Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سنگاپور میں 3 دن

    ہر چند کہ سنگاپور میں اکثریت بدھ مت مذہب کے پیروکاروں کی ہے،یہاں کی حکومت بھی چینی نژاد لوگوں کی ہے مگر آ پ کو جگہ جگہ اسلامی ماحول نظر آئے گا
عبدالمالک مجاہد۔ریاض

برادر محمد غزالی مجھے مختلف اداروں میں لے گئے۔ انہوں نے دارارقم کی بلڈنگ کے سامنے اتارا اور کہنے لگے کہ یہ رہا آپ کا ادارہ دارارقم۔ یہ لوگ بے شمار لوگوں کو مسلمان کر چکے ہیں۔ بعد میں معلوم ہوا کہ یہاں اوسطاً ہر روز 2 آدمی اسلام قبول کرتے ہیں۔میں نے اپنی زندگی میں اسلام کی دعوت دینے والی اتنی خوبصورت عمارت کم ہی دیکھی ہو گی۔ میں گزشتہ اسفار میں بھی ان کے پاس آیا تھا مگر اس وقت ان کا دفتر بہت چھوٹا سا تھا مگر اب 3 منزل پر مشتمل یہ دفتر بڑا صاف ستھرا اور خوبصورت ہے۔ اسکے ساتھ وسیع و عریض پارکنگ میں پچھلے دروازے سے داخل ہوا۔ بلڈنگ کی ایک ایک دیوار ،ایک ایک کمرہ گواہی دے رہا تھا کہ اس کی انتظامیہ اعلیٰ ذوق کی مالک ہے۔ استقبالیہ بہت ہی خوبصورت ،سجا ہوا نیا فرنیچر ،دیواروں پر قیمتی شیلف اور ان میں کتابیں بڑے سلیقے سے رکھی ہوئی تھیں۔
    میں نے کتابوں کی طرف دیکھنا شروع کیا۔اپنے ادارے کی کتابوں کو میںاسی طرح پہچانتا ہوں جس طرح ماں باپ اپنی اولاد کو پہچانتے ہیں۔میں نے دور سے دارالسلام کی کتب دیکھ لیں۔ الحمدللہ اس ادارے کے استقبالیہ میں بھی ہماری کتابیں پڑھی ہیں ۔
    مکتبہ کا دروازہ آدھا بندتھا۔ معلوم ہوا کہ آجکل وہ سالانہ اسٹاک گن رہے ہیں۔ میں نے منیجر کا پوچھا تو ایک بڑا خوبصورت نوجوان نے میرے ہاتھوں کو تھام لیا۔ اپنا تعارف کروایا تو بڑا جذباتی اور خوش ہوگیا۔ ساتھ والے کمرے میں لے گیا۔ یہ ایک طرح کا میٹنگ روم تھا۔ کافی دیر تک باتیں ہوتی رہیں ۔ہر چند کے کتابوں کی سیل پہلے جیسی نہیں رہی مگر اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ کتابوں کادور ختم ہوگیا ہے۔ لوگ آج بھی اچھی کتاب کو پسند کرتے خریدتے اور پڑھتے ہیں۔ جنید نامی نوجوان مجھے اوپر لائبریری میں لے گیا ۔وہاں کی ذمہ دار ایک خاتون تھیں۔ اس نے مجھے دارالسلام کی کتب دکھائیں۔ ہماری کتابوں کی تعریف کی۔ مجھے خوشی ہوئی کہ وہاں کی مقامی زبان میں بھی اسلامی کتب خاصی تعداد میں موجود ہیں۔ ایک چینی آگئے۔ جب تعارف ہوا تو وہ دارالسلام کے بڑے فین نکلے۔ بڑے جذباتی ہوئے۔ کتنے ہی مفید مشورے دے ڈالے۔
    ہر چند کے سنگاپور میں اکثریت بدھ مت مذہب کے پیروکاروں کی ہے۔یہاں کی حکومت بھی چینی نژاد لوگوں کی ہے مگر آ پ کو جگہ جگہ اسلامی ماحول نظر آئے گا۔ میں نے متعدد خوبصورت مساجد میں نماز ادا کی۔ انکی صفائی اور خوبصورتی دیکھ کر دل خوش ہو گیا۔ ایک زمانہ تھا جب مسلمان سیاح کو حلال فوڈ کا مسئلہ ہوتا تھا مگر اب جس جگہ چلے جائیں کتنے ہی ایسے ریسٹورنٹ مل جائیں گے جن پر حلال لکھا ہوتا ہے۔ میں نے چینی ریسٹورنٹ پر بھی حلال فوڈ کے اسٹیکر دیکھے۔ اب اللہ جانے واقعی حلال ہوتا ہے یا تجارت کیلئے حلال لکھ دیا جاتا ہے ۔
    محمدیہ کے ذمہ داران نے مجھے لنچ کی دعوت دی مگر اس سے پہلے وہ مجھے اپنے ایک ایسے ادارے میں لے گئے جس پر فخر کیا جاسکتا ہے۔ اس ادارے کا نام محمدیہ ویلفیئر ہوم ہے ۔ہر معاشرے کی طرح سنگاپور میں بھی بچے چھوٹے موٹے جرائم کے مرتکب ہوتے ہیں خصوصاً وہ بچے جن کی مائیں انہیں پھینک جاتی ہیں یاجن کے والدین میں طلاق ہو جاتی ہے یا جن کے باپ جیل میں چلے جاتے ہیں اُن کی اولاد کیلئے کمانے والا کوئی نہیں ہوتا۔ ایسے لوگوں کے بعض بچے آوارہ ہو جاتے ہیں۔ وہ محرومیت کا شکار ہوتے ہیں اس لیے وہ کسی کومارتے ہیں، کسی کی چیز چرا لیتے ہیں۔ ایسے بچوں کی نفسیات کو سمجھا جاسکتا ہے۔ معاشرے میں ان کو کوئی پوچھنے والا نہیں ہوتا لہذا وہ باغی ہو جاتے ہیں۔ ہمسایوں کو تنگ کرنا، ان کے شیشے توڑدینا، راہگیر خواتین کا پرس، موبائل چھین لینا  ایسے جرائم ہیں جواس قسم کے بچے کرتے ہیں۔ پولیس ان کو پکڑتی ہے ۔بچہ ہونے کی وجہ سے ان کی ضمانت بھی لے لیتے ہیں تو ایسے بچوں کی تربیت کیلئے محمدیہ نے اپنے زیر اہتمام محمدیہ ویلفیئرہوم بنا رکھا ہے۔ شیخ حسین یعقوب نے مجھے کہا کہ کھانے سے پہلے ہم آپ کو ایک چیز دکھاتے ہیں، کبھی یہ بہت بڑا ا سکول تھا جسے تربیت گاہ میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔جناب حسین یعقوب کے مطابق انہوں نے بلڈنگ حکومت سے کرایہ پر لے رکھی ہے۔ اس وقت وہاں 70 بچے مقیم ہیں۔ یہ وہ بچے ہیں جو معمولی جرائم میں پولیس کو مطلوب تھے جس نے ان کو تربیت کیلئے محمدیہ کے سپرد کر دیا ہے۔ ایسے بچے گھروں سے بھاگے ہوئے ہوتے ہیں یا گھریلو مسائل کا شکار ہوتے ہیں۔ بلاشبہ ان کی تربیت ایک مشکل کام ہے۔ 2سال کیلئے ایسے بچوں کو عمارت میں رکھا جاتا ہے۔ مار پیٹ کی بجائے ان سے محبت، پیار اصلاح اور تربیت سے کام لیا جاتا ہے ۔میں نے مختلف کمروں کا معائنہ کیا۔ کچھ بچوں سے بھی مجھے ملوایا گیا۔ میں نے دیکھا کہ ایک طالبعلم کی گود میں خاصا بھاری وزن رکھا ہوا ہے ۔غالباًاسے سزا ملی تھی۔ ایسے بچے عموماً پرابلم بچے ہوتے ہیں۔ ان کو رکھنا اور تربیت کرنا بڑا ہی مشکل کام ہے۔ میں نے کرید کرید کر انتظامیہ سے سوال کیے۔مثلاًایک بچہ آپ کو غیرمعمولی تنگ کرتا ہے، چیزوں کو توڑتا ہے، اپنے ساتھیوں کو مارتا ہے تو پھر آپ کیا کرتے ہیں؟ غزالی کہنے لگے: آئیے میں آپ کو دکھاتا ہوں۔ 3 چھوٹے چھوٹے کمرے جن کو میں منی جیل کہوں گا خالی پڑے تھے ۔وہ بچے جو بہت زیادہ تنگ کرتے ہیں ان کو 24 گھنٹوں کے لیے اس جیل میں ڈال دیتے ہیں۔ جیل آخر جیل ہوتی ہے ۔آزادی سلب ہو جاتی ہے تاہم اس میں گدا اور تکیہ پڑا ہوا تھا۔ بعض بچوں کو سزا کے طور پر ایک وقت کے کھانے سے بھی محروم کردیا جاتا ہے۔ میرے ایک سوال پر انہوں نے بتایا کہ بعض شریر بچوں کو ہتھکڑیاں بھی لگائی جاتی ہیں۔ ایک مشین انواع و اقسام کے کھلونوںاور چاکلیٹ سے بھری ہوئی تھی۔ میرے استفسار پر بتایا گیا کہ ہم طلباء کو انعام بھی دیتے ہیں ۔جو طالبعلم نمازوں کی پابندی کرتا ہے، صف اول میں کھڑا ہوتا ہے،دوسروں کے ساتھ لڑائی جھگڑا نہیں کرتا، ڈسپلن کا خیال رکھتا ہے تو ایسے بچوں کو باقاعدہ نمبر دیئے جاتے ہیں۔ جب ان کے پاس مطلوبہ نمبر جمع ہو جاتے ہیں تو وہ اپنی مرضی کا جوس کھلونے ، چاکلیٹ  یا اپنی پسند کی کوئی چیز کا انتخاب کر سکتے ہیں۔ اس طرح طالب علم اپنی خواہش بھی پوری کر لیتے ہیں اور ڈسپلن بھی نہیں توڑتے۔ مجھے گراؤنڈ میں طلبہ سے ملنے ،ان کی باتیں سننے اور گفتگو کا بھی موقع ملا۔ اساتذہ میں سے کچھ دارالسلام کو جانتے تھے۔ بڑی گرم جوشی سے ملے ۔اس میں کتنے ایسے ہوتے ہیں جو بڑے بگڑے ہوئے اور پرابلم بچے ہوتے ہیںمگر اس ویلفیئر سینٹرمیں ان کی زندگی بدل جاتی ہے۔ وہ بچے جو اس ادارے سے فارغ ہوئے، ان کی سوچ اور فکر میں نمایاں تبدیلی آئی اور وہ معاشرے کا بہترین حصہ بن گئے۔
     میرے نزدیک اس قسم کے ادارے پاکستان یا دنیا کے مختلف ممالک میں ضرور بننے چاہئیں۔پرابلم بچے ہر معاشرے میں پائے جاتے ہیں ۔سنگاپور حکومت نے ان بچوں کو پرائیویٹ اداروں کے سپرد کرکے ایک اچھی مثال قائم کی ہے۔ یہاں میں وضاحت کردوں کہ اس سینٹر میں تمام بچے مسلمان تھے۔
     شام کے وقت محمدیہ کے زیراہتمام مسلم کالج بند تھا۔ کوشش کی گئی کہ کسی طرح اسے بھی دیکھا جا سکے مگر اس وقت چوکیدار بھی جا چکا تھا۔ میرا خیال ہے کہ وقت کا انتخاب درست نہ تھا۔
    سنگاپورکی ایک بڑی خوبصورت مسجد سلطان دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی سلطان نے ہی بنوائی ہے۔ میں پہلی مرتبہ سنگاپور آیا تھا تو میں نے یہاںنماز پڑھی تھی۔ یہ مسجد نمازیوں کیلئے 1932ء میں کھولی گئی تھی۔ مسجد میں بیک وقت 5ہزار آدمی نماز پڑھ سکتے ہیں۔ مسجد کے نچلے حصے میں مرد، اوپر گیلری میں خواتین نماز ادا کرتی ہیں۔ جب ہم مسجد میں داخل ہوئے تو عصر کی نماز کا وقت تھا۔ میں نے مسجد کو پہلے بھی دیکھا اور اس میں نماز پڑھی تھی مگر اس بات کو30 سال گزر چکے ہیں۔ ایک چیز جو مجھے پسند آئی وہ مسجد کے غیر معمولی لمبے پنکھے تھے۔ میں کہہ سکتا ہوں کہ معمول کے پنکھوں سے کم ازکم تین چار گنا بڑے تھے۔ یقینا جب یہ چلتے ہیں تو ان کی ہوا دور دور تک پھیلتی ہو گی۔ میں نے مسجد کی الماری کو دیکھا تو وہاں قرآن کریم کے نسخے پڑے تھے۔ تجسس مجھے ان کے قریب لے گیا خوشی سے میری چیخ نکلتے نکلتے رہ گئی۔ مسجد میں ملباری زبان میں قرآن پاک کے نسخے پڑے ہوئے تھے اور یہ دار السلام کے شائع شدہ تھے۔ کسی بھی ناشر کیلئے اس سے زیادہ خوشی اور کامیابی کیا ہو سکتی ہے کہ اس کے ادارے کے طبع شدہ تراجم سنگاپور جیسے دور دراز ملک کی سب سے بڑی مسجد میں رکھے ہوئے ہوں۔ زبان پر الحمدللہ اور شکر کے کلمات تھے۔ اہلیہ بھی اتر کر نیچے آئی تو میں نے اسے بھی یہ نسخے دکھائے۔ ہم الحمدللہ پڑھتے اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے سڑک کے دوسری پار چل دیئے جہاں انواع اقسام کے کھانے ہمارا انتظار کر رہے تھے۔ سلطان مسجد کے سامنے کتنے ہی مسلم ریسٹورنٹ ہیں۔ہر چند کہ انڈین ذائقہ کے ہیں تاہم مزیدار اور مقابلتاًسستے ہیں۔ یہ بات ضرور ہے کہ میں ان کو اعلیٰ درجہ کاریسٹورنٹ نہیں کہوں گاتاہم آپ کو دوسرے کھانوں کے ساتھ پکوڑے سموسے بھی مل جائیں گے۔ اس جگہ سے کچھ ہی فاصلہ پر بڑا خوبصورت شاپنگ مال ہے جس میں عبدالقادر نامی ایک نوجوان’’ سلام میڈیا‘‘ کے نام سے ایک ادارہ چلاتا ہے۔ مجھے خوشی ہوئی کہ شاپنگ سینٹر میں ایک عبایا کی دکان بھی تھی۔ اس سے سلام میڈیا کا پوچھا ۔کائونٹر پر بیٹھی خاتون نے کہا کہ بس اس طرف مڑ جائیں، ایک گلی چھوڑ کر دوسری آخری دکانیں سلام میڈیا کی ہیں۔
    سلام میڈیا کی ایک نہیں 4 دوکانیں ہیں۔ ایک خوبصورت نوجوان بیٹھا نظر آیا ۔میں نے اپنا تعارف کروایا تو کرسی چھوڑ کر مجھے گلے لگا لیا۔ آخر آپ سے ملاقات ہو ہی گئی، اس نے پرجوش انداز میں کہا ۔ہم آپ کی اوردارالسلام کی کتب فروخت کرتے ہیں مگر آپ سے ملاقات نہ تھی۔ میں نے شلف پر نظر دوڑائی۔ الحمدللہ خاصی تعداد میں قرآن کریم کے تراجم اور اسلام کی دیگر کتب موجود تھیں۔ سلام میڈیا کی چاروںدوکانیں چھوٹی چھوٹی تھیں جو کتابوں سے بھری ہوئی تھیں۔ اس نے بڑا زور لگایا کہ آپ میری کرسی پر بیٹھیں مگر میرا ایک اصول ہے کہ جس کی کرسی ہے وہی اس کا حقدار ہے اور وہی اس پر بیٹھے گا،اس لئے میں نے اس کی کرسی پر بیٹھنے سے معذرت کرلی۔
    قارئین کرام! میں آپ کو بتا نہیں سکتا کہ اس نے ہماری کتنی عزت اور تکریم کی۔ میں نے اہلیہ کوتو ایک دکان پر ایک کرسی پر بٹھا دیا اور ہم دونوں باتیں کرنے لگے۔ سنگاپور میں ہر شخص انگلش بولتا ہے اس لیے آپکو اپنی بات اور سوچ کے اظہار کیلئے کوئی مسئلہ نہیں۔ یہاں میرے جیسا آدمی آ کر خود بخود انگلش بولنے لگتا ہے۔عبدالقادر کو اردو بالکل نہیں آتی۔ اس کے دادا انڈیا کے شہرکالی کٹ کے رہنے والے تھے۔ یہ مدتوں پہلے یہاں آبسے تھے۔ عبدالقادر کا عقیدہ اور منہج بڑا اچھاہے۔ کتاب وسنت کا پابند ہے۔ چہرے پر چھوٹی چھوٹی خوبصورت داڑھی ہے۔ ہم کھانا کھاکر آ رہے تھے اس لئے کھانے پینے کیلئے کسی چیز کی خواہش نہ تھی مگر اس نے ضیافت کا کچھ نہ کچھ بندوبست کر ہی لیا۔
     سنگاپور ایک امیر مگر خاصا مہنگا ملک ہے۔ انٹرنیٹ کی وجہ سے کتابوں کی سیل پہلے سے کم ہے مگر لوگ بچوں کی کتب پراب بھی خوب خرچ کرتے ہیں اور بچوں کی تربیت کیلئے کتب خریدتے ہیں۔ عبدالقادر نے ایک دکان میں صرف بچوں کی کتابیں رکھی ہوئی ہیں۔ مختلف اداروں کی خوبصورت کتابیں جن میں دارالسلام کی کتب کا بھی حصہ تھا۔ عبدالقادر نے بتایا کہ وہ دارالسلام کی کتب ملائیشیا سے خریدتا ہے ۔وہاں انہیں دعوہ بک کارنر کے فرید احمد سپلائی دیتے ہیں۔ ہم گھنٹہ بھرسلام میڈیا میں بیٹھے باتیں کرتے رہے۔ یہاں کی حکومت کا رویہ مسلمانوں کے ساتھ خاصا مثبت ہے تاہم کتابوں کے انتخاب اور نفسِ مضمون کابہت زیادہ خیال رکھناپڑتا ہے۔ حکومت سیکولر ضرورہے مگر اپنے کام میں مداخلت برداشت نہیں کرتی۔قوانین سخت ہیں جن کی پابندی ہر ایک کو کرنا ہوتی ہے۔عبدالقادر نے اپنی گاڑی پارکنگ سے نکالی اور ہمیں محمدیہ کے مہمان خانے تک پہنچا دیا۔ 2گھنٹے کی اس ملاقات میں ہم ایک دوسرے کے نہ صرف قریب آچکے تھے بلکہ دوست بن چکے تھے۔
    سنگا پور کے ایک اور ادارے’’ مسلم میڈیا‘‘ کے ساتھ ایک مدت پہلے تک ہمارے بہت اچھے کاروباری مراسم تھے۔ مسلم میڈیا والے سنگاپور میں ہمارے ڈسٹری بیوٹر تھے ۔میں ان کے پاس گیاتو معلوم ہواکہ یہ دوکان اب فروخت ہوچکی ہے۔ اسکے 2 حصے دار تھے۔ اسے اب محمد نور نے خرید لیا ہے۔ ملاقات ہوئی تو بڑی خوشی سے ملے۔ کچھ دیر بعد کہنے لگے کہ میری پہلے سے ایک میٹنگ طے ہے ۔اگر آپ پسند کریں تو عشاء کے وقت آپ کے پاس آ جائوں ۔ عشاء کی نماز کے بعد آپ سے باتیںبھی ہو جائیں گی۔ رات9بجے وہ اپنی خوبصورت گاڑی لے کر آ گئے۔ نماز کا وقت تو نکل چکا تھااور میں نماز ادا کر چکا تھا۔ کہنے لگے کہ چلو میری گاڑی میں بیٹھو، میں آپ کو ساحل سمندر کی سیر کرواتا ہوں۔ اس وقت سنگاپور کا موسم بڑا عمدہ تھا۔ دن میں بارش بھی ہوتی رہی تھی چنانچہ ہم محمد نور کے ساتھ سیر کے لیے چلے گئے۔ ساحل سمندر پر پیدل چلنے کے ٹریک بنے ہوئے تھے۔ ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا میں گھومنے کا مزہ آگیا۔ محمد نور پیشے کے اعتبار سے کپتان تھے ۔ بڑے بحری جہاز چلانے والے کپتان ایک زمانے میں برازیل سے سنگاپور تک آئل لاتے رہے۔ متعدد مرتبہ پاکستان جا چکے ہیں۔ ان کے پاس سنانے کے لیے بے شمار کہانیاں اور داستانیں تھیں۔ اب وہ ریٹائرڈ ہو چکے ہیں۔ مسلم میڈیا میں ان کے علاوہ ایک اور ملازم ہے۔ خود اِدھر واُدھر آتے جاتے رہتے ہیں۔ مالی طور پر بے فکر ہیں ۔اپنا گھر ہے معقول آمدنی ہے۔ یہ شخص مختلف علوم کا خزانہ تھا۔ میں نے کچھ معلومات دیں کچھ لیں۔ سنگاپور کے لوگ ملائی زبان بولتے ہیں اس لئے انہوں نے بہت ساری کتابیں مقامی زبان ملائی میں بھی ترجمہ کر کے چھاپی ہوئی ہیں۔
     سنگاپور مہنگا ضرور ہے مگر لوگ مطمئن ہیں۔ تنخواہیں خاصی معقول ہیں۔ مجھے بعض بنگالیوں سے ملنے کا اتفاق ہوا ۔وہ بھی بڑے آرام سے 15سو سے2ہزارسنگاپوری ڈالر ماہانہ کما لیتے ہیں۔چند بنگالی ایک کی بجائے زیادہ تر2,2 نوکریاں بھی کرتے ہیں۔ ملک میں
 کوئی خاص پابندی نہیں، بس آپ ملکی قوانین کی پابندی کریں آپ کو کوئی پوچھنے والا نہیں۔
     ہم نے سنگاپور شہر کی سیر کرنا تھی اس لئے میں نے سوچا کہ اگر میٹرو کا ٹکٹ خرید لیا جائے تو شہرکے ایک طرف سے جائیں اور دوسری طرف سے واپس آجائیں۔محمدیہ کے صدر جناب شیخ حسین یعقوب نے میری بات سے اتفاق کیا اور کہنے لگے10ڈالر میں آپ کو ایک جگہ سے دوسری جگہ آنے جانے کا ٹکٹ مل جائے گا ۔ہم نے2 ٹکٹ خریدے۔ میٹرو میں رش تھا مگر جلد ہی ہمیں سیٹیں مل گئیں ۔میٹرو کے سفر کا بیشتر حصہ زمین کے اوپر ہے بعض جگہ زیر زمین بھی ہے۔ہم شہر کے ایک حصہ سے چلے۔ کوئی آدھ گھنٹے بعد شہر کے دوسرے کنارے پرجہاں سے سمندر شروع ہوتا ہے وہاں پہنچ گئے۔ میٹرو کا سفر بڑا خوشگوار تھا ۔ہم نے دروازے کے ساتھ سیٹ لے لی۔ اس دوران کتنے ہی لوگ آئے میرے ساتھ بیٹھے اور گپ شپ لگاتے اور اپنی منزل پر اتر جاتے۔ میں نے اسٹیشن  گنے۔ ان کی تعداد 31 تھی۔ مجھے بنگلہ دیش سے تعلق رکھنے والے علماء سے بھی بات کا موقع ملاجو صبح کے وقت مختلف کمپنیوں میں کام کرتے ہیں اور شام کو گھروں میں قرآن پاک کی تعلیم دیتے ہیں ۔بڑا اطمینان ہوا کہ مسلمان اپنے بچوں کو قرآنی تعلیم سے غافل نہیں۔میٹرو میں امرتسر سے تعلق رکھنے والے ایک سردار جی سے گفتگو کا موقع ملا۔ سکھوں کے ساتھ باتیں کرنے میں اس طرح مزہ آتا ہے کہ وہ بڑی ٹھیٹھ پنجابی بولتے ہیں۔ سردار جی پیشے کے اعتبار سے انجینیئر تھے۔ ان کی کمپنی جہازوں کی مرمت کے ساتھ ساتھ نئے بحری جہاز بھی بناتی تھی ۔انہوں نے بتایا کہ سنگاپور میں جہاز رانی کی بہت بری انڈسٹری ہے۔ اس شعبہ میں کام کرنے والوں کی تنخواہ بہت زیادہ ہے۔ ان کی اپنی تنخواہ 40 ہزار سنگاپوری ڈالر تھی۔
     ہم نے خوب گپ شپ لگائی ۔عالمی سیاست ،سنگاپور کی سیاست ،معاشی حالات، مذہب، سکھ ازم اور اسلام پر باتیں ہوتی رہیں۔ اگر ان کے بس میں ہوتا تو مجھے اپنے گھر لے جاتے  ۔جب ان کاا سٹاپ آیا تو انہوں نے ہاتھ جوڑ کر سلام کیا اور اتر گئے۔
     اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے ایک پاکستانی  انجینیئر سے بھی ملاقات ہوئی۔ موصوف کمپیوٹر انجینیئر ہیں، معقول تنخواہ لیتے ہیں۔ اپنی فیملی سمیت سنگاپور میں مقیم ہیں۔ مجھے خوشی ہوئی کہ سنگاپور کے انفرااسٹرکچر میںپاکستانی کارکنوں کا خاصا کردار ہے۔     میں نے اپنے قیام کا آخری دن سنتوسا نامی جزیرہ کی سیر کے لیے رکھا ہوا تھا۔ پہلے خیال تھا کہ ٹیکسی کے ذریعے جائو ںمگر شیخ حسین یعقوب کا مشورہ تھا کہ اب آپ میٹرو کے نظام کو کسی حد تک سمجھ چکے ہیں ۔آپ میٹرو پر جائیں۔ وقت بھی کم لگے گا اوررش سے بھی بچ جائیں گے۔ محمدیہ کے دفتر سے میٹرو کا اسٹیشن زیادہ دور نہیں ۔اب میں سڑکوں سے واقف ہو گیا تھا۔ آج سے 30 سال پہلے جب پہلی مرتبہ سنگاپورآیا تھا تو سنتوسا کی خوب سیر کی تھی۔اس زمانے میں سڑکوں پر زیادہ رش نہ تھا۔ میں ہر روز شام کو وہاں سے آ جاتا تھا ۔جب ہم اسٹیشن کی طرف جا رہے تھے تو آسمان پر بادل چھائے ہوئے تھے۔ ٹھنڈی ہوا کے جھونکے آرہے تھے۔ رات کو جناب محمد نور مجھے اپنی گاڑی میں اس علاقے کی سیر کروا چکے تھے ۔انہوں نے بچوں کی طرح بار بار مجھے سمجھایا کہ کیسے جانا ہے۔ کس طرف کا ٹکٹ اور کیا د یکھنا ہے۔ میٹرو
 اسٹیشن پر مسافروں کی مدد کیلئے ملازم کھڑے ہوتے ہیں۔ آپ کو فوراً پہچان جاتے ہیں کہ یہ اجنبی ہے اس لئے آپ کے اشارے پر آپ کی مدد کرتے ہیں ۔اب تو اتنے بڑے شاپنگ مال بن چکے ہیں کہ سنگاپور کی ترقی پر تعجب ہوتا ہے۔ ایک ٹرین سے اترے دوسری میں بیٹھ گئے ۔ میں نے کھڑکی سے دیکھا،کافی اونچی بلڈنگیں جن کو نظر اٹھا کردیکھیں تو ٹوپی نیچے گر جاتی ہے۔ ان میں انٹر نیشنل کمپنیوں کے دفاتر اور لوگوں کی رہائش بھی ہیں ۔جتنی اونچی بلڈنگ اتنا ہی اس کا کرایہ زیادہ ہے۔ اگر آپ 20,15 منزلوں سے اوپر رہائش اختیار کیے ہوئے ہیں تو آپ کو ٹھنڈی ہوا کے مزے مفت میں ملیں  گے۔
    سنتوسا جانے کے کئی طریقے ہیں جن میں پیدل کا راستہ، ٹیکسی ،بس ،شپ اورمیٹرو کے ذریعے آپ محض 15,10منٹ میں اس جزیرہ پر جا سکتے ہیں۔ یہ جزیرہ بڑا ہی خوبصورت ہے۔ اونچے اونچے درخت، آبشاریں مصنوعی جھیل اور نہ جانے کیا کیا وہاں پر بنے ہوئے ہیں۔ ہزاروں کی تعداد میں سیاح ہر روز اس جگہ کی سیرکیلئے آتے ہیں۔ میری دلچسپی اس پیلس کے میوزیم کے ساتھ تھی جہاں مجسمے بنا کر سنگاپور کی تاریخ بیان کی گئی ہے۔ میں گزشتہ سفر میں جب اس میوزیم میں داخل ہوا تو بڑے ہی پروفیشنل انداز میں انگلش زبان میں سنگاپور پر جاپانیوں کے قبضے، پھر برطانوی راج اورمقامی لوگوں کی قربانیوں کی کہانیاں بیان کی گئی ۔ مجسمے اس طرح بنائے گئے ہیں کہ ان پر اصل کا گمان ہوتا ہے۔ جب ہم میٹرو سے نیچے اترے تو بارش ہو رہی تھی۔
     میوزیم میں داخل ہونے کیلئے گئے تو اس کا ٹکٹ غالباً 60 ڈالرکا تھا۔ ہمارے پاس وقت کم تھا اس لئے اسے باہر سے دیکھنے پر اکتفا کیا ۔ ہم نے سنتوسا میں دوپہر کا کھاناکھایا،کافی پی، سب سے اہم مسئلہ نمازوں کا تھا۔ ہم ایک طرف نکل گئے۔ بارش کبھی کم اور کبھی تیز ہوجاتی تھی۔ ایک مناسب جگہ پر میں نے اذان دی اور پھر ہم دونوں میاں بیوی نے باجماعت نماز ادا کی۔ میں آگے کھڑا ہوگیا، اہلیہ پیچھے اس طرح ہم نے اس جزیرہ میں اللہ کا نام بلند اور ظہر کی نماز ادا کی۔ وقت گزر رہا تھا سنتوسا میں داخل ہونے سے پہلے طے کر لیا تھا کہ3,2 بجے ہم نے اس جگہ کو چھوڑنا ہے۔مقامی انتظامیہ نے کچھ اس طرح بندوبست کیا ہوا ہے کہ مسافر بھیگنے نہیں پاتے' ان کے لیے چھت بنائی گئی ہے۔ وقت مقررہ پر ہم نے نہ چاہتے ہوئے بھی اس خوبصورت جزیرے کو چھوڑا اور واپس آگئے۔ میرے لئے یہ اعزاز کی بات ہے کہ محمدیہ کے 2بڑے عہدیدار جناب صدر حسین یعقوب اور محمد غزالی مجھے ایئرپورٹ پر چھوڑ نے کے لیے آئے۔ ان کے ساتھ محمدیہ کے ایک ساتھی بھی ہمارے ساتھ ہو چلے۔ تعارف ہوا تو معلوم ہوا کہ وہ پیشے کے اعتبار سے وکیل ہیںاور اب وہ جج بن چکے ہیں۔ یہ ان کی محبت تھی کہ اتنے بڑے لوگ مجھے الوداع کہنے کیلئے ایئرپورٹ آئے۔میں نے 3 یادگار راتیں سنگاپور میں گزاریں۔ میرے لیے اعزاز کی بات ہے کہ میں نے انہیں انگلش میں درس دیئے۔ وہاں کے احباب نے خوب سیکھا۔ ان سے تحفے وصول کئے اور انہیں پیش بھی کیے۔ میں نے واپسی پر تھوڑی سی رقم محمدیہ کیلئے ادا کی۔ اسے آپ ایک تحفہ کہہ لیں یا 3 راتوں کا کرایہ کیونکہ وہ گیسٹ روم کا معمولی سا کرایہ چارج کرتے ہیں اور اس طرح ایک خوبصورت ملک کے سفر کا اختتام ہوا۔
     اگلا ملک ملائیشیا ہے جس کے بارے میں ان شاء اللہ آئندہ لکھوں گا۔

مزید پڑھیں:- - - - -  -تنقید برداشت کرنے کا حوصلہ رکھیں

شیئر: