Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پاکستان کا ذمہ دار انہ کردار

پائلٹ کی رہائی کو ہند میں امن کی فتح ماننے کی بجائے منفی معنی میں لیا گیا، جنگ ہوئی تو پوری دنیا کیلئے تباہ کن ہوگی
 
احمد آزاد، فیصل آباد

برصغیر کا خطہ ایک ایسی جنگ کے دہانے پر موجود ہے جو کبھی بھی شروع ہوسکتی ہے ۔ایک ایسا آتش فشاں ہے جس سے ہمیشہ ہی لاوا ابلتا رہتا ہے اور گردوپیش کو جلاتا رہتا ہے۔پاک و ہند کے درمیان تقسیم برصغیر سے ہی ایک ایسی لکیر واضح ہوچکی ہے جس کی وجہ سے دونوں ملک جنگ و جدل کی تیاری میں مصروف رہتے ہیں ۔دونوں ملکوں کے عوام بھی اسی حوالے سے جذباتی واقع ہوئے ہیں ۔پچھلی کئی صدیوں بلکہ آریائی دورسے لے کراب تک یہ خطہ جنگ کی بھٹی میں گرم رہا ہے ۔یہ ایک حقیقت ہے کہ یہ خطہ کسی بھی بڑی جنگ کا سامنا نہیں کرپایا۔ جنگوں کی ہیئت تبدیل ہوئی تو جنگوں کی خوفناکی میں بھی اضافہ ہوگیا۔خطرناک قسم کی میزائل ٹیکنالوجی اور نت نئی جنگی ایجادات و تیکنیکس نے جنگی ماہیت و ماحول کو بدل کررکھ دیا ۔انسانیت کے تحفظ کی خاطر بنائی جانے والی چیزیں ہی انسانیت کو نگلنے کے درپے ہوچکی ہیں ۔برصغیر کے خطے میں ہونے والی ماضی قریب و بعید کی ساری جنگیں محدود پیمانے کی تھیں۔ مخصوص خطے میں ہوئی جنگ سے صرف وہی خطہ متاثر ہوا ۔ اس وقت ہندوستانی کوشش کے پاکستانیوں نے صبر کا دامن تادم تحریر تھام کررکھا ہوا ہے بلکہ ایک ہاتھ آگے جاکر امن کی خاطر سیاسی قیادت نے اپنا کیرئیر بھی دائو پر لگالیا ہے لیکن ہند کی جانب سے ہنوز جنگ وجدل کی باتیں اور پاکستان کو شکست دینے کی باتیں سننے اور پڑھنے کو مل رہی ہیں۔تقسیم برصغیر کے وقت سے ہی پاکستان اور ہندوستان کے درمیان ایک بنیادی حیثیت کا مسئلہ موجود رہا ہے جس کا نام ’’کشمیر‘‘ہے۔ایک ایسا مسئلہ جسے ہندوستان خود اقوام متحدہ کے عالمی فورم پر لے کر گیا اور انہیں حق خودرائے دہی دینا کا وعدہ کیا گیا۔اس کے بعد جو ہوا وہ سب کچھ تلخ تاریخ ہے جس میں 2 جنگیں بھی لڑی گئیں اور اس سے ہٹ کر بھی بہت کچھ ہوا ۔پلوامہ میں ہوئے خودکش حملہ کے فوراََبعد اس کا سارا ملبہ ہمیشہ کی طرح پاکستان پر ڈال کر مودی حکومت نے جنگ کا ماحول پیدا کیا اور ہندوستانی میڈیا نے ہندوئوں کو اُکسایا کہ ہندوستانی مسلمانوں اور کشمیریوں کے خلاف کوئی انتقامی کارروائی کریں جس کے نتیجے میں ہندوستان بھر میں کئی ایک جگہوں پر نہتے ومعصوم لوگوں کے ساتھ انسانیت سوز سلوک کیا گیا۔کشمیریوں پر ہوٹلوںاوریونیورسٹیوں وغیرہ کے دروازے بندکرنے کی خبریں پڑھنے کو ملیں اور ایک پاکستانی قیدی شاکراللہ کو بھی جیل میں قتل کرنے کی خبر ملی جو کہ ہندوستانی ریاست گجرات سے 2001ء میں گرفتار ہوا تھا اور جے پور کی سینٹرل جیل میں قید کاٹ رہا تھا ۔اس کے بعد طبل جنگ بجا اور ہندوستانی طیاروں نے پاکستانی سرحدوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے عالمی قوانین کو روند ڈالا جس کے بعد دونوں طرف کی فضاء مکدر ہوگئی ۔پاکستانی قیادت نے امن پسندی کا ثبوت دیتے ہوئے جہاں ہند کو خبردار کیا وہیں تنبیہ بھی کردی کہ بازآجائونہیں تو جواب دینے میں سوچا نہیں جائے گا ۔اگلے دن 27فروری کی صبح پھر خلاف ورزی ہوئی تو پاکستانی شاہینوں نے جوابی کارروائی کرکے ہندوستانی غرور کو خاک میں ملادیا اور ان کے ونگ کمانڈر ابھی نندن کو گرفتار کرکے جنگ کا پانسہ ہی پلٹ دیا۔اس سارے دورانیے میں سرحدی جھڑپیں بھی ہوتی رہیں اور مختلف سیکٹروں پر ہندوستانی افواج کو پاکستانی فوج جواب دیتی رہی۔ ہند کی طرف سے پہلے انکار کیا گیا اور پھر اقرار کے ساتھ ہی پاکستانی ایف 16 کو تباہ کرنے کا دعویٰ کیا گیا جس کے جواب میں پاکستانی فوج کے ترجمان نے کہا کہ ایف 16 کو اس آپریشن کیلئے نکالا ہی نہیں گیا ۔اس کے بعد تندوتیز جملوں اور سرحدی جھڑپوں کا دور شروع ہوا جس کے بعد جمعرات کو قومی اسمبلی میں اراکین پارلیمنٹ سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم پاکستان نے ہندوستانی پائلٹ کو رہا کرنے کا اعلان کرکے ہندوستانی وزیراعظم نریندر مودی کی ساری سیاست وسفارت کاری کا ستیاناس کردیا۔اگرچہ یہ فیصلہ پاکستانیوں کے لیے ماننا قدرے مشکل تھا لیکن علاقائی و بین الاقوامی صورتحال کے پیش نظر اس طرح کے فیصلے کی ضرورت تھی جس سے پاکستان کا پیغام امن دنیا بھر میں پہنچ پاتا اور ہندوستانی چہرہ سب کے سامنے آجاتا ۔
اس سارے دورانیے میں بیک ڈور پالیسی بھی جاری رہی ۔سعودی عرب، یو اے ای اور امریکہ سمیت دیگر ممالک نے حالات کو ٹھنڈا کرنے اور دونوں ممالک کے درمیان مسائل کو مذاکرات کے ذریعے حل کروانے کی کوشش کی۔ پاک ہند کے مابین پائی جانے والی سخت ترین کشیدگی کے دوران امریکی وزیرِ خارجہ مائیک پومپیونے بھی ہند اور پاکستان پر زور دیا کہ دونوں فریق تحمل کا مظاہرہ کریں اور تنازع کو بڑھنے سے روکیں۔دوسری جانب اسلامی ممالک تعاون کی تنظیم او آئی سی نے منگل کواپنے بیان میں ہند کی جانب سے ایل او سی کی خلاف ورزی کی شدید مذمت کی اور دونوں ممالک کو تحمل سے کام لینے پر زور دیا۔او آئی سی کے بیان میں کہا گیاکہ وہ پاکستان کی حدود کی خلاف ورزی کرنے اور بمباری کرنے کی شدید مذمت کرتا ہے اور زور دیا کہ پاکستان اور ہند ذمہ داری سے کام لیتے ہوئے پر امن طریقے اور مذاکرات کے ذریعے معاملات کا جلد از جلد حل نکالیں۔اس کے علاوہ چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے بھی دونوں ممالک سے کہا کہ وہ حالات کو بہتر بنانے کی کوشش کریں تاکہ خطے کا امن برقرار رہے۔اس سارے دورانیے میں پاکستان کا کردار ذمہ دارانہ اور امن پسندانہ ریاست کا رہا ۔ ہندوستانی وزیراعظم نریندرمودی اور دیگر انتہا پسند ہندوئوں کو اس وقت الیکشن جیتنے کے لیے مسلم و پاک دشمنی ضروری ہے۔ ہندوستانی میڈیا پر بھی ایک طرح سے جنگی جنون کا دورہ پڑچکا ہے اگرچہ کچھ سنجیدہ حلقوں کی جانب سے پاکستان کے اقدامات کو سراہا گیا لیکن اکثریت نے ہندوستانی پائلٹ کی رہائی کو بھی امن کی فتح ماننے کی بجائے منفی معنی میں لیا اور پاکستان کو نیچا دکھانے کی کوشش کرتے رہے۔یاد رکھیں کہ جنگ مسائل کا حل نہیں اور اگر جنگ ہوتی ہے تو یہ پوری دنیا کیلئے تباہ کن ہوگی۔

مزید پڑھیں:- - - - - - جنگیں کبھی مسائل کا حل نہیں ہوتیں

شیئر: