Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کیا انسداد گداگری کا مشن فیل ہوگیا؟

ابراہیم محمد باداود ۔ المدینہ
سعودی عرب کے متعدد اداروں کی سرتوڑ کوششوں کے باوجود کئی شہروں میں گداگری کا رواج برقرار ہے۔ میرا خیال ہے کہ اس مسئلے کی جڑ سعودی گداگروں میں پوشیدہ ہے۔ بعض اعدادوشمار کے مطابق گداگروں میں 10فیصد سعودی ہیں۔ وزارت محنت و سماجی بہبود کے ماتحت انسداد گداگری کا ادارہ ان کا ذمہ دار ہے۔ معذوروں اور لاچاروںکی سرپرستی وزارت کے فرائض میں شامل ہے۔ انسداد گداگری کے ادارے کی ذمہ داری ہے کہ وہ مرض کے نام پربھیک مانگنے والے سعودی گداگروں کو اسپتالوں میں داخل کرائے۔ جہاں تک نادار سعودی گداگروں کا تعلق ہے تو انہیں سماجی کفالت کے تحت مالی تعاون پیش کرے یا انہیں فلاحی اداروں کی تحویل میں دیدے۔ ایسے گداگر سعودیوں کے مسائل کا ہر پہلو سے جائزہ لیا جائے۔ جس کو جس قسم کا تعاون درکار ہو اس کو اسی سے متعلق ادارے کی تحویل میں دینے کا اہتمام کیا جائے۔ یتیم اور کمسن گداگروں کو تربیتی مراکز بھیجا جائے جہاں انکی مناسب رہائش کا انتظام ہو۔
ماضی میں انسداد گداگری کی ذمہ داری مختلف اداروں میں بٹی ہوئی تھی۔ گزشتہ برس سعودی کابینہ نے وزارت داخلہ اور وزارت محنت و سماجی بہبود کوانسداد گداگری کی ذمہ داریاں تفویض کیں۔ سعودی اور غیر ملکی گداگروں کی گرفتاری کا کام وزار ت داخلہ کے سپرد کیا گیا۔ سیکیورٹی فورس کے گشتی دستوں اور تمام علاقوں اور شہروں کے محلوں میں پولیس اسٹیشنوں کو گداگروں کی تلاش کی ذمہ داری دی گئی۔ سعودی گداگروں کو وزارت محنت و سماجی بہبود اور حج و عمرہ پر آکر غیر قانونی طریقے سے قیام کرنے والے غیر ملکیوں کو بیدخل کرنے کی ہدایت کی گئی۔ علاوہ ازیں باقاعدہ اقامے پر مقیم غیر ملکیوں کے حوالے سے یہ ہدایت بھی جاری کی گئی کہ اگر وہ بھیک مانگتے ہوئے پکڑے جائیں تو انہیں مملکت سے نہ صر ف یہ کہ بیدخل کیا جائے بلکہ انہیں بلیک لسٹ بھی کردیا جائے۔ 
گداگری کے اقتصادی و سماجی نقصانات مسلم ہیں۔ گداگری سے بدامنی کے مسائل بھی جنم لیتے ہیں۔ بہت سارے گداگر بھاری رقمیں غیر قانونی طریقے سے بیرون ملک بھیجتے ہیں۔ اس سے سعودی عرب کی تمدنی شکل بھی متاثر ہوتی ہے۔ کئی لوگ گداگری کو مجرمانہ سرگرمیوں کے لئے بھی استعمال کرتے ہیں۔ نایف یونیورسٹی برائے علوم سلامتی نے تازہ ترین جائزہ تیار کرکے بتایا ہے کہ ریاض میں انسداد گداگری کے موثر اقدامات کی راہ میں 4رکاوٹیں حائل ہیں۔ ایک رکاوٹ تو یہ ہے کہ شہر کے تمام محلوں میں چھاپے نہیں مارے جارہے ۔ دوسری رکاوٹ یہ ہے کہ گداگروں کو سبق سکھانے کے سلسلے میں قانونی تدابیر ناکافی ہیں۔ تیسری رکاوٹ یہ ہے کہ مقامی شہری گداگروں کی رپورٹ نہیں کرتے۔ سفارش یہ پیش کی گئی کہ گداگری کے انسداد کیلئے نئے موثر اقدامات کئے جائیں۔
گداگری کے مناظر مساجد اور انکے دروازوں پر خصوصاً جمعہ کی نماز کے بعد دیکھنے میں آتے ہیں۔ بعض پبلک مقامات پر بھی گداگر دیکھے جاتے ہیں۔ ابھی تک ان سے نمٹنے کےلئے کئے گئے اقدامات کے واضح نتائج برآمد نہیں ہوئے ۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
 
 

شیئر: