Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

فیاض الحسن چوہان کے متنازع بیانات اور معذرتیں

اگرچہ پاکستان تحریک انصاف کے مرکزی اور صوبائی حکومتوں میں کئی سینئیر عہدیدار ایسے ہیں جنہیں محاورے کی زبان میںعقاب کا درجہ حاصل ہے لیکن صوبہ پنجاب کے وزیر اطلاعات وثقافت فیاض الحسن چوہان ان چنیدہ حکومتی اراکین میں سے ہیں جو کہ اپنے سخت اور 'متنازع بیانات کی وجہ سے اکثر خبروں کی زینت بنے رہتے ہیں۔
. pic.twitter.com/h8rbpVcjLr
حال ہی میں فیاض الحسن چوہان کی جانب سے انڈیا پاکستان کشیدگی کے تناظر میں ہندو مذہب کے پیروکاروں کے خلاف دیے گئے بیان پر سوشل میڈیا میں ایک ہنگامہ کھڑا ہوگیا اور سوشل میڈیا کے صارفین کی بہت بڑی تعداد وزیر اطلاعات و ثقافت کو عہدے سے ہٹانے کا مطالبہ کر رہی ہے۔
شدید عوامی ردعمل اور تحریک انصاف کی جانب کارروائی کرنے کے اعلان کے بعد منگل کی صبح فیاض الحسن چوہان نے  ہندو برادری سے متعلق بیان کی وضاحت کی اور اس پر معذرت کی۔
فیاض الحسن چوہان نے کہا کہ ان کے مخاطب پاکستان میں موجود ہندو برادری نہیں بلکہ نریندر مودی، انڈین افواج اور انڈین میڈیا تھے۔ صوبائی وزیر نے کہا کہ ان کے ریمارکس سے پاکستان میں موجود ہندو برادری کی دل آزاری ہوئی تو وہ اس کے لیے معذرت خواہ ہیں۔ 
فیاض الحسن چوہان کے بیان پر ردعمل خاصا شدید تھا کہ حکومتی وزرا اور پاکستان تحریک انصاف کے سرکردہ رہنما بھی پنجاب کے وزیر اطلاعات کی کھلے الفاظ میں مذمت کرتے نظر آئے ہیں۔
پیر کی رات کو وزیراعظم کے معاون خصوصی نعیم الحق نے مائیکرو بلاگنگ کی سائٹ ٹوئٹر پر ایک بیان میں فیاض الحسن چوہان چوہان کے بیان کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان تحریک انصاف کسی سینیئر ممبر سے اس قسم کے احمقانہ بیان کو برداشت نہیں کرے گی اور وزیر اعلیٰ پنجاب سے مشاورت کے بعد فیاض الحسن چوہان کے خلاف ایکشن لیا جائے گا۔
پیر کو لاہور میں ایک تقریب سے خطاب کے دوران فیاض الحسن چوہان نے انڈین وزیراعظم نریندر مودی کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا تھا اور اس دوران انہوں نے ہندو برادری کے خلاف بھی توہین آمیز جملہ کہا تھا۔پاکستان میں اس وقت  ’ہندو‘ اور ’فیاض الحسن کو ہٹاؤ‘ کے ٹرینڈز سر فہرست ہیں۔
سب سے پہلے 
پاکستان کے ہندو برادری سے تعلق رکھنے والے کیپل دیو نامی ایک صارف نے فیاض الحسن چوہان کا متنازع کلپ ٹویٹر پر شیئر کرکے لکھا: یہ ہے وہ صلہ جو ملک کے لیے ہماری محبت اور ہماری حب الوطنی کے جواب میں ہمیں دیا جاتا ہے (انہوں نے چوہان کے قابل اعتراض الفاظ نقل کیے)۔ ان کو یہ احساس ہی نہیں کہ 40 لاکھ ہندو پاکستان میں رہتے ہیں اور یہاں تک کہ ان کی پارٹی کے ہندو ممبر پارلیمنٹ بھی موجود ہیں۔‘خیال رہے کہ پاکستان میں ہندو برادری سب سے بڑی مذہبی اقلیت ہیں۔
ہندو برادری کے خلاف فیاض الحسن چوہان کے بیان کی نہ صرف پی ٹی آئی کی اعلی قیادت کے شدید مذمت کی بلکہ دفتر خارجہ کے ترجمان نے بھی  ایک بیان میں ہندو برادری کی خدمات کو سراہا۔
ترجمان دفتر خارجہ ڈاکٹر محمد فیصل نے ٹویٹ کیا کہ ’پاکستان فخریہ طور پر اپنے جھنڈے کے سفید حصے کو اتنا ہی اپنا سمجھتا ہے جتنا سبز کو اور ہندوؤں کی خدمات کی قدر کرتا ہے اور انہیں اپنا سمجھتا ہے۔‘
وفاقی وزرا اسد عمر، شیرین مزاری، پنجاب کے وزیر اعلی عثمان بزدار اور خیبر پختونخوا کے وزیر خزانہ تیمور خان سمیتحکومتی ارکان نے چوہان کے بیان کی مذمت کی ہے۔
ایسا پہلی بار نہیں ہوا کہ فیاض الحسن چوہان کسی متنازع بیان کی وجہ سے خبروں میں آئے ہوں، وہ ماضی میں بھی اپنے بیانات کی وجہ سے تنقید کی زد میں رہے ہیں۔
گزشتہ سال پنجاب کے وزیر طلاعات اور ثقافت مقرر ہونے کے بعد انہوں نے کہا ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ 'تھیٹر میرے انڈر ہوتا تو پھر میں نرگس اور میگھا کو حاجی نرگس  نہ بناتا تو پھر آپ کہتے۔ ‘‘
اس بیان پر اداکارہ نرگس سمیت فنکاروں اور سوشل میڈیا صارفین نے شدیدردعمل دیا تو فیاض الحسن چوہان کو معافی مانگنا پڑا۔
گزشتہ سال اگست میں ایک نجی ٹی وی کے پروگرام کے دوران فیاض الحسن نے میزبان کے خلاف بھی نازیبا الفاظ استعمال کیا تھا اور گالی دی تھی۔ نجی ٹی وی کے پروگرام کے دوران میزبان کی جانب سے ان کے پرانے کلپس چلانے پر چوہان میڈیا پر برہم ہوگئے تھے۔
فیاض الحسن چوہان نے جب سیاسی مخالفین کو نامناسب القابات سے نوازنے لگے تو میزبان نے انہیں ٹوکا تو انٹرویو ادھورا چھوڑ دیا۔ یہی نہیں فیاض الحسن چوہان مائیک نکالتے ہوئے گالیاں دیتے رہے جس کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی تھی تاہم بعد میں اس پر بھی انہوں نے معذرت کر لی تھی۔
اسی طرح گزشتہ سال ہی اکتوبر میں فیاض الحسن چوہان نے شریف خاندان پر تنقید کرتے ہوئے ان کے کشمیری پس منظر پر ’کشمیری‘
کا لفظ طنزیہ لہجے میں استعمال کیا تھا جس کے بعد لائن آفکنٹرول (ایل او سی) کے دونوں اطراف بسنے والے کشمیریوں نے اس بیان کی سخت مذمت کی تھی۔
شدید تنقید پر حکومتی وزرا نے بھی فیاض الحسن چوہان کے بیان کی مذمت کی تھی اور انھوں نے خود بھی کشمیریوں سے معافی مانگ لی تھی۔
صوبائی وزیر فیاض الحسن چوہان کئی مرتبہ صحافیوں سے بھی الجھے اوران کے لیے قابل اعتراض زبان استعمال کی۔ 
اس سال جنوری میں لاہور میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے ایک صحافی کے سوال پوچھنے پروہ ان پر برس پڑے اور کہا تھا کہ ’آپ کو شرم آنی چاہیے۔‘‘
اس رویے پر صحافیوں نے کئی دن بائیکاٹ کیا جس  کے بعد فیاض الحسن چوہان نے معافی مانگ لی۔

شیئر: