Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

عدالت نہیں انصاف چاہئے

وسعت اللہ خان

عظیم شیکسپئر کے عظیم کھیل ہیملٹ کی ایک لائن ہے۔ ریاستِ ڈنمارک میں کچھ نہ کچھ ضرور گل سڑ رہا ہے ۔
اور اگر کسی ریاست میں انصاف ہی متعفن ہو جائے تو پھر ریاست کا وجود ہی سوالیہ نشان بن جاتا ہے ؟ انصاف کو اگر طاقت کا اتحادی ہی بننا ہے تو پھر جنگل کیا برا ہے ؟ کم ازکم وہاں فطرت کی عدالت دائمی عدالت تو ہر لمحہ فعال ہے ۔
آپ کو ڈیڑھ 2 برس پہلے کا 10 سالہ گھریلو ملازمہ طیبہ کا کیس شاید یاد ہو؟ ایک ایڈیشنل سیشن جج راجہ خرم علی خان اور ان کی اہلیہ پر تشدد کا کیس ۔جب طیبہ کے والد محمد اعظم نے اپنی بیٹی پر تشدد کے تمام جسمانی و طبی ثبوت ہوتے ہوئے دونوں ملزموں کو ایک زیریں عدالت کے روبرو پہلی بار معاف کیا تو آنر ایبل سپریم کورٹ نے ازخود محسوس کیا کہ ریاستِ ڈنمارک میں کچھ نہ کچھ گل سڑ رہا ہے ۔ اعظم علی اپنے پچھلے بیان سے مکر گیا اور سپریم کورٹ کے روبرو کہا کہ اس نے ملزموں کو دراصل دبائو پڑنے پر معاف کیا ہے ۔عدالت نے اسلام آباد پولیس کو دوبارہ تفتیش کا حکم دیا ۔رپورٹ میں تصدیق کی گئی کہ طیبہ کے جسم پر تشدد کے 22 نشانات ہیں اور یہ نشانات حادثاتی نہیں ہیں۔ مقدمہ ایک بار پھر زیریں عدالت میں آیا اور اعظم علی ایک بار پھر اپنے سپریم کورٹ میں دئیے گئے بیان سے بھی مکر گیا اور نئے بیان میں کہا کہ ملزم خرم علی خان اور ان کی اہلیہ قصور وار نہیں ۔اصل ملزم تو کوئی اور ہے جس کے خلاف پرچہ کٹوا دیا گیا ہے اور وہ راجہ صاحب اور ان کی اہلیہ کو معاف کرتا ہے۔چنانچہ زیریں عدالت نے اعظم علی کے اس بیان کو با ہوش و حواس تسلیم کرتے ہوئے ملزموں کو 30 ہزار روپے کے ضمانتی مچلکے پر رہا کردیا۔ کیا کسی نے سنا ہے کہ بے قصور کو بھی معافی کی ضرورت ہو ؟ اور یہ ہر بار کوئی غریب اور بے بس ہی کیوں طاقتور کو معاف کرتا ہے ؟ ریاستِ ڈنمارک میں کچھ نہ کچھ تو یقینا گل سڑ رہا ہے ۔اگر ایسا نہ ہوتا تو اس مقدمے میں سپریم کورٹ کو ازخود نوٹس لے کر ملزموں کو سزا نہ سنانی پڑتی۔یعنی نظام اس قدر فرسودہ ہو چکا ہے کہ جو مقدمات زیریں عدالتوں میں ہی طے ہو جانے چاہئیں ان کی شنوائی بھی سپریم کورٹ کو کرنا پڑ رہی ہے۔یعنی عام آدمی کا عدالتِ عظمیٰ کے سوا ہر عدالت سے اعتماد اٹھ چکا ہے۔
پچھلے چند برسوں کے دوران  ایسے مقدمات سامنے آ رہے ہیں کہ سن کے طبیعت جھک ہو گئی۔ 2 بھائیوں غلام قادر اور غلام رسول کا کیس بھی شائد آپ کو یاد ہو جنہیں اکتوبر 2016 میں سپریم کورٹ نے بری کردیامگر کورٹ کو کسی نے نہیں بتایا کہ انہیں تو اکتوبر2015 میں بہاولپور جیل میں پھانسی دی جا چکی ہے۔ملزم مظہر حسین کو 19 برس بعد بری کر دیا گیا ۔اس پر اسلام آباد میں ایک شخص کو قتل کرنے کا الزام تھامگر کورٹ کو کسی نے نہیں بتایا کہ مظہر حسین تو بری ہونے سے 2برس پہلے ہی جیل میں دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کر چکا ہے۔قصور کے مظہر کو 24برس جیل میں رکھنے کے بعد بے گناہ قرار دے دیا گیا ۔اس پر بھی قتل کا الزام تھا۔
میں نے جسٹس ریٹائرڈ طارق محمود سے پوچھا بے سہارا ملزموں کو اپنے دفاع کیلئے جو سرکاری وکیل فراہم کیا جاتا ہے وہ اپنے کیس میں کتنی دلچسپی لیتا ہے ؟ جسٹس صاحب نے بتایا کہ یہ ضروری نہیں تصور کیا جاتا کہ وہ اپنے موکل سے ایک بار بھی ملے ۔
اب آپ قیامت تک بحث کرتے رہئے کہ قصور پراسکیوشن کا ہے کہ عدالت کا ، جج کم ہیں یا کام کا بوجھ بے پناہ ، سہولتیں کم ہیں یا انصاف کی طلب زیادہ ؟ اس بحث سے انصاف کے بھوکے عام آدمی کا کیا لینا دینا ۔
شائد انہی حالات کو دیکھتے ہوئے عدلیہ کا بوجھ بٹانے کیلئے انسدادِ دہشت گردی کی خصوصی عدالتوں کے ساتھ ساتھ  فوجی عدالتیں بھی اس یقین دہانی کے ساتھ قائم کی گئیں کہ اس عرصے میں عدلیہ کو اصلاحات کے عمل سے گزارا جائے گا تاکہ بروقت ، سقم سے پاک تیز رفتار انصاف کی فراہمی کا خواب تعبیر میں ڈھل سکے۔مگر کیا ہوا ؟ اصلاحات آج بھی ہونے کی منتظر ہیں۔
 عدلیہ میں تو خیر کیا اصلاحات آتیں الٹا 2 برس قبل قومی اسمبلی نے تنازعات کے متبادل حل کے ڈھانچے کا قانون بنا ڈالا ۔اس کے تحت تجویز کیا گیا کہ اعلی عدالتی نگرانی میں ضلعی سطح پر باضابطہ جرگے اور پنچائتیں قائم ہوں جنہیں گھریلو ، املاکی اور مالی تنازعات سمیت 23اقسام کے جھگڑوں کی ثالثی کا اختیار حاصل ہو۔ان جرگوں یا پنچایتوں میں ہائی کورٹس کی منظوری سے وکلا، ریٹائرڈ ججوں ، سابق بیورو کریٹس ، علما اور سوشل ورکرز وغیرہ کو نامزد کیا جائے تاکہ جن چھوٹے چھوٹے تنازعات کے فیصلوں میں زیریں و اعلی عدالتوں کا قیمتی وقت خواہ مخواہ برباد ہوتا ہے اسے اہم مقدمات میں لگایا جائے اور انفرادی نوعیت کے تنازعات غیر رسمی طور پر فریقین کی رضامندی سے نیچے ہی نمٹ جائیں۔
 نیت تو اچھی تھی مگر کیا سپریم کورٹ نے کئی برس پہلے ان روایتی جرگوں کو غیر قانونی قرار نہیں دے دیا تھا ؟ کیا سپریم کورٹ کے اس حکم کی کسی نے تعمیل کی ، تعمیل چھوڑ ان جرگوں کی روایتی قوتِ نافذہ میں کوئی کمی آئی ؟ کیا ان جرگوں میں بیٹھنے والے وہی نہیں جو بار بار قومی و صوبائی اسمبلیوں میں منتخب ہو کر انصاف کے غیر معیاری ہونے کا رونا بھی روتے ہیں اور پھر ہمارے نام پر قانون سازی بھی کرتے ہیں اور پولیس کو بھی اشاروں پر نچواتے ہیں ؟ انصاف کے پر ہجوم بازار میں نئے رسمی جرگے اور پنچایتیں بھی بنانے سے شاید عدالتی نظام اور وسیع ہو جائے مگر قانون سازی و عدالت سازی کا قانون پر عمل درآمد سے کیا تعلق ہے ؟ کوئی تو سمجھائے ؟
 

شیئر: