Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پاکستان ہاکی ٹیم کو کروڑوں کے فنڈز ملے متوازن ٹیم نہ بن سکی

لاہور: سابق اولمپیئنز نے کہا ہے کہ ہاکی فیڈریشن تحقیقاتی کمیشن قائم کرکے14ویں ورلڈ کپ میں اپنی ناکامی پر پردہ ڈال رہی ہے اور جو سابق اولمپیئنز اس کمیشن میں شامل کئے گئے ہیں وہ بھی فیڈریشن کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں۔پاکستانی ٹیم صرف ہاری ہی نہیں بلکہ قومی کھیل کو بھی برباد کردیاہے اور اس کی ذمہ دار پاکستان ہاکی فیڈریشن ہے۔سابق کھلاڑیوں نے گزشتہ ہفتے ختم ہونے والے ہاکی ورلڈ کپ میں پاکستانی ٹیم کی مایوس کن کارکردگی کو پاکستان ہاکی فیڈریشن کی ناقص منصوبہ بندی اور دوست نواز پالیسی کا نتیجہ قرار دیا۔ سابق اولمپیئن سمیع اللہ کا کہنا تھا کہ حکومتیں ہر دور میں پاکستان ہاکی فیڈریشن کو فنڈز دیتی رہی ہیں لیکن فیڈریشن نے کوئی منصوبہ بندی نہیں کی۔ سمیع اللہ 1982 ء میں ہند میں ہونے والے ورلڈ کپ کی فاتح پاکستانی ٹیم کا حصہ تھے اور اسی سال ان کی قیادت میں پاکستانی ہاکی ٹیم نے ایشین گیمز میں گولڈ میڈل جیتا تھا۔سمیع اللہ نے کہا کہ ورلڈ کپ سے قبل فتح کے بلندو بانگ دعوے کرکے عوام کی توقعات میں اضافہ کیا گیا حالانکہ یہ حقیقت فیڈریشن حکام بھی جانتے تھے کہ ٹیم کی عالمی رینکنگ 13ویں ہے تو پھر نتیجہ بھی یہی آنا تھا۔ اب فیڈریشن تحقیقاتی کمیشن کے نام پر حکومت اور شائقین کو دھوکہ دینے کی کوشش کررہی ہے۔سابق اولمپیئن نوید عالم کا کہنا تھا کہ گزشتہ برسوں پاکستانی ٹیم صرف ہارتی ہی نہیں رہی بلکہ قومی کھیل کو بھی برباد کردیا گیا ہے۔ 4 سال میں پاکستان ہاکی فیڈریشن کو کروڑ وںروپے کے فنڈزملے لیکن وہ متوازن ٹیم تشکیل دینے میں مکمل ناکام رہی، ایک کے بعد ایک ٹیم مینجمنٹ آتی رہی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ورلڈ کپ جیسے ایونٹ میں پاکستانی ٹیم کے پاس کوئی پروفیشنل کوچ نہیں تھا۔نوید عالم نے کہا کہ فیڈریشن نے ماضی کے تلخ تجربات سے سبق نہیں سیکھا۔ 2010 کے ورلڈکپ میں حسن سردار چیف سلیکٹر تھے اور پاکستانی ٹیم 12 ویں نمبر پر آئی اور اب وہ منیجر تھے اور ٹیم کی پوزیشن وہی 12 ویں رہی۔ فیڈریشن کی جانب سے تحقیقاتی کمیشن قائم کیا جانا مضحکہ خیز ہے اور کھلاڑیوں پر شکست کا ملبہ گرا کر فیڈریشن خود بچنا چاہتی ہے۔ 2010 میں ایشین گیمز جیتنے والی پاکستانی ہاکی ٹیم کے گول کیپر سلمان اکبر کا کہنا تھا کہ پچھلے ورلڈ کپ میں پاکستانی ٹیم کوالیفائی نہیں کرسکی تھی لہذا اس مرتبہ بھرپور تیاری کی ضرورت تھی لیکن سیاسی اثر و رسوخ، پسند ناپسند اور بار بار ٹیم مینجمنٹ کی تبدیلی کے سبب ٹیم کو تیاری کا موقع ہی نہیں نہ مل سکا۔ٹیم کو رولینٹ آلٹمینز کی شکل میں اچھا کوچ ملا تھا لیکن اس نے بھی فیڈریشن کے غیر پیشہ ورانہ انداز کو دیکھ کر کنارہ کشی اختیار کر لی۔ پاکستانی ہاکی کو اس وقت ان کوچز کی ضرورت ہے جو عصر حاضر کی ہاکی کھیل چکے ہیں۔
 کھیلوں کی مزید خبریں اور تجزیئے پڑھنے کیلئے واٹس ایپ گروپ"اردو نیوزاسپورٹس"جوائن کریں

شیئر: