Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

حبیب جالب

 
 الطاف گوہر نے گورنر پر واضح کیا کہ جالب جیسا انسان جو مکھی تک مارنے پر یقین نہیں رکھتا کیسے پستول ہاتھ میں اٹھائے گھوم سکتا ہے
 
جاوید اقبال
 
حبس تھا، بہت حبس تھا۔ لوح و قلم حالت ِ سکوت میں اپنا وجودقائم رکھنے کی جدوجہد سے بھی محروم کردیئے گئے تھے۔ ایبڈو زدہ سیاستداںزبانوں پر قفل لگائے اپنی عزت سلامت رکھے صبر و شکر کئے کونوں کھدروں میں دبکے بیٹھے تھے۔ ایوب خان کے عہد کا عشرہ ترقی منایا جارہا تھا کہ ایک باغی صدا نے سہمی فضاﺅں کا پیرہن تارتار کردیا:
بیس گھرانے ہیں آباد، اور کروڑوں ہیں ناشاد
ہم پر اب تک جاری ہے،کالی صدیوں کی بے داد
صدر ایوب زندہ باد
بیس روپیئے من آٹا،اس پر بھی ہے سناٹا
گوہر، سہگل آدم جی،بنے ہیں برلا اور ٹاٹا
ملک کے دشمن کہلاتے ہیں، جب ہم کرتے ہیں فریاد
صدر ایوب زندہ باد
یہ حبیب جالب کی پکار تھی۔ 27 اکتوبر 1958 ءسے 27 اکتوبر 1967 ءتک کے10 برسوں تک بے صدا رہنے والے اور 20 گھرانوں کو وطن کی اقتصاد کو اپنی مٹھی میں جکڑتا دیکھنے والے 10کروڑ جاگے۔ صدارتی حکم نامے کے تحت خاموش کرا دیئے جانے والے سیاستدان بھی ہڑبڑا کر اٹھے اور ہر شہر کا مرکزجلسہ گاہ بن گیا۔ چوہدری محمد علی، ممتاز دولتانہ، عبدالحمید بھاشانی، نوابزادہ نصر اللہ ، خان عبدالولی خان ، مولوی فرید احمد اسٹیج پر آن بیٹھے اور حبیب جالب نے سامعین کے لہو میں چنگاریاں بھرنے کا کام سنبھال لیا۔ جالب کا کلام عوامی تھا۔ سلیس اردو ہوتی اور لوگوں کے دلوں میں بسے جذبات کو آواز دیتا۔ ایوب خان چونکا، مغربی پاکستان کے گورنر ملک امیر محمد خان کے ذمہ اس " بدتمیز" آدمی کو لگام ڈالنے کا کام سونپا گیا چنانچہ جالب پر الزام رکھا گیا کہ وہ شراب کی بوتل او رایک عدد پستول کےساتھ لاہور کے مال روڈ پر ڈاکہ زنی کی نیت سے گھوم رہا تھا۔ جالب کو گرفتار کرلیاگیا۔ چند دنوں کے بعد ایوب خان کے پریس سیکریٹری الطاف گوہر سے کسی نے درخواست کی کہ جالب کا خاندان انتہائی پریشان ہے اسلئے اسے رہائی دلوائی جائے۔
انہوں نے موقع مناسب دیکھ کر امیر محمد خان سے بات کی۔ نواب کا لا باغ نے جالب کو برا بھلا کہنا شروع کردیا اور کہا کہ اس کے دونوں جرائم پر بڑی سخت دفعات لگیں گی۔ تب الطاف گوہر نے گورنر پر واضح کیا کہ جالب جیسا انسان جو مکھی تک مارنے پر یقین نہیں رکھتا کیسے پستول ہاتھ میں اٹھائے گھوم سکتا ہے۔ دوسری بات کہ اگر اسکے پاس مشروب کی بوتل ہوتی تو مال روڈ پر ٹہلنے اور وقت ضائع کرنے کی بجائے کسی کونے میں بیٹھا غم غلط کررہا ہوتا۔ بات امیر محمد خان کی سمجھ میں آگئی چنانچہ حبیب جالب کی رہائی عمل میں آگئی۔ زندان سے نکلتے ہی اس درویش شاعرِعوام نے خوبصورت قطعہ کہا:
عام ہوئی غنڈہ گردی
چپ ہے سپاہی باوردی
 شمعِ نوائے اہلِ سخن
کالے باغ نے گل کردی
انسانی معاشروں میں آنےوالے انقلابات میں ان کے ادیبوںنے ہمیشہ اہم کردار ادا کیا ہے۔ اگر گورکی، ٹالسٹائی، چیخوف اورشولوخوف اپنا قلم استعمال نہ کرتے تو 1917 ءکے بعد وسطی ایشیا میں تبدیلی آتی اور نہ ادب و تاریخ میں نئے رجحانات پیدا ہوتے۔ والٹیراورروسو نے صدیوں سے غلام اپنے ہموطنوں کو نئی فکر اور حرمت ِ انسان سے آشنا کیا اور پھر انقلابِ فرانس نے کرہ¿ ارض پر سوچ کے دھارے بدل دیئے۔ پاکستانی تاریخ کے وہ 10برس جو ایوب خان کے ہوئے عوام کے نہ ہوئے۔ اظہارِ بیان پر پابندی رہی۔ پہلے قدرت اللہ شہاب اور پھر الطاف گوہر پریس ایڈوائس جاری کرتے رہے۔ اس بیانیے کے احاطے میں رہ کر ہی روزنامے طبع ہونے والی خبروں کی شکل بناتے اور اگلی صبح قاری سے یہ نتیجہ اخذ کروایا جاتا کہ وطن عزیز میں ہر جگہ، ہر شاخ پر پھول کھلے ہیں، فضا معطر بیز ہے، سینوں کے چاک سل چکے ہیں۔ اس دہائی کا سکوت توڑنے والا صرف جالب تھا۔
اور پھر ذوالفقار علی بھٹو کا سورج افق سیاست پر طلو ع ہوا۔ روٹی کپڑا اور مکان....یہی تو جالب کی تمنا تھی چنانچہ اس درویش منش شاعر کی آواز بھٹو کی مقبولیت میں اضافہ کرنے لگی۔ ہر جلسے میں اس کی مترنم آواز سماں باندھ دیتی۔ ایوب خان نے مظاہروں پر قابو پانے کیلئے طاقت کا استعمال شروع کیا تو جالب کی صدا بلند ہوئی:
کہیں گیس کا دھواں ہے کہیں گولیوں کی بارش
شب ِ عہد ِکم نگاہی تجھے کس طرح سرا ہیں
اس سے قبل جب ایوب خان نے اپنا آئین متعارف کرایا تھا تو جالب کی نظم " دستور" انتہائی مقبول ہوگئی تھی، اس پر پابندی لگا دی گئی:
دیپ جس کا محلات میں ہی جلے
چندلوگوں کی خوشیوں کو لے کر چلے
ایسے دستور کو صبحِ بے نور کو
کوئی جانے مگر کوئی مانے مگر
میں نہیں مانتا میں نہیں مانتا
فیض احمد فیض نے حبیب جالب کو اردو کا مقبول ترین عوامی شاعر کہا۔ جالب کے کلام کی تاثیر کا یہ عالم تھا کہ وہ جب پڑھتے پڑھتے اپنی گردن استہزاءمیں ختم کرتا تو سارا مجمع اپنی گردنیں ٹیڑھی کرلیتا۔ معاشرتی اور سیاسی نقطہ ہائے نظر سے نڈر جالب اردو ادب میں ایک انتہائی ممتاز مرتبے پر فائز ہے۔ 
جنرل ضیاءکیخلاف کہی گئی ان کی نظم تو زباں زدعام ہوگئی تھی۔ جالب کی ایک اور خوبی بھی تھی کہ وہ راست گوئی میں اپنے بزرگوں اور ساتھیوں تک کو بھی معاف نہیں کرتے تھے۔ طنز کی کاٹ ہر چیز کا تیاپانچہ کردیتی تھی۔ ایک معروف بزرگ شاعر سے جالب کی ملاقات ہوئی تو وہ بولے کہ اب وہ ایوب خان کے مشیر ہوگئے ہیں اور صدر رات دن کے کسی بھی وقت انہیں ایوان صدر میں طلب کرکے ان کا مشورہ طلب کرتے ہیں۔ اس پر جالب نے وہ شہرہ آفاق نظم لکھی:
میں نے اس سے یہ کہا کہ جو دس کروڑ ہیں
جہل کا نچوڑ ہیں ان کی فکر سوگئی
ہر امید کی کرن ظلمتوں میں کھوگئی
یہ درست بات ہے ان کی موت ہوگئی
بے شعور لوگ ہیں زندگی کا روگ ہیں
٭٭٭٭٭٭
 

شیئر: