Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

دنیا پر واضح ہو چکا کون امن کا خواہاں ہے؟

 ہندوستانی میڈیا مسلسل غلط بیانی کر رہا ہے، بی جے پی اور اسکے رہنماؤں کی جانب سے زہرآلود بیانات داغے جا رہے ہیں
تنویر انجم

 

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ہندوستانی وزیر اعظم نریندر مودی میں چند باتیں مشترک ہیں کہ دونوں آئے روز اپنے کسی حکم، بیان، فیصلے یا عمل کے باعث میڈیا کی زینت بنتے ہیں، آج ہمارا موضوع امریکی صدر نہیں بلکہ پڑوسی ملک ہند کے وزیر اعظم ہیں، جو کرسی اقتدار سنبھالنے سے لے کر آج تک مال داروں اور دہشتگردوں کے ہاتھوں کھلونا بنے ہوئے ہیں۔ خطے میں جاری حالات سے کون واقف نہیں؟۔ دنیا بھر کے ذرائع ابلاغ بشمول ہندوستانی میڈیا پر چلنے والی خبروں کا مختصراً جائزہ لیا جائے تو پتا چلتا ہے کہ ہند میں رواں برس اپریل اور مئی کے مہینوں میں ہونے والے انتخابات کی تیاریاں زور و شور سے جاری ہیں۔ انتظامی معاملات کی ہند میں اہمیت نہیں کیونکہ تاریخ شاہد ہے کہ وہاں طاقت کا زور چلتا ہے۔ جس کی لاٹھی اس کی بھینس کے مصداق انتخابات میں فتح بی جے پی کی ہو یا کانگریس کی، اقتدار سنبھالتے ہی ایجنڈا سب کا ایک ہی ہوتا ہے کہ ملک پر سیکولر ریاست کا لیبل لگا کر دراصل ’’ہندوتوا‘‘ پالیسی ہی کے تحت لے کر چلنا ہے۔ سیاسی معاملات کو دیکھا جائے تو بی جے پی کا ماضی دہشتگردی سے عبارت ہے کہ انتخابات کے نتائج اپنے حق میں لانے کیلئے اِسے مسلم دشمنی، پاکستان سے نفرت، کشمیریوں پر مظالم اور اپنے ملک میں امن و امان تباہ کرنے کے سوا کوئی دوسرا راستہ دِکھائی نہیں دیتا کیونکہ ہندو اکثریت محض اس نفرت ہی کی بنیاد پر حق رائے دہی استعمال کرتی ہے۔
ذرائع ابلاغ اور ہند سے آنیوالی اطلاعات کے مطابق رواں برس ہونے والے انتخابات میں کامیاب ہونے کیلئے بھارتیہ جنتا پارٹی مذکورہ بالا راستے تو عادتاً اختیار کررہی ہے تاہم اس مرتبہ اس نے اپنی فوج کو (جس کے جوان پہلے ہی مایوسیوں کا شکار ہوکر خودکشیاں کرنے پر مجبور ہو چکے ہیں) جوش دلانے کیلئے مبینہ طور پر پلوامہ میں دہشتگردی کا ایک ڈراما رچایا اور اس کے فوراً بعد بغیر سوچے سمجھے اور بلا تحقیق واقعے کا الزام پاکستان پر عائد کردیا، جس کے نتیجے میں مودی سرکار کو نہ صرف دنیا بھر کے میڈیا اور رہنماؤں کی جانب سے تنقید کا سامنا کرنا پڑا بلکہ بی جے پی کے رہنماؤں کی مبینہ آڈیو ٹیپ (جس میں انتخابات میں کامیابی کیلئے حملہ کرانے کا اعتراف کیا گیا) لیک ہونے کے بعد ہند کے اندر ہی سے ہزیمت اٹھانی پڑی۔ اس سے بھی بات نہ بنی تو ’’کھسیانی بلی کھمبا نوچے‘‘ کے مصداق نفرت پر مبنی اور بے پر کی بڑھکیں مار کر خطے میں کشیدگی پیدا کی اور کشمیر سمیت پاک ہندسرحد پر عالمی قوانین کی دھجیاں اڑانا شروع کردیں۔ اس کے علاوہ خود کو اپنی ہی فوج کا دشمن ثابت کرتے ہوئے اسے جذبات میں لاکر پاکستان کیخلاف کارروائی پر اُکسایا۔ وہ ہندوستانی فوج جسے اپنی جان پیاری ہے، اُس پاکستانی فوج کے مقابلے پر آنے کو تیار ہوگئی کہ جسے ہر لمحہ اپنے وطن کے دفاع میں شہادت کی آرزو ہے۔ اس کا نتیجہ بھی دنیا نے دیکھ لیا۔ اسی دوران پاکستانی طیارہ مار گرانے کا دعویٰ کیا گیا تاہم اسے بھی ثابت کرنے میں ناکام ہونے کے باعث ہندوستانی فوج اور حکومت کو جس بدنامی کا سامنا کرنا پڑا، اس کی علامات عالمی میڈیا پر  واضح ہیں۔پاک فضائیہ کے شاہینوں کی جانب سے ہندوستانی طیارے مار گرائے جانے کے بعد گرفتار کیے گئے ایک فوجی کے ساتھ اچھا سلوک کرنے اور بعد ازاں اُسے رہا کرکے خود کو امن دوست ملک ثابت کرنے کے باوجود پاکستان کی خیر سگالی اور امن دوستی ہند کو ایک آنکھ نہیں بھا رہی کیونکہ پاکستانی وزیر اعظم کے اس اقدام کے بعد پوری دنیا پر واضح ہو چکا ہے کون خطے میں امن کا خواہاں ہے اور کس پر جنگی جنون سوار ہے۔ مودی سرکار اب مزید دنیا کی آنکھوں میں دھول نہیں جھونک سکتی مگر کیا کرے کہ عادت سے مجبور ہے تاہم بھارتی عوام کسی حد تک حقیقت پسند ثابت ہوئے اور انہوں نے اسی دوران ’’گو بیک مودی‘‘ کا ہیش ٹیگ استعمال کیا جو کہ دیکھتے ہی دیکھتے ٹاپ ٹرینڈ بن گیا اور ہر جانب سے آوازیں آنے لگیں کہ انہیں نریندر مودی وزیر اعظم کے طور پر قبول نہیں۔ ہندوستانیوں نے تنقید کرتے ہوئے کہا کہ جب پلوامہ میں حملہ ہوا تب بھی مودی الیکشن مہم میں مصروف تھے اور جب ابھی نندن کو پاکستان میں گرفتار کیا گیا تب بھی وزیر اعظم کو انتخابات ہی کی فکر تھی۔ ہندوستانی شہریوں نے انہیں اقتدار کے لیے نااہل قرار دیا جبکہ پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے ابھی نندن کو رہا کرنے کے اعلان کا خیر مقدم کرتے ہوئے فیصلے کی تعریف کی۔ابھی نندن کی رہائی کے بعد سے تادم تحریر خطے میں کشیدگی برقرار تھی اور ہندوستانی میڈیا اپنا روایتی کردار ادا کرتے ہوئے مسلسل زہر اگل رہا تھا کہ جبکہ بی جے پی اور اس کے رہنماؤں کی جانب سے زہرآلود بیانات داغے جا رہے تھے۔ اسی دوران مودی جی نے ایک اور بڑھک مار دی کہ ہمارے پاس رافیل طیارے ہوتے تو نتائج کچھ اور ہوتے لیکن سیاست کی وجہ سے ملک کا نقصان ہوا۔ ہند کے اندر ہی سے مودی حکومت اور حکمراں جماعت کے کرتوت فاش ہونے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے نئی دلی میں خطاب کرتے ہوئے نریندر مودی نے کہا کہ مجھے دکھ ہوتا ہے جب اپنے ہی لوگ ہماری فوج کا مذاق اڑاتے ہیں، کیا آپ لوگوں کو ہماری فوج کی باتوں پر یقین نہیں؟ ہند کو کمزور کرنا بند کردیں۔ ہندوستانی وزیر اعظم نے اپنی فضائیہ کی کمزوری اور ملکی نقصان کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ آج رافیل طیاروں کی کمی ہند نے محسوس کی۔ اگر رافیل طیارے ہوتے تو نتائج کچھ اور ہوتے۔ اس بیان کے بعد کاش کوئی نریندر مودی کو بتا دے کہ ہندوستانی فوج کو کشیدگی پھیلانے پر اُکسانے اور مذاق اڑانے سے لے کر ناکامی کی سیاہی سے داغدار ہونے کے ذمہ دار وہ خود ہیں ۔
مزید پڑھیں:- - - - پاک ہند کشیدگی ، سفارتی محاذ پر بھی کامیابی کی ضرورت

شیئر: