پیر 11مارچ 2019 ءکو سعودی عرب سے شائع ہونے والے اخبار ” الریاض “ کا اداریہ نذر قارئین ہے
فکر اور کردار کے حوالے سے شخصیت سازی نئی نسل کی تیاری میں بیحد اہمیت رکھتی ہے۔ جدید علوم و معارف کی ہمرکابی کیلئے یہ انتہائی اہم ہے۔ اس کا تقاضا ہے کہ نئی نسل کو رنگا رنگ ثقافت ، معرفت اور فکر و نظر سے آراستہ کیا جائے۔ معلومات اور اقدار کی یلغار کے ماحول میں نئی نسل کو مثبت شکل میں آگے بڑھنے کی تحریک دینے کیلئے یہ سب کچھ ناگزیر ہے۔بین الاقوامیت کا غلبہ مختلف شکلوں میں ابھر رہا ہے۔ اقتصادی حکمت عملی ہو ، نئی منڈیوں کے دروازے کھولنے کی کوشش ہو، اجارہ داری کی شدت کا زور توڑنا ہو یا سیاسی یا ثقافتی دھارے کا رخ موڑنا ہو، ان سارے کامو ںکیلئے نوجوانوں کو مخصوص طرز حیات اور مخصوص طرز فکر سے آراستہ کرنا ہوگا۔ انہیں اقدار اور پاکیزہ کردار اپنانے کا حوصلہ دینا ہوگا۔ کہہ سکتے ہیں کہ ہمیں نازک حکمت عملی اپنا کر نئی نسل کو اپنانے کی جدوجہد کرنی پڑیگی۔
چونکہ ان دنوں ہم اہم ثقافتی سرگرمیوں کے ماحول میں زندگی گزاررہے ہیں۔ یہ بھی درست ہے کہ سماجی اور ثقافتی حلقوں میں خوشی کا ماحول بنا ہوا ہے۔ یہ بھی درست ہے کہ کتابوںکا بین الاقوامی میلہ ریاض میں بہت جلد شروع ہونے جارہا ہے۔ یہ ثقافتی جشن ایسا ہے جس کا انتظار ہر کس و ناکس کو ہے۔ ریاض میں منعقد ہونے والے نئے بین الاقوامی کتب میلے کی قدرو قیمت سالہا سال بڑھتی چلی جارہی ہے۔ اسکا دائرہ صرف کتابوں کی نمائش تک محدود نہیں بلکہ اسکے پہلو بہ پہلو تخلیق کاروں کا اعزاز بھی ہوگا۔ فلموں کے پروگرام بھی ہونگے۔ سیمینار، لیکچرز جیسی روایتی تقریبات بھی منعقد ہونگی۔ اہم بات یہ ہے کہ ثقافتی سرگرمیوں کا دائرہ سوچے سمجھے انداز میں پھیلتا چلا جارہا ہے۔ مستقبل کی طرف آنکھیں لگی ہوئی ہیں۔ مستقبل کے حوالے سے محض یہ سوچ لینا کافی نہیں کہ وہ آنے والا ہے بلکہ اس میں وطن اور اہل وطن کےلئے مفید متوازن افکار کے ذریعے موثر شرکت بھی ضروری ہے۔