Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

گناہوں کی معافی اور درجات کی بلندی کا سبب ، درود شریف

درود شریف دعاؤں کی قبولیت کا ذریعہ بھی بنتا ہے، ہم جو بھی دعا اللہ تعالیٰ سے مانگتے ہیں تو اس سے دعا قبول ہوتی ہے
 
فرخندہ شاہد۔ ریاض
اللہ جل شانہ کا بہت بڑا احسان ہے کہ اس کی ذات پاک نے ہمیں اپنے حبیب محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کا امتی بنایا اور ہمارے دلوں کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی کا شرف بخشا۔ الحمدللہ ثم الحمدللہ کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں سلسلہ نسبت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے منسلک فرمایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے آخری نبیؐ ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بدولت آج ہم اور آپ مسلمان ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی بدولت دین اسلام دنیا میں پھیلا تو بحیثیت امتی ہر مسلمان کا یہ دینی اور ایمانی فریضہ ہے کہ ہم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر کثرت سے درود و سلام بھیجیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو درود و سلام کا تحفہ پیش کریں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود و سلام کی فضیلت اور اہمیت تو اتنی زیادہ ہے کہ اللہ تعالیٰ خود قرآن پاک میں فرماتے ہیں:
    "اللہ اور اس کے فرشتے درود و سلام بھیجتے ہیں آپ پر تو اے ایمان والو تم بھی آپ پر درود بھیجو۔"(الاحزاب56)۔
    چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کس طرح سے قرآن پاک میں دعوت دے رہے ہیں کہ ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھیں اور یہ بات ہم اور آپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ قرآن حکیم اللہ تعالیٰ کی کتاب ہے اور ایک مکمل ہدایت ہے اور اس میں تمام احکامات بنی نوع انسان کیلئے محفوظ کر لیے گئے ہیں اور کہیں پر بھی فرشتوں کے حوالے سے اللہ تعالیٰ نے کوئی چیز بیان نہیں کی لیکن اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اُس مرتبہ اور منزلت کو بیان کیا ہے جو آسمانوں میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حاصل ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ فرشتوں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف کرتے ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر رحمتیں بھیجتے ہیں اور فرشتے بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بلندی اور درجات کی دعا کرتے ہیں اور اسکے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے اہل زمین کو حکم دیا کہ وہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر صلوٰۃ و سلام بھیجیں تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف میں علوی اور سفلی دونوں عالم متحد ہو جائیں۔ آیت بالا میں اللہ تعالیٰ اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بات کر رہے ہیں۔ اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا رتبہ بتا رہے ہیں کیونکہ محبوب کی جو شان ہے وہ اللہ رب العزت سے زیادہ کوئی نہیں جانتا اور اسی طرح قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم! ہم نے آپکے ذکر کو بلند کردیا۔ اے میرے محبوب !میں اور فرشتے آپ( صلی اللہ علیہ وسلم) پر درود بھیج رہے ہیں اور انسانوں کو بھی یہ حکم دے دیا اور اپنے بندوں کو تاکید کی کہ اگر راہ راست پر رہنا چاہتے ہو اور میری محبت پانا چاہتے ہو تو اُس ذکر پر آجاؤ جو میں اور میرے فرشتے کر رہے ہیں لہذا درود شریف پڑھنے والا ہر مسلمان اس ذکر میں شامل ہو جاتا ہے جو ذکر اللہ تعالیٰ اور ملائک فرما رہے ہیں۔ بے شک جتنا پیار میرا رب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کرتا ہے کوئی کر ہی نہیں سکتا اسی لئے اللہ تعالیٰ نے قرآن میں ہر مومن کو یہ تاکید فرما دی ہے کیونکہ یہ ذکر میں اور میرے فرشتے کر رہے ہیں اس لئے اے ایمان والوتم بھی اس میں شامل ہو جاؤ ۔
    درود شریف پڑھنے کے فضائل تو بے شمار ہیں جن کے بیان کیلئے زندگی کافی نہیں۔ آپ جتنی نمازیں پڑھ لیںج روزے رکھ لیں، حج زکوٰ تمام نیک اعمال و احکامات جو ہم کر رہے ہیں وہ سب ہم اللہ تبارک وتعالیٰ کیلئے کر رہے ہیں یہ تمام اعمال بھی اللہ تعالیٰ قبول فرمانے والا ہے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود شریف بھیجنا ایک ایسا عمل ہے جو صرف ہونٹ ہلانے سے بھی قبول ہو جاتا ہے۔ یہ ایک ایسا ذکر ہے جو کبھی رد نہیں ہوتا ،اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں قبول ہوتا ہے ۔باقی جو بھی عبادات کی جاتی ہیں ان کے بارے میں ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ مقبول ہے کہ نہیں۔ اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں فرماتا ہے کہ تم ایک نیکی کرتے ہو تو ہم تمہیں اس کا 10 گنا اجر دیتے ہیں تو درود شریف پڑھنا تو ایک نیکی ہے اوراس سے بڑی نیکی کیا ہے۔
     حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
    "جس نے مجھ پر ایک مرتبہ درود بھیجا اللہ تعالیٰ اس پر 10 رحمتیں نازل فرمائے گا۔"( صحیح مسلم و بخاری)۔
     درود شریف دعاؤں کی قبولیت کا ذریعہ بھی بنتا ہے۔ ہم جو بھی دعا اللہ تعالیٰ سے مانگتے ہیں تو اس سے دعا قبول ہوتی ہے۔ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت ہے۔دعا اس وقت تک زمین اور آسمان کے درمیان معلق رہتی ہے جب تک اس کے ساتھ درود شریف نہ ہو( ترمذی) ۔
    یہ ادب بھی ہے اور دعاؤں کی مقبولیت کا ذریعہ بھی۔
     حضرت عبداللہ بن مسعود کہتے ہیں کہ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھ رہا تھا اور حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی شریک تھے ۔میں دعا کیلئے بیٹھا تو پہلے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کی پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجا اور پھر اپنے لئے دعا کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
    " اس طرح اللہ سے مانگو گے تو دیئے جاؤ گے۔"( صحیح مسلم صحیح بخاری)۔
     یہی اصل طریقہ ہے دعا مانگنے کا۔ اس طرح دعائیں رد نہیں ہوتیں اور اللہ کی10 رحمتیں نازل ہوتی ہیں۔ آپ نے فرمایا :
    "جب تک کوئی مسلمان مجھ پر درود بھیجتا رہتا ہے، اللہ تعالیٰ کے فرشتے اس وقت تک اس کے لئے دعائے رحمت کرتے رہتے ہیں جہاں اللہ تعالیٰ کی10 رحمتیں نازل ہوتی ہیں وہاں فرشتے بھی دعائے رحمت شروع کردیتے ہیں۔"( ترمذی)۔
     اب یہ ہم پرانحصار ہے کہ ہم درود شریف کتنا کم اور کتنا زیادہ پڑھیں۔
     مسند احمد کی روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا :
    "جس شخص نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایک بار درود بھیجا اللہ اور اس کے فرشتے اس پر70 مرتبہ دعا اور رحمت بھیجتے ہیں"۔
     طبرانی کی حدیث ہے ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
    "قیامت کے دن مجھ سے سب سے زیادہ نزدیک وہ لوگ ہونگے جو مجھ پر زیادہ سے زیادہ درود بھیجتے ہیں۔"
      درود شریف پڑھنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت حاصل کرنے کا ذریعہ ہے۔ جو ایک مرتبہ درود پڑھے گا اس کے10 گناہ معاف10 درجے بلند اور اس پر 10رحمتیں نازل ہوں گی( صحیح مسلم صحیح بخاری)۔
    حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتی ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب مسجد میں داخل ہوتے تو درود وسلام پڑھتے یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے لیے بھی درود پڑھتے تھے۔ مسند احمد کی روایت ہے،حضرت ابی ابن کعب کہتے ہیں کہ میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! میں آپ پر کثرت سے درود بھیجتا ہوں ،اپنی دعا میں سے کتنا وقت درود شریف میں لگاؤں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جتنا تو چا ہے ۔میں نے عرض کیا:ایک چوتھائی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جتنا تُوچا ہے لیکن اگر اس سے زیادہ کرے تو تیرے لیے اچھا ہے ۔میں نے عرض کیا: آدھا وقت تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جتنا تُوچاہے لیکن اگر تو اس سے زیادہ کرے تو تیرے لئے اچھا ہے ۔میں نے کہا دو تہائی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جتنا تُو چاہے لیکن اگر تو زیادہ کرے تو تیرے لیے اچھا ہے ۔میں نے عرض کیا کہ اپنی ساری دعا کا وقت درود شریف کے لیے مقرر کرتا ہوں تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
    "یہ تیرے لیے سارے دکھوں اور غموں کیلئے کافی ہو گا اور تیرے گناہوں کی بخشش کا باعث ہوگا "۔
    آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"بخیل ہے وہ شخص جس کے سامنے میرا ذکر ہو اور وہ مجھ پر درود نہ بھیجے ۔"( صحیح مسلم)۔
     اسی طرح صحیح بخاری کی حدیث ہے ، حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے مروی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:جو مجھ پر درود پڑھنا بھول گیا اس نے جنت کا راستہ کھو دیا ۔
    اسی طرح طبرانی کی حدیث ہے کہ کسی بھی دعا اور ذکر کا اجر اتنا زیادہ نہیں جتنا درود شریف کا ہے۔
     نسائی کی حدیث ہے ،حضرت عبدالرحمن بن عوف سے روایت ہے کہ ایک روز نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم گھر سے نکلے، کھجوروں کے باغ میں داخل ہوئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بہت لمبا سجدہ کیا حتیٰ کہ مجھے اندیشہ ہوا کہ کہیں اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی روح قبض کر لی ہے۔ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی طرف دیکھ ہی رہا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سر اٹھایا اور فرمایا کہ کیا بات ہے ؟میں نے بات بتائی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا" جبرئیل( علیہ السلام) نے مجھ سے کہا کہ اے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم !کیا میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک بشارت نہ دوں ،اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ جو شخص آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجے گا میں بھی اس پر رحمت نازل کروں گا ،جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر سلام بھیجے گا میں بھی اس پر سلام بھیجوں گا۔ امت کا درود و سلام آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک پہنچایا جاتا ہے۔ اس کے بارے میں نسائی کی روایت ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:بے شک اللہ تعالیٰ کے فرشتے زمین میں پھرتے رہتے ہیں اور میری امت کا سلام مجھے پہنچاتے رہتے ہیں۔
     آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :"میری قبر کو میلہ نہ بناؤ اور اپنے گھروں کو قبرستان نہ بنائو، تم جہاں کہیں بھی ہو مجھ پر درود بھیجتے رہو ،تمہارا درود مجھ تک پہنچا دیا جاتا ہے ۔"( نسائی)۔
     درود پاک بے شمار ہیں اور ہر درود کی اپنی فضیلت اہمیت اور برکت ہے لیکن سب سے افضل درود’’ درود ابراہیمی‘‘ ہے اور اسی کا حکم ہمیں نماز میں پڑھنے کا دیا گیا ہے۔
     جب بیت اللہ کی تعمیر کے بعد سیدنا ابراہیم ؑنے دعا کی تو فرمایا کہ اے میرے پروردگار! امت محمدمصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں سے جو شخص تیرے گھر کی طرف رخ کرکے نماز پڑھی تو میری طرف سے اس کی شفاعت قبول فرما اور اسی طرح آپ علیہ السلام کے خاندان نے امت مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے دعا کی تو دراصل درود ابراہیمی اسی دعا کا جواب ہے کہ جو دعا حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کی آل نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کیلئے سلامتی اور رحمتوں کی دعا کی تو ہم اسی سلامتی کا جواب اپنی نماز میں حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کی آل کیلئے دیتے ہیں۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم معراج پر تشریف لے گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ملاقات سیدنا ابراہیم علیہ السلام سے ہوئی تو آپ علیہ السلام نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام پیش کیا اور اس کے بعد یہ بھی عرض کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت پر بھی سلام پیش کرتا ہوں تو جواب میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہی درود ابراہیمی پڑھا تو سب سے زیادہ عظمت والادرود یہی درود ابراہیمی ہے اور اللہ رب العزت اور فرشتے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجتے ہیں اور یہی درود ابراہیمی ہے جس سے اُس محبت کے واسطے کا اظہار ہوتا ہے جو خاندان ابراہیم کی امتِ محمد مصطفی سے ہے اور پھرامت پر یہ بات لازم کردی گئی جس طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کے خاندان نے تمہارے لئے دعا کی تھی تو تم یہی دعا نماز میں ان کی آل کے لئے کیا کرو گے اسی لئے سب سے عظمت والا درود’’ درود ابراہیمی‘‘ ہے۔ اسے مختصر کرکے بھی پڑھا جاسکتا ہے یعنی صرف صلی اللہ علیہ وسلم بھی پڑھ سکتے ہیں۔ اللہ کی بارگاہ میں جس مشکل میں بھی درود پڑھا جاتا ہے تو وہ مشکل آسان ہوجاتی ہے تو دعا ہے اور یہ وہ دعا ہے جو بلا کسی تردد کے بارگاہ الٰہی میں شرف قبولیت پا لیتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو آخری نبی بنا کر بھیجا اور پھر تمام نعمتیں تمام راحتیں  تمام برکتیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پاک سے منسوب فرما دیں لحاظہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود و سلام بھیجنے والے کیلئے اللہ تعالیٰ نے بے شمار اجرو ثواب اور اتنی رحمتیں اور برکتیں رکھ دیں کہ ان کیلئے تو یہ زندگی کافی نہیں جو ہمیں ایک درود پڑھنے سے حاصل ہو سکتی ہیں اور تمام عمر کی عبادت کے مقابلے میں مل سکتی ہیں۔ عبادات کے ساتھ درود شریف کا تحفہ امت محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کو عطا کردیا کہ درود پڑھتے رہو نیکیاں کما تے رہو اور میرے محبوبؐ کے نزدیک آتے رہو اور جنت کے نزدیک تر ہوتے چلے جاؤ۔ اگر ہم درود پڑھنے کا مقصد اور مطلب سمجھ لیں تو ہمیں اندازہ ہوگا کہ درود پاک اپنے اندر کتنی برکات اور تاثیر رکھتا ہے۔ جب ہم درود شریف  پڑھتے ہیں تو ہمیں اللہ تعالیٰ کی سنت پر عمل کرنے کا موقع ملتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا رتبہ بلند ہے اور اللہ تعالیٰ نے رہتی دنیا تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام اور رتبہ بلند کردیا ہے اور آسمانوں اور زمین پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجنے والی مخلوقات کتنی ہے جن کے بارے میں ابھی شاید ہمیں علم ہی نہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے انکی آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھنے کی ڈیوٹیاں لگا رکھی ہیں اور بنی نوع انسان کیلئے تو یہ ایک شرف ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اپنے پیارے حبیب محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود پڑھنے کا تحفہ دیا ہے اور یہ ایک ایسا تحفہ ہے کہ درود پڑھنے سے دل آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت سے سرشار ہو جاتا ہے۔ اگر ہم یہ سوچیں کہ جب ہم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر صلوٰۃ و سلام پیش کرتے ہیں تو یہی صلوٰۃ و سلام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں پیش کیا جاتا ہے اور ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دربار میں حاضری کر رہے ہوتے ہیں۔ اب ہمارا نام اس بارگاہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پکارا جائے گا تو یہ ایک مومن کیلئے بہت بڑا رتبہ ہے اور یہ جان لینا ہی ہماری روح کی تسکین کیلئے کافی ہے کہ آقائے دو جہان محمد صلی اللہ علیہ وسلم ، جن کے بغیر ہماری شفاعت ہی ناممکن ہے، انکی بارگاہ میں ہمارا نام اور سلام جا رہا ہے۔ کیا ہم اس قابل ہیں؟ جن گناہوں کی دلدل میں ہم رہتے ہیں اسکے باوجود اللہ تعالیٰ کی ذات  ہمیں یہ موقع دے رہی ہے کہ ہم نے اپنے دل اور روح کو پاک کرنا ہے۔ کیا ہم اس قابل ہیں جہاں حسد کینہ تکبر اور نہ جانے کن کن بیماریوں میں مبتلا ہو چکے ہیں اسکے باوجود اللہ تعالیٰ کی ذات پاک ہر لمحہ ہمیں یہ موقع دے رہی ہے کہ ہم درود و سلام پڑھیں اور اسکے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں ہمارا نام جائے ۔ہم کیا اور ہماری اوقات کیا ۔ہمیں سوچنا چاہیے کہ ہم جب درود شریف پڑھتے ہیں تو ہماری زندگی بھی درود شریف کی تابع ہونی چاہیے۔ ہمیں سوچنا چاہیئے اور محبت کا تقاضا تو یہ ہے کہ یہاں ں تعداد نہیں ہوتی اس لیے جتنا ہم پڑھ سکیں جتنی اللہ توفیق دے اتنا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر کریں اور ان پر درود و سلام بھیجے اور یہ وہ ذکر ہے جو اللہ رب العزت اور اس کے فرشتے بھی فرما رہے ہیں تو اس سے بڑی نیکی اور کیا ہوگی اور یہ وہ نیکی ہے جس میں آپ پابند نہیں ۔ہر وقت چلتے پھرتے اٹھتے بیٹھتے  نیکی کریں۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر اور خصوصاً امت محمدیؐ پر اتنا مہربان ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے کردی۔
    آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت کیلئے کتنا رویا کرتے تھے اور پریشان رہتے تھے تو ہمیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کا کچھ تو حق ادا کرنا پڑیگا۔اپنی روح کو پاک صاف کرنا پڑے گا اور اپنی زندگیوں کو اس درود پاک کے تابع کرنا پڑے گا تاکہ اس دنیا سے ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں چلے جائیں اور جب فرشتے ہم سے پوچھیں تو ہمارے پاس اور کچھ ہو نہ ہو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سہارا ہو اور بروز محشرآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کھڑے ہو سکیں جن پر اللہ تعالیٰ نے ہماری شفاعت لازم کردی ہے اور ہم کم از کم اس شفاعت کے حقدار ہی بن جائیں اور جس نے اپنی زندگی سنوار لی جس نے اپنی زندگی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے درود کے تابع کر لی تو اس کی تو دنیا بھی سنور گئی اور اس کی آخرت بھی سنور گئی ۔اللہ تعالیٰ ہم سب پر رحم فرمائے آمین ثم آمین۔
 

شیئر: