Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

جھوٹ اس سے میں کس طرح بولوں:: وہ مرا اعتبار کرتا ہے

اُم آدم۔الخبر
اردو ایک ایسی زبان ہے جو ہندوستان و پاکستان کی سرحد سے اپنی مٹھاس سے اب تک کئی ممالک کو متاثر کر چکی ہے۔ آپ نے کئی مانوس و غیر مانوس اور غیر زبانوں کے افراد کی وڈیوز ضرور دیکھی ہوں گی جو اردو زبان و شعر و ادب سے متاثر ہو کر اس کی جانب راغب ہوئے اور آج نہ صرف وہ اچھی اردو بول سکتے ہیں بلکہ اپنے ملکوں میں اردو زبان کے سفیر بنے ہوئے ہیں۔بات جب اردو زبان کی ہو تو اردو ادب ایک گھنے تراشیدہ وسیع ترین باغ کی صورت ہمارے سامنے موجود ہے۔ پاکستان و ہندوستان سے بسلسلہ روزگار دنیا کے ہر ملک میں مقیم افراد اپنی زبان ، تہذیب وثقافت کی شمع جلائے اردو کی آبیاری کرنے میں مصروف نظر آتے ہیں اور شعر و سخن کے معروف و مروج طریقوں کے ذریعے عوام الناس و نوجوانوں کی توجہ گاہے بگاہے مرکوز رکھنے میں اپنا کردار کما حقہ ادا کر رہے ہیں۔ 
مملکت بحرین میں سال نو کا پہلا بین الخلیجی مشاعرہ ،پاکستان اردو سوسائٹی'''حلقہ ادب '' اور سوشل ویلفیئر ایسوسی ایشن ،بحرین کے زیر انصرام منعقد کیا گیا۔سفیر اسلامی جمہوریہ پاکستان، افضال محمود نے مشاعرے میں بحیثیت مہمان خصوصی شرکت کر کے بزم کی رونق میں اضافہ کیا۔ سفیر پاکستان افضل محمود اپنی خوش اخلاقی ، وقت کی انتہائی پابندی اور اپنے اعلیٰ ادبی ذوق اور ملنساری کی بنا پر ہر دل عزیز و مقبول شخصیت ہیں۔
ناظمِ محفل ، مملکت بحرین میں شائستہ لب و لہجے کے ادب نواز و ادب دوست خرم عباسی تھے جنہوں نے نہایت عمدگی و اعلیٰ ادبی پیرائے میں سفیر پاکستان،معزز مہمان شعرائے کرام اور حاضرینِ محفل کو خوش آمدید کہا۔محفل مشاعرہ کا باقاعدہ آغاز کلامِ پاک کی تلاوتِ مبارکہ سے ہوا جس کی سعادت چیئرمین پاکستان اسکول، قاری سمیع الرحمٰن نے حاصل کی۔ معروف نعت خواں محمد سجاد حسین نے نعت طیبہ پیش کی۔منتظم اعلیٰ اور منفرد اسلوب کے شاعر ریاض شاہد نے سپاس نامہ پیش کیا۔ اردو سوسائٹی حلقہ ادب، بحرین کی تاریخ کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ 1997 سے یہ مصروف عمل ہے اور نجی محافل سے ترقی کرتی ہوئی کئی بین الخلیجی و بین الاقوامی مشاعرے منعقد کر چکی ہے جسے اب سفارت خانہ پاکستان کی سرپرستی بھی حاصل ہے۔ انہوں نے سفیر اسلامی جمہوریہ پاکستان ، سعودی عرب کے مختلف شہروں سے تشریف لائے ہوئے مہمان شعرائے کرام اور حاضرین محفل کا خصوصی شکریہ ادا کیا اور مہمانِ خصوصی سفیر پاکستان کو اسٹیج پر خطاب کے لئے مدعو کیا۔