Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’’معراج شریف کے روزے ‘‘ اور ’’صلاۃ الرغائب‘‘ کی حقیقت

محققین علماء نے صلوٰۃ الرغائب کو غیر مستحب بلکہ مکروہ و منکر اور بدعت قرار دیاہے
محمد منیر قمر۔الخبر

س:رجب کے مہینے میں ہمارے ملک میں لوگ معراج شریف کی یاد منانے کیلئے روزہ رکھتے ہیں جبکہ بعض لوگ اس ماہ میں دیگر چند اور ناموں سے بھی کچھ ایام کے روزے رکھتے ہیں۔سوال یہ ہے کہ کیا رجب میں یہ روزے مسنون ہیں؟
    ج:اگر اسلام کے اصولی اموراور احکامات کو پیش نظر رکھ کراپنے گرد و پیش کا جائزہ لیں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ سینکڑوں ایسے اعمال ہیں جنہیں اسلا م کے نام لیواؤں نے دین کا حصہ بنا رکھا ہے حالانکہ کتاب و سنت ، تعامل ِ صحابہ ؓ  اور علمائے امت سے ان کا ثبوت نہیں ملتا۔ان خود ساختہ عبادات میں ماہ  رجب کے  روزے بھی شامل ہیں۔ ان خود ساختہ روزوں میں کسی کو ’’معراج شریف ‘‘کا  روزہ کہا جاتا ہے، کسی کو’’ مریم روزہ‘‘ کا  نام دیتے ہیں ، کسی کو’’ ہزاری روزہ‘‘ اور کسی کو’’ لکھی روزہ‘‘ کہا جاتا ہے حالانکہ یہ  روزے نہ  تو نبی نے خود رکھے اور نہ ہی  ان کا حکم فرمایا  یا  ترغیب دلائی بلکہ اِس کے بر عکس ایک ضعیف سند والی  روایت میںہے کہ’’نبی نے رجب کے روزے رکھنے سے منع فرمایاہے ‘‘(سنن ابن ماجہ )نبی   کی طرف منسوب اس روایت کی سند  تو ضعیف ہے لیکن مصنف ابن ابی شیبہ میں ایک صحیح روایت ہے جس سے مذکورہ  حدیث کے مفہوم کی تائید ہوتی ہے کہ حضرت عمرفاروق  ؓ اگر  ماہ ِ رجب میں لوگوں کو  روزہ رکھتے ہوئے دیکھتے تو ان کے سامنے کھانے کا برتن رکھ کر اُن کے ہاتھوں پر اپنے کوڑے سے چوٹیں مارتے اور  فرمایا کرتے تھے ’’کھاؤ ،اس مہینے کی ایسی تعظیم  تو جاہلیت کا شیوہ ہے ‘‘ ( ارواء الغلیل) ظاہر ہے کہ حضرتِ  عمرفاروقؓ ان خود ساختہ یا عہد ِ جاہلیت کی یاد  تازہ کرنے والے روزوں کی ممانعت فرمارہے ہیں ورنہ اگر کوئی شخص ہر دوسرے دن کا  روزہ رکھنے  والوں میں سے ہو ، جسے ’’صوم داؤدی‘‘ کہا جاتا ہے  تو وہ حسب ِ عادت روزہ رکھ سکتا ہے۔ایسے ہی سال بھر ایام بیض یعنی چاند کی 13، 14اور15 تاریخ کے روزے  رکھنے والا شخص بھی یہ  روزے رکھ سکتا ہے کیونکہ یہ  روزے مسنون ہیںاور ہر ہفتہ میں  پیر اور جمعرات کے دو  روزے بھی نبی   کا معمول تھے۔  ان کے علاوہ اگر کوئی شخص اپنی طرف سے یا ’’بزرگوں نے فرمایا ‘‘ جیسی سند سے بیان کردہ  روزے رکھتا ہے تو وہ  بدعات میں شمار ہونگے ۔ان کا  نام’’ لکھی ‘‘رکھیں یا ’’ہزاری‘‘اور انہیں ’’مریم روزہ‘‘ کا نام دیں یا ’’معراج کا روزہ‘‘ کہیں ،نبی ،خلفائے راشدینؓ و صحابہ کرامؓ،ائمہ اربعہؒ  اور  علمائے دین سے یہ ہرگز ثابت نہیں۔
    س:بعض لوگ ماہ ِ رجب کی پہلی جمعرات اور جمعہ کی درمیانی شام مغرب وعشاء کے ما بین 12رکعتوں پر مشتمل نماز پڑھتے ہیں جس میں ہر دو رکعتوں کے بعد سلام پھیرا جاتا ہے ،ہر رکعت میں ایک دفعہ سورۂ فاتحہ ،3 دفعہ سورہ قدر اور 12مرتبہ سورہ اخلاص پڑھی جاتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ نماز سے فارغ ہوکر 70 مرتبہ درود شریف پڑھیں اور پھر سجدہ میں گِر کر70 مرتبہ (سُبُّوْحٌ قُدُّوْسٌ رَبُّ الْمَلَائِکَۃِ وَ الرُّوْحِ)،پھر سجدہ سے سر اُٹھا کر70 مرتبہ (رَبِّ اغْفِرْ وَارْحَمْ وَتَجَاوَزْ عَمَّا تَعْلَمْ اِنَّکَ أَنْتَ الْأَعَزُّالْأَکْرَمُ) اور پھردوسرے سجدہ میں بھی پہلے کی طرح ہی کریں ۔اس نماز کی کیا حقیقت ہے؟
    ج:اس خود ساختہ نماز کو ’’صلاۃ الرغائب ‘‘ کہا جاتا ہے اور کئی موضوع و من گھڑت روایتیں بیان کر کے اس نماز کی فضیلتوں کے پل باندھے جاتے ہیں جنہیں سن کر علم دین سے بے بہرہ اور اصلی و نقلی کی پہچان سے لا پروا لوگ حصول ِ ثواب کے لئے کشاں کشاں چلے آتے ہیں حالانکہ البدایہ و النہایہ میں معروف مفسرو محدث امام ابن کثیر ؒ کے بقول یہ نماز قطعاً بے ثبوت ہے۔ علامہ عراقی نے احیاء علوم الدین للغزالی کی تخریج میں مذکورہ نماز والی حدیث کو موضوع یعنی من گھڑت قرار دیا ہے۔شیخ الاسلام ابن تیمیہ ؒ اس نماز کے بارے میں فرماتے ہیں کہ’’نبی اکرم ، صحابہ کرام ؓ، تابعین ،ائمہ دین اورعلماء سلف رحمہم اللہ میں سے کسی سے بھی اس نماز کا ثبوت نہیں ملتااور نہ خاص ماہ ِ رجب کی پہلی جمعرات وجمعہ کی درمیانی شب کی فضیلت کسی حدیث ِ صحیح میں وارد ہوئی ہے اور اس کے بارے میں جو ایک روایت بیان کی جاتی ہے، وہ علم حدیث کی معرفت رکھنے والے علماء و محدثینِ کرام کے نزدیک جھوٹی اور من گھڑت ہے ( الابداع )
     اِس صلوٰۃ الرغائب کے بارے میں دیگر فقہی مکاتب ِ فکر اور محدثین و مجتہدین کی طرح حنفی مکتب ِ فکر سے تعلق رکھنے والے علماء بھی خوش فہم نہیںبلکہ  فقہ حنفیہ کی کتب میں بھی کھل کر اسے جعلی و من گھڑت اور بدعت قرار دیاگیا ہے چنانچہ حاشیہ الاشباہ للحموی سے نقل کرتے ہوئے معروف و متداول کتاب ردّ المحتار حاشیہ درِّ مختار کی جلد اول ص544 پر صلوٰۃ الرغائب کے بارے میں لکھا ہے ’’یہ نماز 480ھ کے بعد ایجاد  ہوئی اور علماء نے اس کے انکار و مذمت اور  اسے ادا کرنے والوں کے احمق پن پرکئی کتابیں لکھی ہیں۔ کثیر شہروں میں اسے ادا کرنے والوں کی کثرت سے دھوکہ نہ کھایا جائے ‘‘اور آگے چل کر ص660 پر لکھا ہے ’’ اور اسی لئے اہل ِ علم نے اس نماز ’’ صلوٰۃ الرغائب ‘‘ کے لئے جمع ہونے سے منع کیا ہے جسے بعض جاہل عابدوں نے ایجاد کیا ہے کیونکہ اس مذکورہ کیفیت کے ساتھ مخصوص راتوں میں ایسی کوئی نماز ماثور یا ثابت نہیںاگرچہ بذاتہ  نماز تو اچھا عمل ہے ‘‘ علاوہ ازیں بعض دیگر مکاتب ِ فکر سے تعلق رکھنے  والے  علماء کے  اقوال و ارشادات سے بھی مذکورہ نماز کے بے اصل ہونے کا پتہ چلتا ہے ، مثلاً : حافظ ابن الجزری ؒ نے ’’ الحصن الحصین ‘‘ میں اس نماز والی روایت کے بارے میں کہا ہے ’’یہ صحیح نہیں اور  اس کی  سندمن گھڑت اور باطل ہے ‘‘ شارح مسلم امام نووی ؒ اپنی ایک دوسری کتاب ’’ المجموع شرح المہذب ‘‘ میں فرماتے ہیں ’’صلوٰۃالــرغائب کے نام سے معروف نماز جو ماہِ رجب کے پہلے جمعہ کی رات کو  مغرب و عشاء کے مابین12 رکعتیں پڑھی جاتی ہیں اور15شعبان کی رات کو  100 رکعتوں پر مشتمل ایک نماز پڑھی جاتی ہے۔ یہ دونوں نمازیں منکر ترین بدعت ہیںاور کتاب ’’ قوت القلوب ‘‘ اور ’’احیاء علوم الدین ‘‘ میں ان نمازوں کے مذکورہ ہونے سے دھوکہ نہیں کھانا چاہئے۔
    ان نماز وں کے بارے میں بیان کی جانے والی احادیث سے بھی دھوکہ نہیںکھانا چاہئے، یہ سب باطل ہیں اور ائمہ علم میں سے ایک صاحب پر ان نمازوں کی شرعی حیثیت مشتبہ ہوگئی اور انہوں نے چند اوراق پر مشتمل ایک رسالہ بھی لکھ مارا اور  اُس میں  ان نمازوں کا  استحباب ذکر کردیا ۔
     اُس رسالہ سے بھی دھوکہ نہ کھایا جائے ۔ اس میں انہوں نے مغالطہ سے کام لیا ہے اور شیخ الاسلام ابو محمد عبد الرحمن بن اسماعیل المقدسی نے ان کے ردّ میں ایک نفیس کتاب لکھی ہے جس میں بڑے عمدہ طریقے سے ان کا بطلان ثابت کیا ہے ‘‘(المجموع شرح المہذب )
     اسی خود ساختہ نماز کے بارے میں امام طرطوشی نے امام المقدسی سے بیان کرتے ہوئے لکھاہے’’ہمارے یہاں بیت المقدس میں یہ نماز ’’صلوٰۃ الرغائب ‘‘ نہیں پڑھی جاتی تھی جو کہ  رجب میں پڑھی جاتی ہے اور  نہ ہی 15 شعبان کی نماز مروّج تھی اور یہ شعبان والی نماز تو 448ھ میں ایجاد ہوئی ہے ‘‘( بحوالہ الابداع ) ایسے ہی کئی دیگر محققین علماء نے اس صلوٰۃ الرغائب کو غیر مستحب بلکہ مکروہ  و منکر بدعت قرار دیاہے ۔
 

شیئر: