Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

جزیروں کے ملک انڈونیشیا میں4 روز

 ***عبدالمالک مجاہد.الریاض***
8نومبر 2018ء کو جمعرات کا دن تھا۔میں نے اور میری اہلیہ نے تین راتیں شارجہ میںگزاریں ۔ شارجہ کے بک فئیر میں شرکت کی اور کم و بیش صبح 8بجے دوبئی ایئر پورٹ کی طرف روانہ ہوئے ،ہماری اگلی منزل جکارتہ تھی۔ دارالسلام شارجہ برانچ کے خالد شاہین بروقت گاڑی لے کر آ گئے۔ عموماً شارجہ سے دوبئی ایئرپورٹ کی طرف جائیں تو خاصا وقت لگ جاتا ہے۔ سڑکوں پر غیر معمولی اژدہام ہوتا ہے۔ مگر آج رش خاصا کم تھا کوئی آدھ گھنٹہ میں ہم بڑے آرام سے دوبئی انٹرنیشنل ایئر پورٹ کے اندر تھے۔ بلاشبہ دوبئی کے ایئرپورٹ کا شمار دنیا کے بڑے اور نہایت خوبصورت ایئرپورٹس میں ہوتا ہے۔ ایئر پورٹ کی تعمیر چند سال پہلے ہی مکمل ہوئی ہے۔ میرے بیٹے طلحہ مجاہد نے کم و بیش سات سو ریال زیادہ دے کر ہمارے لیے فرنٹ سیٹیں بک کروا رکھی تھیں۔ نومبر کے مہینہ میں بہت کم لوگ سفر کرتے ہیں۔ اس لیے ایئرپورٹ بھی خالی نظر آیا۔ میں نے عادت کے مطابق پورٹر کروا لیا تھا۔ سامان اگر زیادہ نہیں تو کم بھی نہیں تھا۔ میرے اور اہلیہ کے وزن سمیت ہمارے پاس60 کلو گرام کی گنجائش تھی۔ کاونٹر خالی پڑے تھے۔ ایک خاتون نے پورٹر کو اشارہ کیا کہ اس طرف آ جاؤ۔ بڑی ہی نفیس خاتون تھی، اس نے بڑی عزت کے ساتھ پاسپورٹ کی تلاشی لی۔ ویزا دیکھا اگلے سفر کے بارے میں سوالات کیے۔ اور پھر سیٹوں کے لیے اپنی رائے دینے لگی کہ اگر آپ فلاں جگہ بیٹھیں گے تو آپ کے لیے آسانی ہو گی۔ جکارتہ کے لیے آٹھ ساڑھے آٹھ گھنٹے کی فلائٹ تھی۔ کوئی پانچ منٹ کی گفتگو کے بعد جس میں کئی تجاویز آئیں اور کئی رد کی گئیں بالآخر اس نے ہمیں فرنٹ رو میں دو سیٹیں دے دیں۔ ایمیگریشن، سیکورٹی چیکنگ معمول کی کاروائی ہوتی ہے۔ ایئرپورٹ کی سکیورٹی پانی اندر نہیں لے جانے دیتے اس کی حکمت میں نہیں جانتا البتہ انہوں نے بڑے پیار سے پانی والی بوتلوں کو ہمارے سامان سے نکال دیا اور ہمیں اگلی طرف جانے کا اشارہ کر دیا۔ میں نے گھڑی دیکھی ہماری فلائٹ میں دو گھنٹے باقی تھے ۔ روانگی والے گیٹ تک پہنچنے میں خاصا وقت لگ سکتا تھا کہ ایک گاڑی ہمارے پاس آ کر رکی اور اس نے ہمیں گیٹ کے قریب کر دیا۔ ہم نے ایک ریسٹورنٹ میں بیٹھ کر مزیدار ناشتہ کیا۔ کافی عرصہ سے کپ چینو نہیں پی تھی۔ اس کے ساتھ سینڈوچ ، ہم دونوں میاں بیوی کے لیے ایک کپ بھی کافی تھا۔ ناشتہ خاصا مہنگا مگر لذیذ تھا۔
آخر وہ مرحلہ بھی آیا کہ ہمارے پاسپورٹ کو پھر باریک بینی سے دوبارہ چیک کیا گیا۔ بورڈنگ پاس اور پاسپورٹ کے نام آپس میں ملائے گئے اور ہمیں جہاز کی طرف بڑھنے کا اشارہ مل گیا۔ امارات ایئر لائن بلاشبہ دنیا کی بہترین ہوائی سروس ہے۔ سیٹیں خاصی کھلی اور کشادہ ہیں ۔ تاہم اس کے ٹکٹ دوسری ایئر لائنز کے مقابلہ میں خاصے مہنگے ہیں۔ ہماری سیٹیں سب سے آگے تھیں۔ جہاز کے اندر خاصی سیٹیں خالی تھیں اس لیے ہمیں اگلی سیٹوںکے حصول کے لیے سات سو ریال خاصے بھاری لگے۔ ہمارا خیال تھا کہ جکارتہ کا سفر خاصا لمبا ہے راستے میں بڑے بور ہوں گے مگر ہم کچھ پڑھتے، کچھ ذکر اذکار ، نمازیں ادا کرتے، کھاتے پیتے ، آپس میں باتیں کرتے ، سفر کو انجوائے کرتے رہے۔ ہماری عادت ہے کہ ہم دونوں میاں بیوی دو قسم کا کھانا لے لیتے ہیں۔ آپس میں شیئر کر لیتے ہیں۔ اس لیے ایک ٹکٹ میں مفت کے دو مزے آ جاتے ہیں۔ امارات ایئر لائن کا کھانا بلاشبہ بڑا معیاری اور مزیدار تھایہ علیحدہ بات ہے کہ کھانے میںانڈونیشی ذائقہ تھا۔ میں اس سے پہلے بھی دو یا تین مرتبہ جکارتہ آ چکا ہوں۔ ہماری فلائٹ جکارتہ ایئر پورٹ پر اتری تو رات کے نو بج رہے تھے۔ میں کوئی بارہ چودہ سال بعد جکارتہ آیا تھا۔ ایئر پورٹ پر توقع کے مطابق سلوک ہوا ایمیگریشن افسر کے سوالات کتنے دن کا قیام ہے کونسا ہوٹل اور واپسی کا ٹکٹ، میں نے سارے کاغذات ایک فائل میں رکھ چھوڑے تھے۔ وہ جیسے جیسے کاغذات طلب کرتا گیا میں اسے دکھاتا چلا گیا پھر کھٹ کی آواز آئی پہلے ایک پاسپورٹ پر پھر کچھ وقفہ بعد دوسرے پاسپورٹ پر مہر لگائی اور پاسپورٹ میرے حوالے کر دیا۔ یہ پرانا ایئرپورٹ تھا۔ میں پہلے جکارتہ آیا تو اسی ایئرپورٹ پر اتراتھا۔ مگر اب جکارتہ کا نیا ایئرپورٹ بن گیا ہے۔ جس کا ذکر بعد میں کروں گا۔ نیا ایئرپورٹ اتنا بڑا اور خوبصورت ہے کہ عقل ماننے کو تیار نہیں کہ انڈونیشی ایک غریب قوم ہے۔ 
معمول کے مطابق پورٹر تلاش کیا مگر کوئی بھی پورٹر نظر نہ آیا۔ میں اپنے بھاری سامان کو اس لیے نہیں اٹھاتا کہ کہیں اگر توازن برقرار نہ رہے تو چوٹ بھی لگ سکتی ہے اور ہڈی کو نقصان بھی پہنچ سکتا ہے۔ میں متعلقہ آفیسر کے پاس چلا گیا اور پوچھاکہ پورٹر کدھر ہے؟ کہنے لگا کہ ہمارے پاس زیادہ پورٹر نہیں ہیں آپ ذرا انتظار کریں ابھی آ جائے گا ۔ بالآخر ہمیں ایک پورٹر نظرآ ہی گیا میں نے اسے اشارہ کیا تو اس نے فورا ہمارا سامان لادا اور باہر کی طرف چل دیا۔ کافی لمبی لائن تھی ،ہر بیگ کو سکین کیا جا رہا تھا۔ تاہم جلد ہی باری آ گئی اور ہم باہر اپنے میزبان کو تلاش کر رہے تھے۔ میں نے پورٹر کو پیسے دینے کی خاصی کوشش کی مگر اس نے لینے سے انکار کر دیا۔ میری خواہش تھی کہ میزبان کے آنے سے پہلے میں اس کو فارغ کر دوں۔ مگر میزبان نظر نہیں آ رہا تھا۔ میںنے اپنے میزبان جن کا نام محمد عبدالغفار تھا انہیں ایمیگریشن سے فارغ ہوتے ہی فون کر دیا تھا کہ ہم سامان کے انتظار میں ہیں آپ کہاں ہیں؟ کہنے لگا کہ میں ایئرپورٹ کے باہر آپ کے انتظار میں ہوں۔ پورٹر نے تھوڑی دیر انتظار کیا ہمیں ایک بینچ پر بیٹھنے کا اشارہ کیا اور وہ پیسے لیے بغیر ہی چلا گیا۔ ادھر میں نے عبدالغفار کو کال ملائی اس نے بتایا کہ میں غلطی سے نئے ایئرپورٹ پر چلا گیا تھا آپ تھوڑی دیر انتظار کریں۔ انتظار کی گھڑیاں بڑی سست ہوتی ہیں۔ کوئی دس پندرہ منٹ کے بعد عبدالغفار نے شکل دکھائی اس نے سامان کو دھکیلنا شروع کیا۔ ہم اس کے پیچھے پیچھے چل دیے۔ سامنے سڑک پر اس کی لینڈ کروزر نظر آئی۔ عبدالغفار خاصا جوان اور تنو مند نظر آیا اس نے مجھے اشارہ کیا کہ وہ سامان اکیلا ہی اٹھا لے گا۔ آپ لوگ گاڑی میں بیٹھیں۔
عبدالغفار کے ساتھ کافی مرتبہ فون پر بات چیت ہو چکی تھی۔ دارالماھر کے نام سے ان کا اشاعتی ادارہ ہے۔ وہ صحاح ستہ کا انڈونیشی زبان میں ترجمہ 8جلدوں میں شائع کر چکے ہیں۔ وہ ایک کامیاب اور بڑے اشاعتی ادارے کا مالک ہے۔ میں اس کے ساتھ تجربات کو شیئر کرنا چاہتا تھا۔ اگر سچ پوچھیں تو صحاح ستہ کو انڈونیشی زبان میں دیکھنے کا خواہش مند تھا جسے اس کے بقول وہ پچاس ہزار کی تعداد میں مارکیٹ کر چکا تھا۔
عبدالغفار نے مجھے بتایا کہ وہ ریاض میں مجھ سے دارالسلام کے ہیڈ کوارٹر میں ملاقات کر چکا ہے اور یہ کہ میں نے اسے کھانا بھی کھلایا تھا اس کی بڑی عزت اور تکریم کی تھی۔ ملاقات کو کتنے ہی سال گزر چکے تھے۔ میں تو ملاقات اور اس کی شکل کو بھی بھول چکا تھا۔ گاڑی میں لگی ہوئی گھڑی دس بجے سے اوپر کا وقت بتا رہی تھی۔ ہمارا ہوٹل کوئی چالیس منٹ کی مسافت پر تھا۔ عبدالغفار بڑی عمدہ عربی زبان بولتا ہے۔ میرا خیال تھا کہ وہ کسی سعودی یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہے۔ اس نے میرے اس سوال کے جواب پر بتایا کہ میں نے عربی زبان انڈونیشیا میں ہی سیکھی ہے۔ یہاں پر ایسے متعدد ادارے اور اکیڈمیاں موجود ہیں جو عربی زبان بولنا، پڑھنا اور لکھنا سکھاتے ہیں۔ ہم شہر کے وسط میں واقع اپنے ہوٹل کی طرف رواں دواں تھے کہ بارش شروع ہو گئی۔ بارش میری کمزوری ہے اس وقت رات کے گیارہ بج رہے تھے اس لیے سڑکوں پر رش زیادہ نہ تھا۔ تاہم عبدالغفار بار بار شکایت کرتا چلا آ رہا تھا کہ جکارتہ میں سڑکوں پر بہت زیادہ رش ہوتا ہے۔ ہوٹل تک چالیس منٹ کا فاصلہ بارش کی وجہ سے گھنٹہ بھر میں طے ہوا۔ 
ہمارا ہوٹل فورا سٹار اور خاصا بڑاتھا۔ جاتے ہی انہوں نے سبز چائے سے ہماری ضیافت کی۔ چائے واقعی بڑی مزیدار تھی۔ دوبئی سے چلے ہوئے کوئی گیارہ گھنٹے گزر چکے تھے۔ ہمیں بھوک لگ رہی تھی لیکن اس وقت بوفیہ ختم ہو چکا تھا۔ ہوٹل کے ملازم کہنے لگے ہم آپ کو کمرے میں کھانا مہیا کر دیں گے۔ عبدالغفار کو ہم نے الوداع کیا ان سے طے پایا کہ وہ کل صبح گیارہ بجے آ جائے گا۔ 
ہم جمعہ کی نماز کی ادائیگی کے لیے انڈونیشیا کی سب سے بڑی مسجد استقلال میں جائیں گے۔ ہم نے کھانے کا آرڈر دے دیا اور خود اپنے کمرے میں چلے گئے۔بھوک اتنی شدید تھی اور غلطی سے کھانابھی خاصا زیادہ منگوا لیا جو بہت مزیدارتھا ۔ جکارتہ میں عمومی طورپر روٹی کی بجائے زیادہ تر چاول کھائے جاتے ہیں۔ میں نے ویٹر سے کہا کہ دیکھو ہم نے غلطی سے کھانا زیادہ منگوا لیا ہے۔ یہ بالکل صاف ستھرا ہے اسے پھینکنا نہیں بلکہ کسی محتاج کو دے دینا ۔ اس نے مسکراتے ہوئے مجھے یقین دلایا کہ فکر نہ کریں کھانا ضائع نہیں ہو گا۔ میرے نزدیک اسراف بہت غلط بات ہے مگر زبان سے ناواقفیت کی بنا پر پردیس میں ایسی غلطی ہو جاتی ہے وہ لوگ جو تکبر کی وجہ سے کھانا ضائع کرتے ہیں یقینا وہ بہت بڑی غلطی کے مرتکب ہوتے ہیں۔ ہاں اگر بچا ہوا کھانا کسی مستحق کے ہاتھ لگ جائے تو یہ بہت بڑی نیکی ہے۔
صبح کا ناشتہ ہمارے پیکیج میں فری تھا۔ میں نے دوبئی ایئر پورٹ پر انڈونیشی کرنسی خرید لی تھی۔ میری پاکٹ کئی ملین روپوں سے بھری ہوئی تھی۔ مجھے یہ اطمینان تھا کہ میں اگر سعودی عرب یا پاکستان میں کروڑ پتی نہیں تو جکارتہ ایئر پورٹ پر اترتے ہی میں کروڑ پتی بن چکا ہوں۔ آج کل یہاں ایک ڈالر میں پندرہ ہزار روپے مل جاتے ہیں۔ کانٹی نینٹل ناشتہ کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ بوفیہ میں رکھی ہوئی دو درجن اشیاء میں سے آپ کی دلچسپی اور ذائقہ کی کچھ نہ کچھ اشیاء ضرور مل جاتی ہیں۔
عبدالغفار اپنے وقت سے تھورا سا لیٹ ہوٹل کی لابی میں پہنچ گیا۔ مجھے جمعہ کی جلدی تھی۔ جس کے بارے میں اس نے بتا دیا تھا کہ ساڑھے گیارہ بجے شروع ہو جاتا ہے۔ انڈونیشیا، ملائشیا، سنگاپور، برونائی وغیرہ شافعی مسلک سے تعلق رکھنے والے زیادہ تر لوگ ہیں۔ انڈونیشیا کا سرکاری مذہب بھی شافعی ہے۔ یہ لوگ امام محمد بن ادریس شافعی کے پیروکار ہیں۔ امام شافعی 150ہجری میں فلسطین کے شہر غزہ میں پیدا ہوئے اور 204ہجری میں مصر میں وفات پاتے ہیں۔ امام شافعی قریش تھے اللہ کے رسولکے رشتہ دار وں میں سے تھے۔ نہایت ذہین فطین اور قابل شخصیت تھے۔ امام احمد بن حنبل کے اساتذہ میں سے تھے۔ ان کی مشہور کتاب کا نام ’’الأم ‘‘ ہے۔ ان کا ایک قول امام ذہبی اعلام سیر النبلاء میں ذکر کرتے ہیں ’’نبی کریم کی ہر صحیح حدیث میرا مذہب ہے اگرچہ تم اسے میری زبان سے نہ سنو۔ جب صحیح حدیث سامنے آ جائے تو میرے قول کو دیوار پر دے مارو۔
ہمارے قارئین کو خوب علم ہوگا کہ انڈونیشیا اور اس کے ارد گرد ممالک پر کسی اسلامی لشکر نے چڑھائی نہیں کی نہ ہی کوئی اسلامی لشکر ان علاقوں میں گیا ہے۔ ان علاقوں میں اسلام مسلمان تاجروں کے ساتھ پہنچا۔ ان کی سچائی، کاروباری معاملات اور اعلی اخلاق کی بدولت لوگوں نے اسلام قبول کر لیا۔ بلاشبہ انڈونیشیا دنیا میں سب سے زیادہ مسلمان آبادی رکھنے والا ملک ہے۔ یہاں کی آبادی27کروڑ سے متجاوز ہے یہ آبادی کے لحاظ سے دنیا کا چوتھا بڑا ملک ہے۔ انڈونیشیا نے 17اگست 1945کو ہالینڈ سے آزادی حاصل کی۔ اس ملک میں سترہ ہزار سے زیادہ چھوٹے بڑے جزیرے ہیں۔
معزز قارئین کرام 9نومبر2018جمعہ کے روز ہماری گاڑی کا رخ مسجد استقلال کی طرف تھا۔ ام عکاشہ نے بھی مسجد میں جمعہ پڑھنے کی خواہش کی تھی۔ عبدالغفار نے بتایا کہ عورتوں کی خاصی بڑی تعداد نماز جمعہ کے لیے آتی ہے وہاں خواتین کے لیے نماز کی جگہ موجود ہے۔سڑکوں پر غیر معمولی رش تھا۔ آسمان پر بادل چھائے ہوئے تھے ہم درود شریف پڑھتے ہوئے مسجد کی طرف رواں دواں تھے۔ سڑک کے کنارے دونوں طرف بڑی بڑی عمارتیں ، ہوٹل ، شاپنگ سنٹر ہمیں بتا رہے تھے کہ یہ ملک اب غریب نہیں یہاں کی مالی حالت پہلے سے خاصی بہتر ہے۔
ہم لوگ جمعہ کی نماز سے پہلے ہی مسجد میں پہنچ گئے مسجد بلاشبہ بہت ہی بڑی ہے۔ اور سطح زمین سے 33میٹر اونچی ہے۔ مسجد کا ہال کوئی پانچ کنال پر مشتمل ہوگا۔ مسجد کئی منزلہ ہے۔ استقبالیہ پر بیٹھے ہوئے شخص نے ہمارے جوتے وصول کر کے ہمیں ایک نمبر تھما دیا۔ چلیے جوتے محفوظ ہاتھوں میں آ گئے۔
مسجد کتنے ایکڑ پر مشتمل ہے اس کا میں صحیح اندازہ نہ کر سکا۔ تاہم اس کے ارد گرد باغات تھے۔ سامنے اکلوتا مینار دکھائی دیا۔ جو کم و بیش سو میٹر بلند ہے مسجد کی تعمیر 1961ء میں شروع ہو کر 1975میں مکمل ہوئی۔ مسجد میں کم و بیش 2لاکھ افراد نماز پڑھ سکتے ہیں۔ مسجد میں صرف پانچ وقتہ نمازیں ہی نہیں بلکہ یہاں تحفیظ القرآن اور دیگر اسلامی علوم پڑھانے کے لیے کلاس روم اور ادارے بھی موجود ہیں۔ 
مسجد میں ان علوم کی تدریس کے لیے علیحدہ کمرے بنے ہوئے تھے انہیں دیکھ کر بڑی خوشی ہوئی۔ مسجد کے چاروں اطراف میں وسیع صحن ہیں۔ بڑے بڑے برآمدے ، اور اندر وسیع و عریض ہال نظر آیا۔ جس وقت میں مسجد میں داخل ہوا مسجد کا ہال نمازیوں سے  آدھا بھر چکا تھا۔ ایک مولانا صاحب انڈونیشی زبان میں تقریر کر رہے تھے۔ میں نے محراب کی طرف دیکھا اس کے دائیں طرف اللہ کا نام اور بائیں طرف محمدکا نام جلی قلم میں لکھا ہوا تھا۔ مسجد کا گنبد غیر معمولی بڑا تھا۔ فانوس بھی اسی طرح بڑا تھا۔ میں نے سنتیں ادا کرنے کے بعد مسجد کے چاروں طرف دیکھا مسجد کے ہال کو دیکھ کر دل خوش ہو گیا۔ مسجد انڈونیشیا کے سابق صدر سوکارنو کے حکم پر تعمیر کی گئی ہے۔ وہ تو وفات پا چکے ہیں تاہم ان کا یہ صدقہ جاریہ ان شاء اللہ قیامت تک جاری رہے گا۔ شافعی مسلک میں لوگ آمین بالجھر اور رفع الیدین کا اہتمام کرتے ہیں۔ مسجدوں میں آمین بالجھر سے مسجدیں گونج اٹھتی ہیں۔ انڈونیشی عموماً چھوٹے قد کے ہیں۔ جسمانی اعتبار سے بھی زیادہ بھاری جسم کے مالک نہیں ہوتے ، حلیم الطبع ہیں اور لڑائی جھگڑے سے عموماً دورہی رہتے ہیں۔ دین سے خوب محبت کرتے ہیں۔ چونکہ مسلمان آبادی بہت زیادہ ہے حکومت کے قانون کے مطابق زندگی میں ایک مرتبہ ہی حج پر جا سکتے ہیں ۔ تاہم محرم کی صورت میں دوسری یا تیسری بار بھی حج کر سکتے ہیں۔ انڈونیشیا چونکہ سعودی عرب سے خاصا دور ہے اس لیے ان کا حج پاکستان کے مقابلہ میں خاصا مہنگا ہے۔ ملک کے اقتصاد پر چینی باشندوں کا غلبہ ہے۔ تاہم میں نے جب تنخواہیں پوچھیں تو اتنی بری نہ تھیں۔ عبدالغفار کی اہلیہ انگلش ٹیچر ہیں انہوں
 نے تنخواہ چھ سے سات سو ڈالرز ماہانہ بتائی۔ شہر میں سفر کرتے جائیں تو آپ کو خاصی ہریالی نظر آئے گی اس کا سبب یہاں پر کثرت سے بارشوں کا ہونا ہے۔
قارئین کرام میں اپنے موضوع سے دور چلا گیا میں تو مسجد استقلال کی بات کر رہا تھا۔ ابھی دوسری اذان نہیں ہوئی تھی۔ ایک چھوٹی سی صندوقچی جسے پہیے لگے ہوئے تھے ہماری طرف بڑھتی آ رہی تھی۔ میں نے دیکھا کہ لوگ حسب توفیق اس میں لاکھوں کے حساب سے روپے ڈال رہے تھے۔ لوگ اپنا حصہ ڈال کر اسے آگے دھکیل دیتے۔ میرے سامنے آئی تو حسب توفیق میں نے بھی کچھ حصہ ڈالا۔ 
اور اسے دھکیل دیا۔ تھوڑی دیر کے بعد دوسری آذان شروع ہوئی۔ ماشاء اللہ موذن کی خوبصورت آواز سن کر مزا آ گیا۔ منبر خاصا اونچا تھا اس لیے دور سے امام صاحب صاف دکھائی دے رہے تھے۔ بڑی پاٹ دار واضح مگر قدرے دھیمی آواز میں انہوں نے خطبہ شروع کیا۔ ربیع الاول کا مہینہ شروع ہو چکا تھا اس لیے ان کا موضوع اخلاق نبوی تھا۔لوگوں کو کیسے حکمت کے ساتھ دعوت دی جائے۔ جب وہ قرآنی آیات کی تلاوت کرتے یا احادیث عربی زبان میں بیان کرتے تو مجھے معلوم ہو جاتا کہ اب وہ کیا کہہ رہے ہیں۔ ٹھیک ڈیڑھ بجے نماز ختم ہوئی۔ مسافر کے لیے سہولت ہے کہ جمع تقدیم کر سکتا ہے۔اسی سہولت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے میں نے عصر کی نماز بھی ادا کر لی۔اہلیہ کو میں نے بتادیا تھا کہ نماز کے اختتام پر کسی جگہ ملاقات ہوگی۔ میں نے دیکھا کہ خاصی بڑی تعداد میں فنڈ جمع کرنے والی صندوقچیاںدو تین شخص دھکیلتے ہوئے لے جار ہے ہیں۔ میں نے عبدالغفار سے پوچھا کہ کتنے لوگوں نے جمعہ کی نماز ادا کی ہو گی کہنے لگا کہ یہ کوئی تیس سے چالیس ہزار کے درمیان لوگ ضرور ہوں گے۔ اہلیہ نے بھی بتایا کہ میری توقع سے زیادہ خواتین نماز پڑھنے کے لیے موجود تھیں۔ اس کے بقول عورتوں کی جگہ بھی کھچا کھچ بھری ہوئی تھی۔  
 

شیئر: