Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اسپیکر سندھ اسمبلی کے بعد۔۔۔۔۔۔!

آمدن سے زائد اثاثے کئی سیاستدانوں کے گلے کی ہڈی بن چکے ‘’’کرپشن چھپائو،ڈھنگ ٹپائو ‘‘والامعاملہ اب جلد ختم ہونے کو ہے
احمد آزاد، فیصل آباد

چیئرمین جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال نے گزشتہ سال اپریل میں آغا سراج درانی اور سندھ اسمبلی کے سیکرٹری غلام محمد کے خلاف غیرقانونی تقرریوں اور آمدن سے زائد اثاثوں کی انکوائری شروع کرنے کی منظوری دی تھی جس کے بعدنیب کے ریجنل ڈائریکٹر نے پیپلز پارٹی کے رہنما کے خلاف 3الگ الگ تحقیقات کا آغاز کیا تھا جس میں پہلی تحقیقات میں آغا سراج درانی پر آمدن سے زائد اثاثے بنانے کا الزام تھا۔نیب ذرائع کے مطابق نیب نے سکیورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان(ایس ای سی پی)سے آغا سراج درانی اور اہل خانہ کی کمپنیوں کا ریکارڈ لے لیا ہے۔ ذرائع کے مطابق اسپیکر سندھ اسمبلی نیب کو اپنی جائیداد کے ذرائع آمدن سے متعلق مطمئن نہیں کرسکے۔ اس کے علاوہ ان پر دوسرا الزام 352غیر قانونی تقرریوں کا تھا جبکہ ان کے خلاف تیسری تحقیقات ایم پی اے ہوسٹل اور سندھ اسمبلی کی نئی عمارت کی تعمیر کے لیے مخصوص فنڈز میں خورد برد سمیت ان منصوبوں کے پراجیکٹ ڈائریکٹرز کی تقرریوں سے متعلق تھی۔
پاکستان میں پہلی بار احتساب کا عمل شفافیت سے بلاامتیاز آگے بڑھتا نظر آرہا ہے ۔اگر ایک طرف اپوزیشن کے خلاف قومی احتساب بیورو کارروائیاں کرررہی ہے تو تاریخ میں پہلی بار واضح اکثریت لینے کے بعد عمران خان نیب کے سامنے ہیلی کاپٹر کیس میں پیش ہوئے۔بابر اعوان کے خلاف ریفرنس دائر ہونے پر ان سے استعفیٰ لیا گیا، وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا نیب میں پیش ہوئے ،سینیٹر اعظم سواتی کے خلاف کارروائی شروع کی گئی اور حتیٰ کہ سینئر وزیر عبدالعلیم کی گرفتاری کے بعد بھی تحریک انصاف کی صفوں میں صبروتحمل قائم رہا اور ان کی طرف سے کوئی بھی ایسی بات سننے کو نہ ملی جس سے نیب کے پر کاٹنے کی بو آئے لیکن جونہی پیپلز پارٹی کے رہنما آغا سراج درانی کو نیب نے گرفتار کیا پی پی والوں نے ایک طوفان برپا کردیا۔قومی اسمبلی کے اجلاس کو بھی مچھلی منڈی میں بدل دیا گیا ۔اصل میں پیپلز پارٹی نوشتہ دیوار پڑھ چکی ہے کہ اگلی باری ہماری سینئر ترین قیادت کی ہوگی کیونکہ سپریم کورٹ آف پاکستان کی جانب سے بے نامی اکائونٹس پر نظرثانی کی اپیل خارج ہوچکی ہے جس پر پیپلزپارٹی پہلے ہی مشتعل تھی اور اسپیکر سندھ اسمبلی کی گرفتاری نے اس اشتعال انگیزی میں اضافہ کردیا جس کی وجہ سے وہ موجودہ سسٹم کو ہی موردالزام ٹھہرارہے ہیں ۔موجودہ سسٹم مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی ہی مرہون منت ہے کیونکہ دونوں پارٹیوں کے ماضی قریب و بعید میں وزرائے اعظم رہ چکے ہیں ۔سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف نے اپنے دور اقتدار میں سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو اور ان کے شوہر آصف علی زرداری کے خلاف سیف الرحمن کے ذریعے مختلف کیسز بنوائے۔ سیف الرحمن نے بحیثیت چیئرمین نیب میرٹ سے ہٹ کر میاں نواز شریف کی خوشنودی کے لئے ان کے مخالفین پرمختلف مقدمات کا تانا بانا بْنا۔ بعدازاں پیپلز پارٹی نے بھی جواب آں غزل کے طور پر اپنے مخالفین پر کئی مقدمات بنوائے۔ چوہے بلی کا یہ کھیل ایک عرصے تک چلتا رہا۔ اس کے بعد پرویز مشرف کے دورحکومت میں احتساب نام کا کام شروع کیا گیا ۔ پھر قومی احتساب بیورو کو متحرک کر کے سیاسی پارٹیوں کے حصے بخرے کیے گئے ۔اب جب قومی احتساب بیورو(نیب) حکومت اور اپوزیشن دونوں کے رہنمائوں کے خلاف تحقیقات کررہا ہے اور گرفتار کررہا ہے تو اس کے پر کاٹنے کی باتیں ہورہی ہیں ۔احتجاج ہورہے ہیں ، مظاہروں کی نوید سنائی دے رہی ہے اور دھرنوں کی داغ بیل ڈالی جارہی ہے تاکہ کسی طرح احتساب سے بچ کر قومی دولت کو ذاتی دولت بنارہنے دیا جائے ۔مفاہمت کا بادشاہ سمجھے جانے والے آصف علی زرداری بھی اس وقت شدید غصے میں نظر آرہے ہیں ۔ حکومتی لوگ تو پھراحتساب سے مطمئن نظر آرہے ہیں لیکن اپوزیشن کی بے چینی دیکھنے کے لائق ہے۔حکومت بارہا کہہ چکی ہے کہ ہمارا نیب سے کوئی تعلق نہیں اور وہ اپنے معاملات کو خود دیکھ رہا ہے کسی کی بھی گرفتاری یاتحقیقات میں حکومت کا کوئی کردار نہیں ہے ۔آغا سراج درانی کے خلاف تو سابق رکن سندھ اسمبلی نے ہائی کورٹ میں رٹ دائر کی تھی۔ بعدازاں رکن اسمبلی نے رٹ واپس لینے کی استدعا کی تو سندھ ہائی کورٹ نے نیب میں کیس بھجوا دیا۔ اس لئے موجودہ حکومت کا تو اس گرفتاری سے دور کا بھی واسطہ نہیں ۔ماضی میں اقتدار کے ایوانوں کی سربراہی کرنے والی مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی اس وقت مختلف کیسز کا سامنا کررہی ہے ۔آمدن سے زائد اثاثے ان سب کے گلے کی ہڈی بن چکے ہیں۔نیب آمدن سے زائد اثاثوں کے بارے میں تحقیقات کررہا ہے اور جوبھی اس وقت نیب کے ریڈار میں آتا ہے اسے بغیر کسی تردد کے پوچھ گچھ کے لیے بلا لیا جاتا ہے یاپھرگرفتار کرکے تفتیش شروع کردی جاتی ہے ۔گاہے گاہے آوازیں بھی آتی ہیں کہ نیب جانبداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے صرف اور صرف اپوزیشن کوکھینچ رہی ہے لیکن حکومت پنجاب کے سینئر وزیر عبدالعلیم کی گرفتاری کے بعد اگرچہ یہ تاثر کسی طور پر ختم ہوچکا ہے لیکن اس کو بھی کسی اور تناظر میں دیکھا جارہا ہے کہ ایک وزیر کوپکڑ کر ہم پر زیادہ سختی کی جائے گی ۔بہرحال یہ سب قیاس آرائیاں ہیں اور اپنی ساکھ بچانے کی باتیں ہیں جو سیاسی باتوں سے زیادہ نہیں سمجھی جاتیں ۔عوام بھی اس بار شعور کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان معاملات میں دلچسپی لے رہی ہے لیکن ان کرپشن زدہ سیاسی رہنمائوں کے لیے باہر نکلنے کو تیار نظر نہیں آتی ۔’’کرپشن چھپائو،ڈھنگ ٹپائو ‘‘والامعاملہ اب جلد ختم ہونے کو ہے ۔پاکستانی عوام 70سالہ لوٹ مار کا بے رحم احتساب چاہتی ہے ۔ سیاسی جماعتوں کو بھی اس کا ادراک کرنا ہوگا ، اپنے آپ کو احتساب کے عمل سے گزار کر اپنی ساکھ محفوظ کروانا ہوگی اور اپنی سیاسی جماعتیں نئی نسل کو سونپ کر ملک کو مضبوط کرنا ہوگا ناکہ مک مکاکرکے ملک کا دیوالیہ نکالنے میں کرداراداکرنا ہوگا ۔

مزید پڑھیں:- - - - -ہند کا جنگی جنون

شیئر:

متعلقہ خبریں