Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ہندو راشٹر کی عدالت

***معصوم مراد آبادی ***
میگھالیہ ہائی کورٹ کے ایک جج نے ہندوستان کو ہندوراشٹر بنانے کا حکم  ایسے مرحلے میں دیا ہے جب حالیہ اسمبلی انتخابات میں رائے دہندگان نے ہندتو کے ایجنڈے کو پوری طرح مسترد کردیا ہے۔ ان پانچوں ریاستوں میں سیکولر حکومتیں قائم ہوئی ہیں اور ان میں 3 ریاستیں ایسی ہیں جنہیں کانگریس نے بی جے پی سے چھینا ہے۔ میگھالیہ ہائی کورٹ کے جسٹس سندیپ رنجن سین کی مجبوری اس حد تک تو سمجھ میں آتی ہے کہ وہ اب 61برس کے ہوچکے ہیں اور ان کے ریٹائرمنٹ کا وقت قریب ہے۔ عین ممکن ہے کہ وہ سبکدوش ہونے کے بعد کوئی سرکاری عہدہ حاصل کرنے کے خواہش مند ہوں اور اسی خواہش نے انہیں ایک ایسا حکم جاری کرنے پر مجبور کیا ہو جو انہیں سنگھ پریوار کی آنکھوں کا تارا بنادے لیکن یہاں بنیادی سوال یہ ہے کہ ملک کے سیکولر جمہوری دستور کی پیروی کرنے والے ایک جج نے انتہائی فرقہ وارانہ فیصلہ صادر کرتے وقت عدالت کے وقار کو ملحوظ نظرکیوں نہیں رکھا؟ جسٹس سین نے اپنے فیصلے میں ملک کو ہندوراشٹر بنانے کی پرزور وکالت ہی نہیں کی بلکہ ایڈووکیٹ جنرل سے یہ بھی کہاکہ وہ ان کے اس فیصلے کو وزیراعظم نریندرمودی کے علاوہ وزیرداخلہ اور پارلیمنٹ تک بھی پہنچائیں تاکہ اس فیصلے پر عمل درآمد ہوسکے۔ انہوں نے حکومت کو خبردار کیا ہے کہ وہ ہندوستان کو ایک مسلم ملک بننے سے بھی روکے کیونکہ اگر ایسا ہوا تو ملک میں تباہی مچ سکتی ہے۔ عام طورپر نوکرشاہوں کے بارے میں یہ کہاجاتا ہے کہ وہ سیاست دانوں کے اردگرد رہ کر اقتدار کے رسیا ہوجاتے ہیں اور اکثر نوکرشاہ ملازمت سے سبکدوش ہونے کے بعد سیاست کے میدان میں قدم رکھ دیتے ہیں لیکن ہمارے ملک کی عدلیہ بڑی حد تک اس بیماری سے محفوظ رہی ہے اور ایسا کم ہی ہوا ہے کہ ججوں نے ریٹائرمنٹ کے بعد سیاست کی پناہ حاصل کی ہو۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ بی جے پی کے اقتدار میں آنے کے بعد پہلی بار ایسا ہوا کہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو ریٹائرمنٹ کے بعد گورنر کی کرسی عطا کی گئی اور موصوف آج ایک ریاست کے گورنر ہیں۔ یہ کرسی ان کی کن خدمات کے عوض عطا کی گئی، اس بحث میں ہم فی الحال نہیں پڑنا چاہتے۔ بعض دیگر ججوں نے بھی ریٹائرمنٹ کے بعد سرکاری عہدوں سے فائدہ اٹھایا ہے لیکن ان کا دائرۂ کار قانونی اور دستوری امور تک ہی محدود رہا ہے لیکن ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ کسی برسرکار جج نے اپنی سیاسی خواہشات کو پورا کرنے کے لئے عدلیہ کو اس حد تک شرمسار کیا ہو۔ یوں تو جسٹس سندیپ رنجن سین کا 37صفحات پر مشتمل پورا فیصلہ پڑھنے اور سردھننے سے تعلق رکھتا ہے لیکن ہم یہاں اس کے کچھ خاص حصوں کو نقل کرنا چاہیں گے تاکہ آپ کو اندازہ ہوسکے کہ بی جے پی کے اقتدار میں آنے کے بعد ہندوراشٹر کے پیروکاروں کا دائرہ کس حد تک وسیع ہوچکا ہے۔ جسٹس سین نے اپنے فیصلے میں لکھا ہے کہ’’تقسیم کے وقت ہی ہندوستان کو ہندوراشٹر قرار دیا جانا چاہئے تھا لیکن ہم سیکولر ملک بنے رہے۔‘‘ انہوں نے اپنے فیصلے میں ملک کے وزیراعظم ، وزیرداخلہ اور پارلیمنٹ سے ایسا قانون بنانے کی سفارش کی ہے جس سے پڑوسی ملکوں یعنی پاکستان ، بنگلہ دیش اور افغانستان سے آنے والے ہندوؤں کو بغیر کسی پوچھ گچھ یا دستاویز کے ہندوستان کی شہریت مل سکے۔ انہوں نے اپنے فیصلے میں لکھا ہے کہ پاکستان نے خود کو اسلامی ملک قرار دیا ایسے میں ہمیں بھی ہند کو ہندوراشٹر قرار دینا چاہئے تھا۔ 
انہوں نے مذکورہ فیصلہ امن رانا نام کے ایک شخص کی عرضی پر سنایا ہے جنہوں نے رہائشی سرٹیفیکٹ حاصل کرنے کے لئے عدالت میں عرضی داخل کی تھی اور اس عرضی کو مسترد کردیا گیا تھا۔ اس مقدمے کی سماعت کرتے ہوئے جسٹس سندیپ رنجن سین نے کہاکہ’’ تینوں پڑوسی ملکوں میں لوگ آج بھی استحصال کا شکار ہیں اور انہیں معاشرے میں عزت بھی نہیں ملی۔ ان کے پاس آنے جانے کا متبادل نہیں ہے۔ یہ لوگ جب بھی ہندوستان آئیں تو انہیں یہاں کی شہریت عطا کردی جائے۔‘‘ اپنے اس فیصلے کو عملی جامہ پہنانے کے لئے فاضل جج نے اس یقین کا اظہار کیا ہے کہ صرف نریندرمودی کی زیر قیادت حکومت ہی اس مسئلے کی حساسیت کو سمجھ سکتی اور ضروری اقدامات کرسکتی ہے۔ انہوں نے اپنے فیصلے میں یہ بھی لکھا ہے کہ یہ خطہ ابتدا میں ایک ہندو ریاست تھا لیکن بعد کو یہاں مغلوں نے آکر ملک کے بیشتر حصوں پر قبضہ کرلیا اور ملک پر حکومت کرنے لگے۔ یہی وہ دور تھا جس میں سب سے زیادہ تبدیلی مذہب کے واقعات رونما ہوئے۔ جسٹس سین نے اپنے فیصلے میں کچھ توازن پیدا کرنے کے لئے آخر میں یہ بھی لکھ دیا کہ ’’وہ ان مسلم بہن بھائیوں کے خلاف نہیں ہیں جو پیڑھیوں سے ہندوستان میں رہتے ہیں اور قانون کی پاسداری کرتے ہیں۔ انہیں بھی یہاں امن وچین کے ساتھ رہنے کا موقع ملے گا۔‘‘  
جسٹس سین کے اس فیصلے کو پڑھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ کسی عدالت میں جج کی کرسی پر بیٹھ کر لکھا گیا فیصلہ نہیں ہے بلکہ اسے ناگپور میں آر ایس ایس کے ہیڈکوارٹر میں بیٹھ کر لکھا گیا ہے۔  بات محض اتنی ہی نہیں ہے کہ فاضل جج نے اپنا فیصلہ فرقہ وارانہ پروپیگنڈے سے متاثرہوکر لکھا ہے بلکہ بات دراصل یہ ہے کہ فاضل جج کی پوری سوچ ہی ہندوراشٹر کے سانچے میں ڈھلی ہوئی ہے۔ جسٹس سین نے جو کچھ بھی کہا ہے، وہ سب وہی باتیں ہیں جو آر ایس ایس کے لوگ ملک کو ہندوراشٹر بنانے کے لئے برسوں سے کہتے چلے آئے ہیں۔ آپ اس فیصلے کی روشنی میں اندازہ لگاسکتے ہیں کہ اس ملک میں آر ایس ایس کی مشینری کتنی مضبوط اور متحرک ہے۔ 
 

شیئر:

متعلقہ خبریں