اپنے خطاب میں انہوں نے حاضرینِ محفل اور بالخصوص مہمان شعرائے کرام کی وقت پر آمد پر اطمینان و خوشی کا اظہار کیا اور کہا کہ تاخیر سے کسی محفل میں پہنچنے پر انسان کے احترام میں کمی واقع ہوتی ہے جس سے شعوری طور پر احتراز کرنا چاہئے تا کہ اپنا اور دوسروں کا وقت ضائع ہونے سے بچایاجائے ۔انہوں نے مزید کہا کہ ہم کسی محفل میں وقت پر پہنچ کر نہ صرف تعلیم یافتہ اور مہذب کردار کا عملی نمونہ پیش کرتے ہیں بلکہ اپنے میزبان کو سہولت و آسانی فراہم کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اور آپ سب کوآسانیاں عطا فرمائے اور آسانیاں تقسیم کرنے والا بنائے ، اپنے ادبی ذوق کا اظہار انہوں نے مبارک صدیقی کی مشہور غزل سنا کر کیا :
خزاں کی رت میں گلاب لہجہ بنا کے رکھنا،کمال یہ ہے
ہوا کی زد پہ دیا جلانا ، جلا کے رکھنا ، کمال یہ ہے
ذرا سی لغزش پہ توڑ دیتے ہیں سب تعلق زمانے والے
سو ایسے ویسوں سے بھی تعلق بنا کے رکھنا،کمال یہ ہے
کسی کو دینا یہ مشورہ کہ وہ دکھ بچھڑنے کا بھول جائے
اور ایسے لمحے میں اپنے آنسو چھپا کے رکھنا،کمال یہ ہے
خیال اپنا ، مزاج اپنا ، پسند اپنی ، کمال کیا ہے ؟
جو یار چاہے وہ حال اپنا بنا کے رکھنا، کمال یہ ہے
کسی کی راہ سے خدا کی خاطر، اٹھا کے کانٹے،ہٹا کے پتھر
پھر اس کے آگے نگاہ اپنی جھکا کے رکھنا،کمال یہ ہے
وہ جس کو دیکھے تو دکھ کا لشکر بھی لڑکھڑائے،شکست کھائے
لبوں پہ اپنے وہ مسکراہٹ سجا کے رکھنا،کمال یہ ہے
ہزارطاقت ہو،سو دلیلیں ہوں پھر بھی لہجے میں عاجزی سے
ادب کی لذت، دعا کی خوشبو بسا کے رکھنا ،کمال یہ ہے
مملکت بحرین کے کہنہ مشق شاعر طارق اقبال طارق کے چوتھے مجموعہ کلام '''چند خواب'''کی رسمِ رونمائی بدست سفیر پاکستان عمل میں آئی۔ناظم مشاعرہ جناب خرم عباسی نے شہ نشین پر صدرِ محفل ، شہرریاض کے معروف مزاحیہ شاعر شوکت جمال کو مدعو کیا۔کہنہ مشق شعراء رخسار ناظم آبادی اور جناب عادل احمد ، ( بحرین ) قدسیہ ندیم لالی ( الخبر ) حکیم اسلم قمر ( الحساء ) ، محمد صابر ( ریاض )، اقبال اسلم بدر ( الجبیل)، اسد اقبال ( بحرین ) سعد سعدی ( بحرین ) مسند نشین ہوئے۔اسد اقبال نے اپنے کلام سے حاضرینِ محفل کی مکمل توجہ حاصل کی اور یکے بعد دیگرے غزلیں پیش کیں :
**اسد اقبال:
ہم یہ اچھی طرح سمجھتے ہیں
خون اپنا اثر دِکھاتا ہے
***
جس کا توڑا نہ ہو کسی نے دل
آئے ہم سے وہ دل لگی کر لے
***
رات کا ڈر نہیں اسد اس کو 
اپنے اندر جو روشنی کر لے
مملکت البحرین کے سعد سعدی نے اپنا تازہ کلام پیش کیا : 
**سعد سعدی:
یہ ہرگز نہیں کہ محبت نہیں ہے
غمِ زندگی سے ہی فرصت نہیں ہے
***
ترے وہ عہد و پیماں اور پھر ان سے مکر جانا
سبھی لفاظیاں تھیں ہم نے پھر بھی معتبر جانا 
سلیقہ ہم نے سیکھا ایک پروانے سے جینے کا 
اجل کی لو پہ رقصِ زیست کرنا اور مر جانا
مشاعرے کے منتظم اعلیٰ ریاض شاہد نے اپنے تازہ کلام سے ابتداء کی اور حاضرینِ محفل کی فرمائش پر دوبارہ مدعوکئے گئے۔
**ریاض شاہد:
زمین دل پہ بیٹھا عشق کے منظر بناتا ہوں 
کہیں مجنوں بناتا ہوں ،کہیں پتھر بناتا ہوں
محبت اٹھ چکی دنیا سے بے گھر ہو گئی ہر سو
فلک کو دیکھتا ہوں اور خلا میں گھر بناتا ہوں
مجھے کب جنگ کرنی ہے فقط دشمن ڈرانے ہیں 
''میں کاغذ کے سپاہی کاٹ کر لشکر بناتا ہوں ''
***
چہرہ ہے صادقین کے شہکار کی طرح
ازبر ہے مجھ کو میر کے اشعار کی طرح
بولے تو جلترنگ بجے حرف حرف میں
لہجہ ہے میرے یار کا ملہار کی طرح 
تحریر اس کے ماتھے پہ ہے وقت کا حساب
چہرہ ہے اس کا سرخئیِ اخبار کی طرح
رنج و الم یہ ہجر و رفاقت کے سلسلے 
بحرِ حیات میں ہیں یہ پتوار کی طرح
با کمال شاعر طارق اقبال طارق نے ، جذبات و احساسات سے مزین کلام پیش کیا :
**طارق اقبال طارق:
سمندروں کاسفر ہیں محبتیں طارق 
کسی کسی کو کنارہ نصیب ہوتا ہے 
***
ترے فراق میں رونا بہت ضروری تھا 
ہم اپنی آنکھ میں پانی تلاش کرتے رہے 
***
مجھے وطن سے محبت توہے بہت لیکن 
دیارِ غیر میں بچوں کی بھوک لے آئی
***
تمام رات ہی آنکھوں میں کٹ گئی طارق 
میں اپنی ماں کی دعاکاغذوں پہ لکھتارہا 
***
یہی ازل سے ہے معیار میری بستی کا 
زباں پہ سچ ہو تو شانوں پہ سر نہیں ہوتا 
***
ہم تو لاشیں ہیں سانس لیتی ہوئی 
زندگی اورچیز ہوتی ہے 
***
آج پھر دیکھ کر بہت رویا 
ایک تصویر میں ہنسی اپنی 
***
جانے کب کون کس گھڑی بچھڑے 
اور پھر یاد بھی نہ آئے ہمیں 
***
دل کاپتھر تراش کر ہم نے 
اس پہ کتبہ لکھا ہے خوداپنا 
***
تھکن سے چور پرندے نے وقتِ مرگ کہا 
کسے بتاؤں کہ دکھ کس قدر اڑان کاہے 
سعودی عرب کے مشرق سے ابھرنے والا ایک نام اقبال اسلم بدر، ایسے شاعر جنہوں نے اپنے کلام سے ثابت کیا کہ ان کا اسلوب و لہجہ اپنا ہے:
**اقبال اسلم بدر:
افق پر طلوع سحر دیکھتے ہیں
بس اک خواب ہے رات بھر دیکھتے ہیں
زباں اور ہی کچھ بیاں کر رہی ہے
ہم اہل نظر ہیں، نظر دیکھتے ہیں
ہیں اقبال کچھ ایسے منظر بھی جن کو
نہیں دیکھنا تھا مگر دیکھتے ہیں
ریاض کے معروف پنجابی شاعر محمد صابرجو اردو میں بھی اپنا ایک بہترین مقام بنانے میں کامیاب ہو چکے ہیں اپنا کلام پیش کرنے سے پہلے حاضرین محفل کو شدید موسم کے باوجود شرکت پر داد دیتے ہوئے کہتے ہیں :
**محمدصابر:
یہ ریگ زار کی وحشت سے چھیڑ خانی ہے 
قیام کر کے بہاروں نے مار کھانی ہے 
جدا ہوئے تو ترے خواب کیسے دیکھوں گا 
ترے بغیر مری نیند ٹوٹ جانی ہے 
قفس مرا ہے تو دستور بھی مرا ہوگا
میں طے کروں گا کہ کھڑکی کہاں لگانی ہے
*** 
جو بھی لگتا ہوں کسی کو ٹھیک لگتا ہوں میاں
میں کسی بھی روپ میں ہوں یار کی منشا سے ہوں
خوب پہچانا مجھے پھر جھنگ والوآپ نے
میں زمینِ عشق سے ہوں ،ہاں میں سرگودھا سے ہوں
الخبر کی معروف سماجی شخصیت شاعرہ ،ادیبہ، نسائی ادب کا منفرد نام ، قدسیہ ندیم لالی نے اپنے مختصر خطاب میں حلقہ ادب و منتظمین و حاضرین محفل کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ مملکت بحرین میں شعرائے کرام کی جس طور عزت افزائی و تکریم کی جاتی ہے وہ قابلِ صد تحسین و قابلِ تقلید ہے۔ ہمیں منتظمِ بزم، عزت سے دعوت دیتے ہیں اور ہم سب مشاعرہ گاہ میں پہنچ کر ان کی عزت افزائی کرتے ہیں۔ اعلیٰ ذوق کے حاضرین کی کثیر تعداد اس بات کا بہترین ثبوت ہے کہ شعر و ادب کے احاطے کی محافل میں عوام اپنے ادبی ذوق کی تسکین کے لئے کھینچے چلے آتے ہیں،بعد ازاں انہوں نے مرصع کلام پیش کیا : 
**قدسیہ ندیم لالی:
وہ اونچا جس قدر بھی ہو مگر اچھا نہیں لگتا
شجر بے سایہ ہو یا بے ثمر اچھا نہیں لگتا
یہی تو ہنستی بستی زندگانی کی علامت ہے
جہاں بچے نہ روتے ہوں وہ گھر اچھا نہیں لگتا 
جودکھ اس نے دیا ہے وہ فقط اس کی امانت ہے
کسی پر کھول دے یہ چشمِ تر اچھا نہیں لگتا 
مملکت بحرین کے کہنہ مشق و نرم خو شاعر عادل احمد نے اپنا کلام پیش کیا اور حاضرین سے خوب داد وصول کی۔ نمونہ کلام حاضر : 
** عادل احمد:
مصروف رہ گزر پہ چلا جا رہا تھا میں
حیرت یہ تھی کہ سب سے جدا جا رہا تھا میں
میں گرد راہ تھا مگر اعجاز دیکھئے
ہر کارواں کے ساتھ اڑا جا رہا تھا میں
رکنے میں ڈر یہ تھا کہ توازن بگڑ نہ جائے
عادل اسی گماں میں چلا جارہا تھا میں
بحرین کے ایک اور کہنہ مشق و ہر دل عزیز شاعر رخسار ناظم آبادی نے اپنا تازہ کلام پیش کیا :
**رخسار ناظم آبادی:
تحریر کردہ دکھ بھرا کردار ہے جسے
ہنس کر نبھا رہے ہیں اداکار کی طرح
***
جھوٹ اس سے میں کس طرح بولوں
وہ مرا اعتبار کرتا ہے
***
وہ جس کو چاہے اسے اقتدار دیتا ہے
غلط چلے تو پھر اس کو اتار دیتا ہے 
***
طفل نے کچھ بھی نہیں سوچا ملا کر لکھ دیا
زندگی اور موت کو بالکل برابر لکھ دیا
***
الحساء سے ایک اور خوش الحان شاعر حکیم اسلم قمر نے اپنے مترنم لہجے میں کئی غزلیات پیش کیں: 
** حکیم اسلم قمر:
حوصلہ ہارنے والوں میں نہیں میرا شمار
جتنے ہیں زخم پرانے مجھے واپس کر دو 
 
 

شیئر: