں صورتحال پر اسٹیٹ بینک کے اعلیٰ عہدیداران نے چپ کیوںسادھ رکھی ہے ؟ 
گزشتہ جمعہ کو روپے کی قدر گرنے کے بعد کاروباری طبقے نے محتاط رویہ اپنانے کا فیصلہ کیا اور ایک اندازے کے مطابق اسٹیٹ بینک کے اس اقدام سے ملک کو سب سے زیادہ نقصان دہ صورتحال کا سامنا آئندہ چند دنوں میں کرنا پڑیگا جب روپے کی قدرمیں کمی کے باعث قرضوں کے بوجھ میں ا ضافے کے اثرات نمودار ہونا شروع ہوں گے۔
اسی دوران خبر آئی کہ آئی ایم ایف سے معاہدہ طے پارہا ہے اور اس کے ساتھ ہی حکومتی وزراءنے رٹے رٹائے جملے اور ماضی کے وزراءجیسے گھسے پٹے بیانات داغنے شروع کر دیئے کہ” ڈالر کے نرخ بڑھنے پر گھبرانے کی ضرورت نہیں،یہ چند دن میں واپس آجائے گی۔ روپے کی قدر بہتر ہوجائیگی، روپے کی قدر کی بہتری کیلئے یہ سب کیا گیا ہے “ وغیرہ وغیرہ ۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ روپے کی قدر گرا کر ملک اور وطن کی کونسی بہتری کی گئی ہے۔ حکومت کو اس سلسلے میں اسٹیٹ بینک کے عہدیداروں سے جواب طلب کرنا چاہئے کہ انہوں نے آخر یہ قدم کیوں اٹھایا؟ 
ہفتے کو دوسرے دن کرنسی مارکیٹ کھلتے ہی ابتداءمیںڈالر 142سے بڑھ کر 143تک جاپہنچا۔ ماہرین کا کہناہے کہ اس طرح کے اقدام سے صرف چند لوگ فوائد سمیٹتے ہیں اوروہ ایک دن میں لکھ پتی سے ارب پتی بن جاتے ہیں۔ ماہرین کا یہ بھی کہناہے کہ ایک دن کے اس ”الٹ پھیر“ سے ملک 10قدم پیچھے جاتا ہے جس کا نقصان آنے والے دنوں میں عوام کو بھگتنا ہوگا۔اس کا سلسلہ پیر کو کرنسی مارکیٹ کھلنے کے بعد سامنے آنے والی صورتحال سے شروع ہو چکا ہے ۔ کاروبارکے آغاز پر اسٹاک ایکسچینج میں مندی کا رجحان رہا اور انڈیکس گر گیا۔آئندہ چند دنوں میں دیکھئے کہ حالات کس نہج پر جاتے ہیں۔
بعض ماہرین معیشت کا کہناہے کہ روپے کی اس حد تک بے وقعتی درست نہیں۔یہ درست ہے کہ موجودہ حکومت کو خزانہ خالی ملا تھا مگر اسکا حل یہ نہیں تھا جو اسٹیٹ بینک اور دیگر افراد نے مل کر کیاہے۔ یہ معاملات آئی ایم ایف سے باہر رہ کر بھی ”طریقے“ سے انجام دیئے جاسکتے تھے۔
وزیر خزانہ نے عہدے کا حلف لینے سے قبل کوئی شارٹ ٹرم اسٹریٹیجی تیار ہی نہیں کی۔ یہ تو ملک کا بچہ بچہ جانتا تھا کہ” ملکی خزانہ خالی ہے اور پی ٹی آئی کےلئے حکومت کرنا کانٹوں بھرا راستہ ہوگا“۔اگر ابتداءمیں کوئی اچھی پالیسی اپنالی جاتی تو شاید یہ پریشانی نہ ہوتی ۔ آئی ایم ایف سے بچنے کیلئے بہت سارے حل تھے مگر ان آپشنز کی جانب وزیر خزانہ نے دھیان ہی نہیں دیا۔ نہ ہی وہ بیرونی ممالک سے پیسہ لانے میںاس حد تک کامیاب ہوسکے جتنی وہ امیدیں وابستہ کئے ہوئے تھے۔ سوال یہ ہے کہ آخر دوست ممالک نے ہم پر اتنا اعتبار کیوں نہیں کیا جتنا ماضی میں کیا جاتا رہا ۔ کیا ہماری سرمایہ کاری پالیسیاں اتنی فرسود ہ ہو گئی ہیں؟ اس سلسلے میں ہمیں چین کی برآمدی پالیسی سے سبق حاصل کرنا چاہئے کیونکہ چین ہم سے ایک سال بعد آزاد ہوااور اتنی تیزی سے ترقی کی کہ آج دنیا حیران ہے اور اسکے زرمبادلہ ذخائر ہماری سوچ سے کہیں زیادہ ہیں ۔ یہی نہیں بلکہ ان میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اضافہ ہی ہورہا ہے۔ آج وہ ”صنعتوں کا جنگل “ بن چکا ہے۔ یہ سب کچھ” متحد“ رہنے اور اچھی سرمایہ کاری پالیسیوں کے نفاذکا نتیجہ ہے۔
ہمارے ہاں فی الوقت ملکی برآمدات کے حوالے سے کوئی کام نہیں کیا گیا اور نہ ہی بیرون ملک پاکستانی اشیاءکی برآمدات کے حوالے سے کوئی ایسی پالیسی ترتیب دی گئی ہے جس سے ملک میں روزگار بڑھے اور عام آدمی کو اس سے فائدہ ہو۔ یہملک میں اب تک وہی پالیسی چل رہی ہے جو سابقہ حکومتی دور کی بنی ہوئی ہے۔ اس میں کوئی ردوبدل نہیں کیا گیا۔ وزیر خزانہ نے ابتدا میں معیشت کی بہتری کے حوالے سے کچھ ایسے فیصلے کئے جو انہیں نہیں کرنے چاہئیںتھے ۔انہی فیصلوں کے نتیجے میںآج معیشت بدترین صورتحال سے دوچار ہے۔ اگر وہ شروع میں ایک شارٹ ٹرم اسٹریٹیجی لیکر چلتے تو شاید روپے کی قدر یوں نہ گرتی ۔
ہمارے یہاں اصل مسائل کی جڑ شاہانہ اخراجات ہیں۔ موجودہ حکومت نے اخراجات تو کم کردیئے مگر وزراءکی فوج ظفرموج کے اخراجات اپنی جگہ ہیں جن کا ہمارا ملک متحمل نہیں ہو سکتا ۔ پی ٹی آئی سربراہ کو چاہئے تھا کہ وہ مٹھی بھر وزیر بناکر انہی سے سارے کام لیتے۔ اس طرح اخراجات پر کنٹرول ہوسکتا تھا۔ اسی طرح صوبوں میں بھی کیا جاتا یوں وہ عوام میں ابتداءمیں ہی مقبولیت حاصل کرلیتے۔اب بھی اگر وزراءکی تعداد میں کمی کی جائے اور انہیں ملکی امور انجام دینے کی ذمہ داری سونپی جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ معاشی مسائل و مشکلات حل کرنے میں مدد نہ مل سکے ۔ ہونا یہ چاگہئے کہ ایک وزیر کے ذمہ کئی کام لگائے جائیں کیونکہ انتخابات سے قبل ان سب کا یہی نعرہ تھا کہ وہ پاکستان اور اسکے عوام کی خدمت کرنا چاہتے ہیں۔ اب وقت ہے اور آزمائش بھی اس میں پورا اتریں اور اپنے حوالے سے ثابت کریں کہ وہ سچے پاکستانی ہیں اور ملک و قوم کے خیر خواہ ہیں۔انہیں چاہئے کہ وہ اپنے شاہانہ اخراجات میں کمی کریں۔ اس وقت تمام وزراءکافی مالدار اور صاحب حیثیت ہیں ، وہ اگر حکومتی تنخواہ اور ٹی اے ڈ ی اے وصول نہیں کریں گے تو انہیں کوئی فرق نہیں پڑے گا۔
گزشتہ 70سال سے ملک میں یہی ہوتا آیا ہے کہ وزراءو سرکاری ذمہ داران ہمیشہ عوام سے قربانی مانگتے رہے ہیں مگر وہ خود کسی قسم کی قربانی سے گریز کرنا اپنا حق سمجھتے ہیں۔اگر کبھی کسی لیڈر نے اس قسم کی ”حرکت“ کی تو وہ محض میڈیا اور پریس میں دکھاوے کیلئے ۔آج ضرورت اس بات کی ہے کہ ہر شخص ملک سے مخلص ہوکر قربانی کے جذبے سے سرشار ہوکر آگے بڑھے اور اپنے حصے کا حق ادا کرے کیونکہ یہ وطن صرف عوام کا نہیں بلکہ اس میں موجود ان تمام وزراءکا بھی ہے جو اعلیٰ عہدوں پر براجمان ہیں کیا ان کا فرض نہیں بنتا کہ وہ ملک سے مخلص ہوں۔سوال یہ ہے کہ روپے کی بے قدری آخر کب تک یونہی ہوتی رہے گی؟
اگر پی ٹی آئی کی100روزہ کاوشوں اور کارکردگی کا ایمانداری سے جائزہ لیا جائے توبلاہ شبہ یہ ماضی کی حکومتوں سے کافی بہتر ہے مگر پی ٹی آئی سے عوام کو جو امید تھی اور توقع تھی کہ عمران خان کی حکومت آتے ہی سارے مسائل فوری حل کردیگی ، وہ ”یقین، توقع، امید ، امکان “ سب سراب ثابت ہوا۔ یوں پی ٹی آئی حکومت کی کارکردگی سے مایوس ”محبان عمران“بھی ”یو ٹرن“ لےنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔جس کے باعث عوام میں بے چینی پیدا ہونے لگی ہے اور وہ دوبارہ پرانی حکومتوںکی جانب دیکھنے لگے ہیں۔ عوام کے اس ”یوٹرن“ سے مختلف اہوزیشن جماعتوں کے لیڈر اپنے بھڑکیلے بیانات کے ذریعے عوام کو ایک بار پھر اپنے دام میں پھانسنے کی کوششوں میںجُت گئے ہیں۔
اگر پی ٹی آئی 5سال اور اس سے زیادہ ملک میں حکومت کرنا چاہتی ہے تو اسے چاہئے کہ وہ فوری طورپر شارٹ ٹرم اسٹریٹیجی تیار کرے جس میں عوام کے اولین مسائل کا حل موجود ہو۔ ویسے بھی میئر کراچی، اپنی سرکردگی میں تجاوزات کے خاتمے کے دوران عوام کا کافی نقصان کراچکے ہیں اور بہت سے لوگ بے روزگار ہوچکے ہیں۔ کیاصاحبان اختیار ان تجاوزات کے اصل ”مجرموں“بلدیہ کے ذمہ داران کو بھی قرار واقعی سزا دے سکیں گے ؟
********
 

شیئر:

متعلقہ خبریں