Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

تارکین پر فیس ....چہ میگوئیاں

عیسیٰ الحلیان ۔ عکاظ
سعودی قومی بجٹ 2019ء کے اجرا کے بعد وزراءکے ساتھ ہونےوالے مکالموں اور مباحثوں میں تارکین فیس کے مسئلے پر غیر معمولی گفت و شنید دیکھنے او رسننے کو ملی۔سب سے زیادہ سوالات اسی موضوع پر کئے گئے۔سعودی میڈیا میں اس کے لئے ”المقابل المادی للوافدین“ (تارکین سے مالی معاوضہ) کی اصطلاح استعمال کی جارہی ہے۔ حالیہ ایام کے دوران سعودی عرب کے اہم اقتصادی واقعات میں اس اصطلاح نے ہنگامہ برپا کررکھا ہے۔ اسکا مقصد یہ بتایا گیا ہے کہ نجی اداروں میں سعودیوں اور غیر ملکی ملازمین کے درمیان لاگت کا خلا پر کرنے کیلئے تارکین فیس مقرر کی گئی ہے۔ اس فیس کا بنیادی مقصد ان ملازمتوں پر سعودیوں کو تعینات کرانا ہے جنہیں غیر ملکی کارکن پر کئے ہوئے ہیں۔ 2018 ءمیں یہ فیس 400ریال فی کس وصول کی گئی۔ سالانہ اس میں اضافہ ہوگا۔ 2020ءمیں یہ فیس 800ریال ماہانہ ہوجائیگی۔ اس طرح فی غیر ملکی کارکن سالانہ 9600ریال لاگت کا اضافہ ہوگا۔ گویا یومیہ اضافہ 26.6ریال ہوجائیگا۔
سعودی وزارت خزانہ نے جو دستاویز جاری کی ہے اس میں توقع ظاہر کی گئی ہے کہ تارکین فیس سے 2019ءکے دوران 56.4ارب ریال سرکاری خزانے میں داخل ہونگے۔ 2018ءکے مقابلے میں 101فیصد رقم زیادہ سرکاری خزانے کو ملے گی۔ بعض وزراءنے بجٹ کی تشریح اور توضیحی اسکیم کے تحت توجہ دلائی کہ ا گر یہ بات ثابت ہوگئی کہ تارکین فیس کی پالیسی سے مطلوبہ ہدف پورا نہیں ہوا تو ایسی صورت میں اس فیس کو برقرار رکھنے پر نظر ثانی ہوگی۔ اس تناظر میں میرا سوال یہ ہے کہ آیا اب تک کسی وزارت یا محکمے یا متعلقہ ادارے نے سعودی معیشت پر تارکین فیس کے حوالے سے کسی طرح کا کوئی جائزہ تیار کرایا۔ آیا کسی وزارت یا محکمے نے اسکی زحمت کی کہ یہ پتہ لگایا جائے کہ تارکین فیس سے سعودی معیشت پر کیا کچھ اثرات مرتب ہوئے۔ آیا بالواسطہ یا بلا واسطہ اثرات مثبت رہے یا منفی ہوئے۔ قومی معیشت اس سے کس حد تک مثبت یا منفی شکل میں متاثر ہوئی۔ 
دراصل ایک بات نے میری توجہ اس امر کی جانب مبذول کرائی کہ تارکین فیس پر عملدرآمد کے دوران سعودیوں کی بے روزگاری میں کوئی کمی نہیں آئی۔ گزشتہ برسوں کے دوران بے روزگاری کی شرح میںکمی نہیں بلکہ اضافہ ہوا ہے۔ علاوہ ازیں تارکین وطن کے یہاں حالیہ برسوں کے دوران ترسیل زر کی شرح میں بہت معمولی کمی دیکھی گئی ہے۔ ڈر اس بات کا ہے کہ تارکین فیس نجی اداروں کے بنیادی ڈھانچے کو نقصان نہ پہنچا دے۔ ایسا ہوا تو بھاری نقصان ہوگا کیونکہ فی الوقت ہمیں نجی ادارے کے بنیادی ڈھانچے کی اشد ضرورت ہے۔ اسکی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جن پیشوں پر تارکین فیس مقرر کی گئی ہے ا ن میں سے بعض ایسے ہیں جو سعودی کسی قیمت پر نہیں اپنائیں گے۔ اسکا مطلب یہ ہوگا کہ غیر ملکی ہی وہ کام کرتے رہیں گے اور اضافی لاگت عام صارفین کی جیب سے جائیگی۔ یہی حال دیگر فیسو ںکا بھی ہورہا ہے۔ اس قسم کے فیصلوں سے افراط زر میں اضافہ ہوگا۔ مجھے یقین ہے کہ تارکین فیس سعودی عرب کے نجی یا سرکاری ادارو ں کے وسیع تر مفاد میں ہے یا نہیں اسکا غیر جانبدارانہ جائزہ لیا جانا ضروری ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭
 
 

شیئر: