Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

میرے شوہر بہترین دوست ہی نہیں، غمخوار بھی ہیں، رومانہ محمود

عنبرین فیض احمد ۔ ینبع
    عورت کائنات کی سب سے حسین تخلیق ہے جس کے بغیر کائنات کا حسن مانند ہی نہیں پڑتا بلکہ اس کے وجود کے بنا کائنات ہی نامکمل ہے۔ عورت کے بغیر تو کائنات کی رنگینی ماند پڑ جاتی ہے۔ اس کے بغیر یہ کائنات ادھوری ہے۔ اس لئے یوں دیکھا جائے تو عورت کا ہر روپ ہی مکمل ہے۔ اس کا سب سے پیارا اور حسین روپ بیٹی کا ہوتا ہے جس کی چہکار سے گھر کے در و دیوار بھی چہکنے لگتے ہیں۔ عورت کا یہ روپ رحمت ہے ، پھر ماں ہو، بہن ہو یا مہربان بیوی ہو،جذبہ ایثار و قربانی سے معمور عورت کا ہر روپ ہی بے مثال ہے۔ وہ جس روپ میں بھی ہوتی ہے ،اپنا سب کچھ گھر والوں کیلئے قربان کردیتی ہے۔ عورت اس ہستی کا نام ہے جس کے بغیر زندگی کا وجود ہی ممکن نہیں ہوسکتا۔ اسکی صلاحیت، اہلیت و قابلیت کے اعتبار سے کوئی اس کا ثانی نہیں۔ ہر روپ میں رونق حیات کا سہرا اسی کے سر جاتا ہے۔ عورت ہر روپ اور ہر رشتے میں عزت اور وقار کی علامت ، وفاداری اور ایثار کا پیکر سمجھی جاتی ہے۔
     انسان کسی بھی منصب اور حیثیت کا حامل کیوں نہ ہوجائے ،زندگی کے سفر میں کسی نہ کسی موڑ پر عورت کا مرہون منت ضرور نظر آتا ہے۔ ویسے بھی عورت، ماں، بہن ، بیٹی اور بیوی ہر روپ میں قدر ت کا انمول تحفہ ہے ۔اگر ہم بغور جائزہ لیں تو ہمیں اندازہ ہوگاکہ ہماری گھریلو زندگی ہو یا میدان عمل،ہر قدم پر ہمیں عورت ہی اہم کردار ادا کرتی دکھائی دیتی ہے۔اسی لئے علامہ ا قبال نے کہا ہے کہ :
وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ
اسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوز دروں
     اللہ تعالیٰ نے بنی نوع انساں کو ماں، بیٹی، بہن اور بیوی جیسے رشتوں سے نواز کر احسان فرمایا۔ اس ہستی نے کائنات میں رنگ بھردیئے۔ عورت کا ہر رشتہ احترام اور تقدس کا متقاضی ہے۔ رواں ہفتے ہوا کے دوش پر اردونیوز کی مہمان ایک ایسی خاتون ہیں جو ہمہ جہت شخصیت کی مالک ہیں وہ نہ صرف ملازمت پیشہ ہیں بلکہ اپنے پیشے سے پوری طرح انصاف کرتی بھی دکھائی دیتی ہیں۔ ساتھ ہی وہ اپنی گھریلو ذمہ داریوں کو بھی بے حد خوش اسلوبی سے انجام دیتی ہیں۔
    رومانہ محمود آج کل درس تدریس کے شعبے سے منسلک ہیں اور ریاض کے ایک اسکول میں تدریس کے فرائض انجام دے رہی ہیں۔ آپ کی ملاقات ان سے کراتے ہیں ۔ انکی سحر انگیز شخصیت اور ان کی گفتگو کی مٹھاس سے اپنائیت کا گمان ہونے لگتا ہے۔محترمہ رومانہ محمود کہتی ہیںکہ میں نے عروس البلاد کراچی میں اس وقت آنکھ کھولی جب یہ روشنیوں کا شہر اور امن کا گہوارہ ہوا کرتاتھا۔ بچپن بہت مزے میں گزرا، کیونکہ کراچی میں ہی ہماری رہائش تھی اس لئے تعلیمی سفر کا آغاز بھی یہیں سے ہوا۔ اس سفر کا اختتام بھی اسی شہر میں کیا یعنی میں نے ابتدائی تعلیم سے لیکر گریجویشن تک کے مراحل کراچی میںہی طے کئے ۔ گریجویشن سینٹ پیٹرکس کالج کراچی سے کی۔ میں نے اپنی تعلیمی زندگی کو بھرپور انداز میں انجوائے کیا ۔ تعلیمی میدان میں بھی کافی ذہین طلباءمیں شمار کی جاتی تھی۔ اے ون رہی، خوب کامیابیاں سمیٹیں۔ مباحثوں، ڈراموں اور دیگر غیر نصابی سرگرمیوں میں بھی ہمیشہ سے ہی آگے رہی۔ غرض یہ کہ کالج کے فنکشنز میں نعت خوانی کرنا ہوتی یا گلوکاری کرنے کے لئے کہا جاتا، سب مقابلوں میں حصہ لینا میرے لئے ضروری ہوتا تھا۔ یہاں تک کہ میں نے کالج کے ڈراموں میں اداکاری بھی کی اور انعامات بھی حاصل کئے۔
    محترمہ رومانہ کہتی ہیں کہ زندگی تو نام ہی ہے جہد مسلسل کا ۔ہر فرد اپنی زندگی کے کینوس پر اپنی خواہشات کے مطابق رنگ بھرنے کی جستجو میں مصروف عمل رہتاہے ۔ زندگی نام ہے تگ و دو کا ۔میں نے اسی تگ و دو میں گریجویشن کرتے ہی کمپیوٹر کورسز بھی کئے۔ اپنی پہلی ملازمت بحیثیت کمپیوٹر ٹیچر ”پی اے ایف اسکول “ فیصل بیس سے شروع کی۔ یہ میری ملازمت کا پہلا تجربہ تھا جو نہایت ہی کامیاب رہا۔ ملازمت کے دوران جب کچھ اچھے لوگ مل جاتے ہیںتو یہ وقت بہت اچھا گزر جاتا ہے ۔ ان ہی میں سے ایک میری کالج فیلو اسماءرﺅف میرے ساتھ ہوتی تھیں جو میری بہترین سہیلی بھی ہیں اور جب آپ کی بہترین سہیلی آپ کی جاب پارٹنر بن جائے تو یقیناکام کا مزہ دوبالا ہوجاتا ہے۔ زندگی میں کچھ ایسے لوگوں سے بھی مڈ بھیڑ ہوجاتی ہے جو آپ کےلئے بے حد مخلص ہوتے ہیں اور ہر لمحہ آپ کے خیر خواہ رہتے ہیں۔ اس حوالے سے میں اپنے اسکول کے پرنسپل قاضی محمد سلیم کا تذکرہ کرنا چاہوں گی۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ جیسے انہوں نے ہمارے لئے اسکول میں آسانیاں فراہم کیں ،اللہ تعالیٰ آخرت میں ان کے لئے بھی آسانیاں پیدا فرمائے اور انکے درجات بلند فرمائے،آمین۔     کام کا ماحول جو میں نے وہاں دیکھا وہ آج تک مجھے یاد ہے۔ جب ملازمت کا ماحول اچھا ہو تو ملازمت کرنے کا مزہ بھی آتا ہے۔ اسی دوران میری شادی ہوگئی اور مجھے اپنی ملازمت کو خیر باد کہنا پڑا۔ میری شادی خالصتاً والدین کی پسند سے ہوئی۔ میرے شوہر سید محمود علی نے انجینیئرنگ اورقانون دونوں کی تعلیم حاصل کی ہے لیکن انجینیئرنگ کے شعبے کو بطور ملازمت اختیار کیا ۔وہ ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں کام کررہے ہیں۔ میرے شوہر میرے لئے ایک بہترین دوست کی حیثیت رکھتے ہیں ۔وہ نہ صرف میرے شوہر ہیںبلکہ یوں کہنا چاہئے کہ میرے غمخوار بھی ہیں۔ میرے خیال میں کسی بھی رشتے کی خوبصورتی اسی میں ہوتی ہے کہ اس رشتے کی نزاکت کو سمجھا جائے اور اس کوہر طور برداشت کیاجائے۔ انسان کی زندگی میں اچھا اور برا دونوں طرح کا وقت آتا ہے لیکن یہ آپ پر منحصر ہے کہ آپ اس وقت کو کیسے گزارتے ہیں۔ یہ ہوتی ہے اصل زندگی کہ اگر بندہ شکر گزاری اختیا ر کرے تو زندگی بہت آسان ہوجاتی ہے او رکسی بھی چیز میں کمی یا تنگی کا احساس نہیں ہوتا۔ زندگی کوئی پھولوں کی سیج نہیں اس میں کانٹے بھی ہوتے ہیں لہٰذا انسان کو صبر اور برداشت سے کام لینا چاہئے۔ میرے خیال میں صبر اور برداشت ہی ایسی کنجی ہے جو دوسروں کے دلوں کے بند تالے کھول کر اس میں پیار و محبت بھر دیتی ہے۔
     ماشاءاللہ، مجھے سسرال سے بھی بے حد پیار ملا ۔وہ میرے ہر مشکل وقت میں ساتھ دینے والے ہیں۔ کبھی بھی مجھے یہ محسو س نہیں ہوا کہ میں غیرو ںکے درمیان ہوں۔ ہمیں چاہئے کہ اپنے اندر صبر اور شکر گزاری پیدا کرنے کی کوشش کریں کیونکہ کوئی بھی انسان مکمل نہیں ہوتا۔ جس طرح دوسرے آپ کی باتوں کو برداشت کرتے ہیں، اسی طرح آپ کو بھی دوسروں کی باتیں برداشت کرنی چاہئیں ورنہ اکثر گھر انہی وجوہ کی بناءپر تباہ و برباد ہوجاتے ہیں۔ ہر رشتے کو مثبت رنگ میں رنگنا انسان کے اپنے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ برداشت ہی ایک ایسا وصف ہے جو دشمن کو بھی دوست بنا دیتا ہے ۔
    محترمہ رومانہ محمود کہتی ہیں کہ اللہ رب العزت نے مجھے 3اولادوں سے نوازا۔ بڑی بیٹی ذھبیہ محمود نے بقائی یونیورسٹی سے” بی ڈی ایس“کیا اور ہاﺅس جاب کرکے واپس ریاض آگئی ۔ دوسرے نمبر پر بیٹا سید صفوان علی ہے جو حال ہی میں یو کے سے الیکٹریکل انجینیئرنگ میں ماسٹرز کرکے واپس آیا ہے اور ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں ملازمت کررہا ہے ۔ تیسرے نمبر پر بیٹی ہے جو ابھی چھوٹی ہے۔ وہ پانچویں جماعت میں پڑ ھ رہی ہے۔
اسے بھی پڑھئے:میں اپنی یونیورسٹی میں استاد بھی تھی ، شاگرد بھی، فاطمہ الزہرا
    محترمہ رومانہ کہتی ہیں کہ ان کے والد کا تعلق دہلی کے دیندار گھرانے سے تھا۔ وہ بہت قابل انسان تھے ۔انہوں نے اپنی پوری تعلیم اسکالر شپ کے ذریعے حاصل کی اور پھر او جی ڈی سی میں فنانس کے شعبے میں ملازمت کی ۔یوںتو ہم 3 بھائی بہن ہیں لیکن اللہ کریم کا کرنا ایسا ہوا کہ میرے بڑے بھائی جوانی میں ہی فوت ہوگئے لیکن انکے جہان فانی سے جانے کے بعدمیں اور میرا بھائی ہم دو ہی رہ گئے ۔ میں اپنے بھائی سے چھوٹی تھی لیکن میرے اندر لڑکیوں والی کوئی خصوصیت نہیں تھی۔ ہم دونوں بہن بھائی سارا دن شرارتیں کرتے ۔ امی سے ڈانٹ بھی پڑتی تھی پھر بھی ہم پر کوئی اثر نہیں ہوتا تھا اور خوب مزے کرتے تھے۔
    میرے والد صاحب تاریخی کتابوں کے شوقین تھے اور ہمارے گھر میں ایک چھوٹی سی تاریخی کتابوں کی لائبریری ہوا کرتی تھی۔ میں بھی اپنے والد کی طرح تاریخی کتابوں کا بہت شوق سے مطالعہ کرتی ہوں بلکہ اب بھی پڑھتی ہوں۔ نسیم حجازی میرے پسندیدہ رائٹرز میں سے ہیں۔ میں جب بھی ان کتابوں کا مطالعہ کرتی تو مطالعے میں اتنی محو ہوجاتی تھی کہ اپنے آپ کو ان کرداروں کے اندر محسوس کیا کرتی تھی۔ دل میں ایک کسک سی اٹھتی تھی کہ کاش میں ان جگہوں پر جاسکتی جہاں ہمارے پیارے رسول نے اپنی حیات طیبہ بسر فرمائی اور اللہ کا پیغام لوگوں تک پہنچایا۔ میں بھی ان راستوں پر چلوں۔ میری یہ خواہش اللہ کریم نے شادی کے چند سالوں کے بعد ہی پوری فرما دی۔ سعودی عرب کا سفر میری زندگی کا سب سے خوبصورت اور بہترین سفر ثابت ہوا۔ الحمد للہ ،اللہ تعالیٰ نے اس سرزمین پر لاکر ہدایت کے جو راستے میرے لئے کھولے وہ اس سے پہلے میرے لئے کبھی نہیں کھلے تھے۔ یہاں کے ماحول نے میری دینی تربیت میں اہم کردارادا کیا اور دنیا و آخرت کی بہت سی منزلوں کی نشاندہی واضح طور پر کی۔ میں پوری طرح دین کی طرف راغب ہوگئی ۔ویسے دین کی طرف تو پہلے بھی تھی مگر اب اچھی طرح دین کی سمجھ آگئی ہے۔
    سعودی عرب آنے کے بعد کچھ عرصے تک تو گھر پر ہی بچوں کی تعلیم اور انکی پرورش کرنے میں مصروف رہی مگر جب بچے تھوڑے بڑے ہوئے اور بڑی کلاسوں میں آئے تو مجھے گھر میں بوریت ہونے لگی چنانچہ دوبارہ ملازمت کا سلسلہ شروع کیا۔ میں نے مختلف اسکولوں میں تدریس کے فرا©ئض انجام دیئے جن میں مختلف قومیتوں کے لوگ بھی کام کررہے تھے۔ یہاں مجھے کام کرکے بے حد فخر محسوس ہوتا تھا کہ بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملتا ہے اور ایک کولیگ کی حیثیت سے لبنانی، مصری، اردنی اور دیگر قومیت کے لوگ بھی ہوتے ہیںجن کے درمیان بالکل بھی اجنبیت کا احساس نہیں ہوتا ۔ سب ایک دوسرے سے اس طرح تعاون کرتے ہیں جس طرح ایک فیملی کے ارکان ہوتے ہیں ۔
    رومانہ محمود کہتی ہیں کہ بچے اپنے بڑوں سے بہت کچھ سیکھتے ہیں۔ میں نے ہمیشہ اپنی ماں کو صبر و برداشت کرتے ہی دیکھا ۔ میری والدہ صبر و برداشت کا پیکر تھیں ۔کبھی انہیں میں نے ہمت ہارتے ہوئے نہیں دیکھا۔ جب میں نہ سمجھ تھی تو امی جان پر خوب ناراض ہوتی تھی کہ آپ لوگوں کی غلطیوں کو فوراًکیوں معاف کردیتی ہیں لیکن اب امی جان کی یہ نصیحت یاد آتی ہے کہ بیٹا پھلدار درخت ہی جھکتا ہے۔ اپنی ماں کے بعد ساس کو دیکھا جو ہمیشہ ہر کسی کے غم ہو یا خوشی میںہر جگہ لوگوں کیساتھ موجود ہوتی تھیں۔ میں نے انہیں ہمیشہ جذبہ ہمدردی سے بھرپور پایا اور کیوں نہ ہو جو شخص کسی سے خوشیاں شیئر کرنا جانتا ہو وہ کبھی مفلس نہیں ہوتا۔ اسی لئے تو کہا جاتا ہے کہ ہر انسان اس دنیا میں فنکار ہے۔ کسی میں یہ صلاحیت زیادہ ہوتی ہے تو کسی میں کم۔ ہر شخص اپنے تجربات اور افعال سے زندگی کو نیا رخ دیتا ہے۔
    میرے شوہر سید محمود علی بھی فلاحی کاموں میں پیش پیش رہتے ہیں۔ انسان کی زندگی میں اونچ نیچ تو عام سی بات ہے یہی فطرت قانون ہے۔ اس سے ہمیں گھبرانا نہیں چاہئے۔ رومانہ صاحبہ اداس ہوکر کہنے لگیں کہ زندگی سے لوگ چلے جاتے ہیں مگر زندگی رکتی نہیں ۔ زندگی یونہی جاری و ساری رہتی ہے۔ ابھی ہماری گفتگو جاری تھی کہ محترمہ رومانہ کے شوہر محمود صاحب بھی تشریف لے آئے اور انہوں نے سب سے پہلے اردونیوز کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ ہم ہر جمعہ کو اردونیوز باقاعدگی سے پڑھتے ہیں۔میں اردونیوز کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ ہمیں بھی اس اخبار کا مہمان ہونے کا شرف حاصل ہوا۔ مجھے بے حد خوشی محسوس ہورہی ہے ۔ انہوں نے بتایا کہ میری اہلیہ رومانہ نے بچوں کی تربیت بہترین انداز میں کی ہے۔ اس کے باوجود کہ وہ خود ملازمت کرتی ہیںپھر بھی انہوں نے بچوں کے حوالے سے غفلت نہیں برتی۔وہ ایک سلجھی ہوئی اور ذمہ دار خاتون ہونے کے ساتھ ایک اچھی بیوی اور بہو بھی ہیں۔ انہیں رشتوں کو نبھانا بھی خوب آتا ہے۔ اس لئے وہ سارے رشتوں کو ساتھ لیکر چلتی ہیں۔ ویسے بھی میاں بیوی گاڑی کے دو پہئے ہوتے ہیں۔ اگر ایک بھی پہئے میں خرابی آجائے تو گاڑی کی رفتار میں کمی کا اندیشہ رہتا ہے۔ اس لئے ہمیشہ گاڑی کے پہیوں کا خیال رکھنا چاہئے تاکہ زندگی کی گاڑی بغیر ہچکولے کھائے اپنا سفر طے کرسکے۔
     رومانہ محمود اور سید محمود علی دنوں کے مزاج میں خاصی یکسانیت دیکھنے میں آئی یہاں تک کہ جب اردو ادب پر بات ہوئی تو پتہ چلا کہ دونوں کو ادب سے کافی لگاﺅ ہے۔ محترمہ رومانہ نے اپنی پسند کے چند اشعار بھی سنائے۔ اس کے علاوہ انہوں نے علامہ اقبال کی ایک غزل بھی دوران گفتگو سنائی جو اردونیوز کے قارئین کی نذر ہے:
ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں
ابھی عشق کے امتحان اور بھی ہیں
تہی زندگی سے نہیں یہ فضائیں
یہاں سیکڑوں کارواں اور بھی ہیں
قناعت نہ کر عالم رنگ و بوپر
چمن اور بھی آشیاں اور بھی ہیں
اگر کھو گیا اک نشیمن تو کیا غم
مقامات آہ و فغاں اور بھی ہیں
تو شاہیں ہے پرواز ہے کام تیرا
تیرے سامنے آسماں اور بھی ہیں
 اسی روز و شب میں الجھ کر نہ رہ جا
کہ تیرے زمان و مکاں او ربھی ہیں
گئے دن کہ تنہا تھا میں انجمن میں
یہاں اب مرے راز داں اور بھی ہیں

 

شیئر: