Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بعض سرکاری ادارے خوف کی حالت میں

محمد حطحوط ۔ مکہ
بعض سرکاری ادارے ہمہ دم خوف کی حالت میں رہتے ہیں۔ ٹویٹر کی پکڑ کا خوف ، غلطیوں میں مبتلا ہونے کا خوف ، برطرفی کا خوف سوار رہتا ہے۔ اس صورتحال نے متعدد سرکاری اداروں کو نئے افکار اور خیالات سنتے ہی مسترد کردینے کا عادی بنادیا ہے۔ یہ ادارے روایتی طرز سے ہٹنے سے خوف کھاتے ہیں۔ میں آپ کو 2مثالیں دیکر اپنی بات واضح کرنا چاہوں گا۔ وزارت اطلاعات کو لے لیجئے۔ اس کے ماتحت خارجی ابلاغ کا ایک شعبہ ہے جسکا مقصد بیرونی دنیا میں مملکت کے حوالے سے منظر عام پر آنے والے ابلاغی مواد کو ریکارڈ کرنا اور سوشل میڈیا کی مدد سے عالمی ذرائع ابلاغ کے الزامات اور اعتراضات کا جواب دینا ہے۔ میں نے خارجی ابلاغ کے شعبے سے منسلک ایک مقامی نوجوان سے دریافت کیا( یہ بھی بتاتا چلوں کہ وہ دانشور ہے، سمجھ دار ہے۔ بین الاقوامی سیاسی کھیل سے واقف ہے)۔ میں نے دریافت کیا کہ خارجی ابلاغ کی نمائندگی اس قدر ڈھیلی ڈھالی اور پھسپھسی کیو ں ہے۔ اس نے کہا کہ ہمارے عہدیدار غلطی میں پڑنے سے خوف کھاتے ہیں۔ جب بھی سعودی عرب کے خلاف کوئی انٹرنیشنل ٹرینڈ آتا ہے ہم اس پر ردعمل نہیں دے سکتے کیونکہ ہمارے یہاں ایک نظریہ رائج ہے اور وہ یہ ہے کہ کسی بھی سعودی مخالف ٹرینڈ میں حصہ نہ لیا جائے۔ 
افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ یہی سعودی عرب کو آسانی سے شکار بنا لینے کا عالمی راز ہے۔ ہم عام طور پر خاموشی کو ترجیح دیتے ہیں یا ایسی ویب سائٹس پر اپنا ردعمل دیتے ہیں جنہیں صرف سعودی دیکھتے ، پڑھتے یا سنتے ہیں۔ اقتدار کی کرسی جانے کے خوف اور انجانے انجام کے خوف نے ایسا ماحول پیدا کردیا ہے جس کی وجہ سے ہمارا خارجی ابلاغ کا شعبہ ڈھیلا پڑا ہوا ہے۔ یہ درست ہے کہ وزارت اطلاعات نے گزشتہ وزیر کے دور میں بڑی تبدیلیاں پیدا کیں۔ آرزو ہے کہ نئے وزیر اس عمل کو جاری رکھیں تاہم صورتحال کا تقاضا یہ ہے کہ اوپر سے لیکر نیچے تک وزارت میں ہر سطح پر نت نئے طریقوں کی دریافت،غلطیاں ماننے کا مزاج رائج کرنے ،اس سے سیکھنے اور غلطیوں کو تعلم میں تبدیل کرنے کا ماحول برپا کرنے کی ضرورت ہے۔
دوسری مثال وزار ت تعلیم کی ہے۔ وہاں بھی خوف کا عالم سوار ہے۔ دنیا بھر کی یونیورسٹیوں کا ماحول یہ ہے کہ پروفیسر اپنے طلباءکیلئے مہمان کو دعوت کلام دیتا ہے۔ وہ متعلقہ موضوع پر لیکچر دیتا ہے ۔ مہمان ایسا ہوتا ہے جس کا مطلوبہ مضمون سے گہرا تعلق ہوتا ہے ۔ اس طریقہ کار کی بدولت یونیورسٹی ا ور مارکیٹ کے درمیان خلیج کم ہوتی ہے۔ خاص طور پر مارکیٹنگ، بزنس مینجمنٹ وغیرہ کے ماہر کو کلاس روم میں لاکر طلباءسے گفت و شنید کرانا دنیا بھر کی جامعات کی روایت ہے۔ اسکے لئے پروفیسر کو انتظامی کارروائی نہیں کرنا پڑتی۔ ہمارے یہاں ایسا نہیں۔ یہاں اس قسم کی منظوری کیلئے پہلے صدر شعبہ، پھر فیکلٹی ڈین او راسکے بعد وائس چانسلر کی منظوری درکار ہوتی ہے۔ یہ منظر نامہ خوف اور پروفیسر پر عدم اعتماد کی عملی مثال ہے۔ اگر ہم اپنے پروفیسر پر اعتماد نہیں کرینگے تو کس پر کریں گے؟ کسی ایک پروفیسر کی غلطی پر 99فیصد کو الزامات کے کٹہرے میں کھڑا کرنا کہاں کا انصاف ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭
 
 

شیئر: