Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بچھڑنا بھی ضروری تھا

’’گولے گنڈے جیسی خواتین‘‘، سعدیہ کا اشارہ بے ڈھنگے میک اپ کی طرف تھا تم ساری دنیا سے بے نیاز ہو کر ایک اَن نون فیملی کے ساتھ مُسلسل اپنا ٹائم اسپینڈ کر رہے ہو ، دوسروں کو بھی دیکھو، صارف نے بہت ضبط کے ساتھ مشرف کی سر زنش کی
(گزشتہ سے پیوستہ)
 مسز زاہدہ قمر۔ جدہ
وہ بہت غیر یقینی انداز میں نازو کی فیملی سے ملے۔ اس کے والدین کا انداز انہیں بہت کھَلا مگر انہوں نے بڑی متانت سے ان لوگوں کا استقبال کیا۔ تقریب بہت شاندار تھی۔ ہر لب پر تحسین کے کلمات تھے۔ پُر خلوص دوستوں اور رشتے داروں نے یوسف صاحب کو صدقِ دل سے دُعائیں دیں۔ وہ سب کے مشکور تھے۔ یوسف صاحب کے پورے گھرانے نے مہمانوں کا بے حد خیال رکھا۔ ان کی خاطر داری میں ذرہ برابر کمی نہیں آنے دی مگر ایک بات غیر محسوس انداز میں سب نے ہی محسوس کی کہ مُشرف پر نازو کا التفات کچھ زیادہ ہی تھا۔ وہ بار بار مُشرف کے ساتھ بے تکلفی سے بات کرتی ۔ اس کی حرکت دانستہ تھی۔ مشرف خود بھی یہ بات محسوس کر رہا تھا ۔ وہ نازوکو بلا کر خود کو شرمندہ سا محسوس کر رہا تھا۔ نرمین کا چہرہ پھیکا پڑ گیا تھا۔ وہ نازو اور مُشرف کی بے تکلفی پر بہت مضطرب دکھائی دے رہی تھی۔ غزالہ اور کشمالہ نے غیرارادی طور پر اس کی دلجوئی کی کوشش کی ۔ وہ اسے اپنی سہیلیوں سے ملوارہی تھیں۔ 
’’نرمین ‘‘ ، راحیلہ نے اسے پکارا ’’ادھر آئو! یہ میری دور کی نند ہیں، آئو تمہیں ان سے ملوائوں ۔‘‘ وہ اپنی بہنوں کا انداز اور رویہ سمجھ گئی تھی کہ دونوں نرمین کا ذہن بٹانے کی کوشش کر رہی ہیں لہٰذا وہ بھی فوری طور پر آگے آگئی۔’’یہ میری نند ہیں اور باجی ! یہ نرمین ہے ہماری ہونے والی بھابھی، یہ مُشرف کی منگیتر ہے ‘‘۔ انہوں نے اس کا ہاتھ بہت محبت سے تھام کر اپنی نند سے تعارف کر وایا۔
’’او، او، یہ ہیں نرمین ۔بہت پیاری ہے ۔راحیلہ، تم نے تو اپنے بھائی کے لئے دنیا میں ہی حور جیسی ہستی ڈھونڈ لی، بہت پیاری چوائس ہے تمہاری ‘‘،وہ بہت ستائشی انداز میں نرمین کو تک رہی تھیں۔ راحیلہ ہنس پڑی ۔ ’’دیکھ لیں،ہماری پسند کیسی لا جواب ہے۔ مانتی ہیں جناب؟‘‘ وہ خوش دلی سے نند کی تعریف قبول کر رہی تھی۔ ’’خیر تمہاری پسند بھی اچھی ہے مگر تم نے ہماری بھابھی سے اچھی بھابھی نہیں ڈھونڈی ، اپنے بھائی کے لئے ‘‘۔ راحیلہ کی نند نے بہت محبت سے راحیلہ کی تعریف کی تو نرمین بھی ان کے خلوص کی قائل ہو گئی۔’’مگر ایک بات تو بتائو، یہ مشرف بھائی اتنی خوبصورت منگیتر کو چھوڑ کر یہ گولے گنڈے جیسی خواتین سے گفتگو میںکیوں اپنا قیمتی وقت ضائع کر ہے ہیں؟ ‘‘ سعدیہ (نند) کا اشارہ نازو فیملی کی خواتین کے بے تحاشا اور بے ڈھنگے میک اپ کی طرف تھا مگر راحیلہ کا دل دھک کرکے رہ گیا۔ ’’اُف ! تو یہ بات سب محسوس کر رہے ہیں۔مشرف بھائی کی یہ حرکت سب پر آشکار ہے ؟ وہ شدید خفت اور کوفت کا شکار ہو گئی۔ وہ نرمین کو بہلانے کے لئے سعدیہ باجی کے پاس لائی تھی مگر یہاں تو ہر شخص مشرف کی داستان سُنانے پر تُلا بیٹھا تھا۔ 
نرمین نے کرب سے راحیلہ کو دیکھا تو اس کی یہ حرکت سعدیہ نے بھانپ لی۔ ’’ارے میں تو مذاق کر رہی تھی! بھئی میری کسی بات کو سیریس مت لینا، مشرف ڈاکٹر ہے اور اس کے سرکل میں ہر طرح کے لوگ ہیں۔ تم بھی شادی کے بعد ایسے رنگ برنگے لوگوں سے مل کر خوش رہو گی‘‘۔ وہ اپنی بات کا اثرزائل کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔ نرمین اور راحیلہ زبردستی مُسکرانے لگیں۔نرمین کے دل کا راجکمار پھولوں کی وادی سے صحرائوں کی جانب نکل آیا تھا ۔شاید اس کی گرد راہ نرمین کو اپنی سانسوں میں ریت سی اُڑاتی محسوس ہو رہی تھی۔اسے لگا کہ ارد گرد کی تمام روشنیاں بھی اس کے دل میں اُترتے اندھیرے کو کم نہیں کر پائیں گی۔ صبح روشن کی مانند جگمگا تے اس کے چہرے پر شام کی اُداسیا ں اُترنے لگیں۔ پھر اس کا دل کسی بات میں بھی نہیں لگا۔ اس نے کھانا کھاتے ہی ابو سے جلد جانے کی ضد شروع کر دی۔ صارف بے بسی سے سب کچھ دیکھ اور سن رہا تھا ۔اس نے اپنی زندگی میں پہلی بار خود کو ااتنا بے بس اور بے اختیار گر داناتھا۔
’’کاش! میں اس پیاری سی لڑکی کے لئے کچھ کر سکتا‘‘ان ماند پڑتی چمکتی آنکھوں کی جگمگاہٹ کے لئے ستاروں کا ہجوم اکٹھا کر لیتا۔اس کی نظریں رہ رہ کر نرمین کی جانب اُٹھ جاتیں اور پھر وہ ملامتی انداز میں مُشرف کو دیکھتا جو نازو کے بناوٹی اور مصنوعی التفات پر سب کچھ بھلائے ہوئے تھا۔ آخر اس کے ضبط کے تمام بند ٹوٹ گئے اور وہ مُشرف کے سامنے جا کھڑا ہوا۔’’مشرف!ذرا اِدھر آئو ،مجھے تم سے بات کرنی ہے ‘‘ اس نے مُشرف کو مُخاطب کیا۔اس کی وجاہت اور اسٹائلش ڈریسنگ نے اسے عجیب سا حُسن عطا کیا تھا۔ وہ اس قابل تھا کہ اسے خواب بنا کر آنکھوں میں سجایا جاتا۔ آج بھی تمام تقریب میں ہمیشہ کی طرح ہر نگاہ کا مرکز تھا۔ نازوبھی کئی بار اسے دیکھ چکی تھی اور اب وہ اس کے سامنے کھڑا تھا۔ بے شک وہ مُشرف سے مُخاطب تھامگر نازوہمہ تن گوش تھی۔ اس نے بڑی لگاوٹ سے صارف سے حال احوال دریافت کیا مگر وہ اس کو نظر انداز کر کے بھائی کو اکیلے میں آنے کا اشارہ کر کے آگے بڑھ گیا۔ 
مشرف نے نازو کی فیملی سے معذرت کی اور صارف کے ساتھ کونے میں آ گیا۔’’یہ کیا ہو رہا ہے مشرف؟‘‘ وہ برہمی سے پوچھ رہا تھا۔’’ کیا بھائی جان؟ کیا ہو رہاہے ؟ ‘‘ ،وہ مصنوعی حیرانی سے پوچھنے لگا۔ ’’تمہیں نہیں معلوم کہ تم کیا کر رہے ہو؟ مجھ سے پوچھنے سے پہلے تم اپنے آپ سے پوچھو کہ کیا یہ سب صحیح ہے ؟ میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ تم اسقدر بے وقوف ثابت ہو سکتے ہو‘‘۔
’’میں اور بے وقوف ! یہ آپ کیوں کہہ رہے ہیں اور اس طرح کی باتیں کیوں کر رہے ہیں‘‘۔ ’’تم بے کار لوگوں کے ساتھ اپنا قیمتی وقت ضائع کر رہے ہو ، تمہیںان لوگوں کے سوا کوئی بھی نظر نہیں آرہا؟ گھر میں اور بھی مہمان ہیں، تمہاری فیانسی سب سے زیادہ ڈیزرو کرتی ہے ۔تم ساری دنیا سے بے نیاز ہو کر ایک اَن نون فیملی کے ساتھ مُسلسل اپنا ٹائم اسپینڈ کر رہے ہو ، اب بس کرو اور دوسروں کو بھی دیکھو !‘‘۔ صارف نے بہت ضبط کے ساتھ مشرف کی سر زنش کی۔ اس کا دل توچاہ رہا تھا کہ مُشرف کو بے نقط سُنائے مگر وہ مُشرف کو اس موقع پر غُصہ دلا کر معاملہ بگاڑ نا نہیں چاہتا تھا اور نہ ہی وہ اپنے گھر والوں کی اتنی اہم خوشی کو بدمزگی میں تبدیل کرنے کا خواہاں تھا۔ اسے مشرف کے بدلے ہوئے تیور اچھی طرح نظر آگئے تھے اور نازو کے مکروہ عزائم بھی عیاں تھے مگر اس نے معاملہ فہمی سے کام لے کر مشرف کو باور کروایا کہ وہ اسے بے وقوف سمجھ رہاہے ۔ایسا بے وقوف جو سب کو یکساں وقت دینے میں ناکام ثابت ہو رہا ہے ۔ 
مشرف نے سکون کی سانس لی ۔ وہ واقعی قبل ازوقت ہی دل کے راز دنیا پر آشکار ا کرنے چلا تھا۔ 
(باقی آئندہ )
٭٭٭٭٭٭٭٭
 

شیئر: