Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

یمن میں کھانے پر خونریزی

عبدالرحمن الراشد ۔ الشرق الاوسط
حوثیوں نے عرب اور مختلف ممالک کی جانب سے یمن کے 30لاکھ باشندوں کیلئے پیش کردہ غلہ جات کے گوداموں کو گولہ باری کرکے تباہ کردیا۔ اس گولہ باری نے بڑے المیے کو جنم دیدیا۔دنیا کے کسی بھی ملک یا تنظیم نے اس واقعہ پر نہ تو مذمت کا بیان جاری کیا اور نہ ہی اس حملے کی تشہیر میں کوئی حصہ لیا۔ غلے کے گوداموں پر گولہ باری چند روز قبل پناہ گزینوں کے کیمپ کے سامنے 8افراد کے قتل کے مجرمانہ عمل سے کسی طرح کم نہیں۔
جنگ ، قحط اور وبائیں 3المیے یمن کو اپنے حصار میں لئے ہوئے ہیں۔ اگر یمن کے رہنما حوثیوں کی بغاوت سے قبل طے شدہ امور قبول کرلیں تو ایسی صورت میں یہ مسئلہ سیاسی طور پر حل ہوسکتا ہے۔ طے کیا گیا تھا کہ ملک میں آزادانہ انتخابات ہوں یا عالمی برادری قانونی اتھارٹی کے باغیوں کو سزا دینے کی ذمہ داری قبول کرے۔ عالمی برادری ہی نے یمن کی آئینی حکومت کو قانونی منظوری دے رکھی ہے اور اس نے ہی یمن کا سیاسی منصوبہ ترتیب دیا ہے۔ یہ وہی منصوبہ ہے ،حوثی جس کے باغی ہیں۔
یمن کی 50فیصد سے زیادہ آبادی کھیتی باڑی پر گزارا کرتی ہے۔ موسم بہار کے انقلابات بھڑکنے کے بعد سے یمن میں کھیتی باڑی کو بھاری نقصان پہنچا ہے۔ 2011ءمیں عرب بہار کی ہوا چلی تھی۔ اس سے متاثرین میں یمن بھی شامل ہے۔ یمن ڈھائی لاکھ ٹن سالانہ غلہ پیدا کررہا تھا۔ اب 90ہزار ٹن پیدا کررہا ہے۔ اسی کے ساتھ حوثی بندرگاہوں پر قابض ہوگئے ہیں۔ انہوں نے بھاری ٹیکس شہریوں پر تھوپ دیئے ہیں۔ وہ ایسے علاقوں کیلئے سامان بھیجنے کی اجازت نہیں دیتے جو ان کے زیر کنٹرول نہیں۔ اس ساری صورتحال نے یمن کے لاکھوں لوگوں کو غذاسے محروم کررکھا ہے۔ 
یمن بہت بڑا زرعی ملک تھا۔ یہ ملک اپنے باشندوں کی غذائی ضروریات پوری کررہا تھا۔ گندم ، پھل ، سنترے، مکئی وغیرہ کی پیداوار اچھی تھی۔ گزشتہ 20برسوں کے دوران یمن میں زراعت متاثر ہوئی۔ سرکاری بدانتظامی انتہا کو پہنچ گئی۔ کھیتی باڑی کرنے والے قریوں سے شہروں میں منتقل ہوگئے۔ کئی برس سے ملک خشک سالی اور قحط کی زد میں آگیا۔ کئی لوگوں نے غلہ جات کی کھیتی باڑی کے بجائے نشہ آور قات کی زراعت شرو ع کررکھی ہے۔ یمن میں جاری جنگ او رانارکی پر قابوپانے کا کوئی آسان حل نہیں ۔ درآمد بند ہے۔ راستے بھی بند ہیں۔ آبادی کے بیشتر بحران وہ خوراک کی کمی سے متعلق ہوں یا دوا کی قلت سے تعلق رکھتے ہوں،یہ سب کے سب اُن علاقوں میں ہیں جو حوثیوں کے زیر قبضہ ہیں۔ عجیب بات یہ ہے کہ یہ صورتحال اس کے باوجود ہے جبکہ جنگ کے دوران بندرگاہوں پر حوثی ہی قابض رہے ہیں۔ ہوا یہ ہے کہ حوثی آبادی کے خلاف عسکری سرگرمیوں میں دواﺅں اور غذا کو استعمال کرتے رہے ہیں۔ گزشتہ ہفتے بھی یہی کچھ ہوا جب حوثیوں نے الحدیدة میں بحر احمر پر واقع غلوں کے گودام گولہ باری کرکے تباہ کردیئے۔ ان گوداموں میں 3ماہ کے لئے کافی غلے کے ذخائر محفوظ تھے۔ یہ وہی گودام ہیں جو گزشتہ 3برسوں کے دوران حوثیوں کے زیر قبضہ تھے مگر سرکاری اور اتحادی افواج نے ان پر کبھی حملہ نہیں کیا تھا۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ اقوام متحدہ کے ایلچی برائے یمن او ربین الاقوامی ادارے حوثیوں کے ان وحشیانہ تصرفات پر خاموشی سادھے ہوئے ہیں۔ خاموشی کا عذر یہ بیان کیا جارہا ہے کہ حملہ آور ملیشیائیں ہیں اور اقوام متحدہ کا مقصد انہیں سیاسی عمل میں شامل ہونے پر راضی کرنا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ سوچ اور حوثیوں کے ساتھ اقوام متحدہ کا یہ انداز ہی جنگ ، انارکی اور بھوک مری کا دورانیہ دراز کرنے کا باعث بنا ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
 
 

شیئر: