Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کیا عساف وزارت خارجہ کو جدید بناسکیں گے؟

صفوق الشمری ۔ الوطن
ڈاکٹر ابراہیم العساف کی تقرری سے مجھے ہی نہیں بہت سارے لوگوں کو اچنبھا ہوا۔ میں تسلیم کرتا ہوں کہ انہیں وزیر خارجہ مقرر کرنے پر ملے جلے جذبات سے میں دوچار ہوا۔ اسباب کئی تھے۔ پہلی بات تو یہ کہ مجھے انکی تقرری سے خوشی ہوئی۔ ایسا لگا کہ ہماری حکومت محسوس کرنے لگی ہے کہ ملک کے دفتر خارجہ کو جدید خطوط پر استوار کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ یہ بات خاص طور پر میں اس لئے لکھ رہا ہوں کہ سفارتخانوں اور وزارت خارجہ پر میں بہت سارے کالم قلمبند کرچکا ہوں۔ بلا مبالغہ یہ دعویٰ کرسکتا ہوں کہ بیرون ملک سعودی مراکز اور سفارتخانوں کی تنظیم نو کی ضرورت پر جتنے مضامین میں نے لکھے ہیں کسی اور نے نہیں تحریر کئے۔ کہہ سکتا ہوں کہ اس پر میرے مضامین کا تانتا بندھ گیا۔ بعض رفقائے کار اور دوست احباب میرے مضامین کے عنوان دیکھ کر تبصرہ کرتے کہ تم سوراخوں والی مشک میں پھونک بھر رہے ہو۔ میں نے سفارتخانوں پر دسیوں مضامین لکھے لیکن بے اثر ثابت ہوئے۔
بات سے بات نکلتی ہے۔ چند ہفتے قبل میں نے سفارتخانوں پر بڑا سخت مضمون لکھا تب الوطن کے رفقائے کار کی رائے یہ ہوئی تھی کہ میرے اس مضمون کو شائع نہ کیا جائے۔ غالباً انکی چھٹی حس بتا رہی تھی کہ کچھ نہ کچھ ہونے والا ہے۔
ہمارے یہاں ایک کہاوت ہے جسکا مفہوم یہ ہے کہ اختلاف رائے سے محبت کا رشتہ ختم نہیں ہوتا۔ اس کہاوت پر عمل درآمد بلا شبہ عرب دنیا میں نہیں بلکہ خارجی دنیا میں ہوتا ہے۔ آج تو ہماری گفتگو کا موضوع یہی ہے کہ کیا ڈاکٹر ابراہیم العساف سعودی وزارت خارجہ اور سفارتخانوں کی تنظیم نو کی مہم انجام دے سکیں گے؟ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ آرزو سعودی ریاست کے حجم اور قد سے بالا تر نہیں۔ مملکت کا بین الاقوامی رتبہ ہے جبکہ دفتر خارجہ کی کارکردگی انتہائی معمولی رہی۔ خاص طور پر آخری بحران سے نمٹنے کے سلسلے میں دفتر خارجہ کی کوتاہی ہر کس و ناکس نے محسوس کی۔ یہ بیحد اہم سوال ہے۔
تقریباً2عشروں سے سعودی سفارتخانوں سے میں کافی قریب ہوں۔ کئی ممالک میں سفارتخانوں کی کارکردگی ہر لحاظ سے غیر معیاری ریکارڈ کی گئی۔ سفارتی پس منظر ، عوام کے ساتھ معاملات اور رابطے کی مہارتوں سمیت ہر پیمانے سے سفارتی کارکردگی نہ ہونے کے برابر دیکھی گئی۔ حد تو یہ ہے کہ میزبان ممالک کے ساتھ ردعمل اور سفارتی رابطہ جات کے حوالے سے بھی سفارتخانے اپنا کرداربہتر شکل میں ادا نہ کرسکے۔
بعض اوقات ذہن میں یہ سوال کوندتا ہے کہ جس سفارتکار سے آپ کا واسطہ پڑ رہا ہے کیا وہ صحیح معنوں میں سفارتکار ہے بھی یا نہیں۔ کیا اسکے سوچنے کا طریقہ کار سفارتکاروں والا ہے؟
دراصل ہوا یہ ہے کہ سفارتکاری کی دنیا سے دور ایسے لوگ غفلت میں دفتر خارجہ کا حصہ بن گئے جن کا سفارتکاری سے کوئی لینا دینا نہیں تھا۔ یہ سفارشات کے گھوڑے پر سوار ہوکر سفارتی عمل میں داخل ہوگئے۔ انہیں سفارتکاری کی ابجد تک نہیں معلوم ۔ حد تو یہ ہے کہ ہمارے ڈپلومیٹک انسٹیٹیوٹ کی کارکردگی اور اس سے فارغ ہونےوالوں کا معیار بھی وہ نہیں جو ہونا چاہئے۔ بعض سفارتکار وں سے آپ یہ دعویٰ سنیں گے کہ انہیں 20سالہ تجربہ ہے اور بات چیت کرینگے تو پتہ چلے گا کہ ان کے پاس ایک سالہ تجربہ ہے جبکہ 19سال تک وہ پہلے سال والا تجربہ ہی دہراتے رہے ہیں۔ انکی کل کارکردگی یہ ہے کہ فلاں صاحب کا خیر مقدم کرلیا، فلاں کو الوداع کہہ لیا، فلاں خط آیا تو پڑھ لیا اور اسکا جواب دیدیا۔ انہیں اتنا تک نہیں پتہ کہ میزبان ملک کے صحیفے میں مملکت کے خلاف شائع ہونے والی معمولی سی خبر کا جواب بھی دیا جاتا ہے، اس حوالے سے بھی انکی کارکردگی سوالیہ نشان ہے۔ سعودیوں کے ساتھ بیرون ملک سیکڑوں مسائل پیش آئے۔ سفارتخانوں کا کردار انکی بابت غیر سفارتی رہا۔ 
عالی مقام وزیر!میں کسی مبالغے کے بغیر عرض کررہا ہوں کہ وزارت خارجہ اور سفارتخانوں کو رنگ و روغن کی نہیں بلکہ پورا ڈھانچہ ازسر نو ترتیب دینے کی ضرورت ہے۔ غیر معمولی زبردست آپریشن لازمی ہوگیا ہے۔ علاج یا سکون بخش سلانے والی ادویہ سے کام نہیں چلے گا۔ ہمارے بعض سفارتخانے اور قونصل خانے سعودی شہریوں کیلئے ایسے نام نہاد قلعوں میں تبدیل ہوگئے ہیں جن تک رسائی بہت مشکل کام ہے۔ 
ابراہیم العساف میں بعض پہلو ایسے ہیں جو کامیابی کے ضامن نظر آرہے ہیں۔ مثال کے طور پر یہ کہ وہ مردِ ریاست ہیں۔ ان کے پاس سرکاری کام کا تجربہ ہے۔ وہ بھاری بھرکم شخصیت کے مالک ہیں۔ مرد م شناس ہیں۔ وہ ایسے سفراءکو انکے حجم میں لاسکتے ہیں جو ناحق بھاری بھرکم بنے ہوئے ہیں۔ خادم حرمین شریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز کی راست تقرری سے انہیں کافی وزن مل گیا ہے۔ دوسری جانب وزیر خارجہ عساف کے کچھ منفی پہلو ہیں۔ مثال کے طورپر یہ کہ وہ وزیر خزانہ رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ میڈیاسے قریب نہیں تھے۔ پوری دنیا کے وزرائے خزانہ سرکاری ا داروں کو فاصلے پر رکھتے ہیں۔ یہ بات پوری دنیا میں مشہور ہے۔اب صورتحال بدلی ہوئی ہے اور وہ یہ کہ میڈیا وزارت خارجہ کا اہم حصہ بن چکا ہے۔ سفارتکاری کی مختصر ترین تعریف ”موثر رابطہ“ کہہ کر کی جاتی ہے۔اگر العساف حساب کتاب اور مالیاتی وسائل کے ماہر رہ چکے ہیں،ضرورت اس بات کی ہے کہ وہ ابلاغی وسائل کو بھی اسی شان سے استعمال کرنے کا مظاہرہ کریں۔
عالی مقام وزیر ! آپ کی بابت ایک بات یہ مشہور ہے کہ آپ اپنی رائے سے دستبردار نہیں ہوتے۔ ممکن ہے یہ خوبی وزارت خزانہ کے لئے بیحد اہم ہو۔ دفتر خارجہ میں ہٹ دھرمی نہیں بلکہ روا داری مطلوب ہوگی۔ یہ الگ بات ہے کہ روا داری کے ساتھ موثر اور مضبوط کارروائی ہو۔
وزیر العساف جی 20کے اجلاسوں میں شرکت کرتے رہے ہیں۔ انہیں پتہ ہے کہ سعودی عرب کا عالمی رتبہ کیا ہے۔ بین الاقوامی اقتصاد میں اسکی اہمیت کیا کچھ ہے۔ ہم چاہتے ہیں اور پوری قوت کیساتھ چاہتے ہیں کہ سفارتی دنیا میں بھی سعودی عرب اسی مقام و رتبے کا علمبردار نظرآئے۔
میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں اور وہ یہ کہ سعودی عرب نے ناقابل فراموش سفیر دیئے مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ اب سفراءکی فہرست میں ایسے باصلاحیت افراد کم ہی نظر آتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ہم مرد انِ ریاست کا احتساب کیسے کریں؟ بیرون مملکت ہمارے سفارتخانے غیر موثر کیوں ہیں۔ کن بنیادوں پر ان کا انتخاب ہوتا ہے۔ یہ سب بڑے اہم سوال ہیں۔
میں پوری قوت کیساتھ ان لوگوں سے آپ کو خبردار کرنا بیحد ضروری سمجھتا ہوں جو نئے عہدیدار کی تعریف و توصیف کا بگل بجانے لگتے ہیں۔ حال ہی میں دیکھا گیا کہ بعض نئے عہدیداروں کا جیسے ہی اعلان ہوا کچھ لوگوں نے انکی شان میں قصیدے پڑھنا شروع کردیئے حالانکہ ابھی تک وہ ا س کرسی پر براجمان بھی نہیں ہوئے تھے جو انکے لئے مقرر کی گئی تھی۔ عہدیدار کو کام کرنے کا موقع دیا جائے اور اسکی کارکردگی کو دیکھ کر اسکا تجزیہ کیا جائے مگر دیکھا یہ جارہا ہے کہ بعض صحافی روشنی کی رفتار سے کہیںزیادہ تیزی سے پلٹی مار کر نئے عہدیدار کی تعریف کرکے اسے آسمان کی بلندیوں تک پہنچا دیتے ہیں۔
عالی مقام وزیر! ہوسکتاہے کہ بعض معاملات میں ہم آپ سے اختلاف کریںلیکن یقین رکھیں کہ اگر آپ وزارت خارجہ کو جدید خطوط پر استوار کرنے اور سعودی سفارتخانوں کو سعودی عرب کا حقیقی نمائندہ بنانے میں کامیابی حاصل کریں گے تو آپ کی کامیابی سے جتنا میں خوش ہونگا کوئی اور خوش نہیں ہوگا۔ میرے ساتھ اور بھی بہت سے لوگ خوش ہونگے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭
 
 

شیئر: