Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ایلیا کے پادری کی گواہی

 یقینا رات کو یہ دروازہ کسی نبی ہی کیلئے کھلا رکھا گیا ہے اور انھوں نے ہماری اس مسجد میں نماز بھی پڑھی ہے

    حافظ ابن کثیرؒ نے حافظ ابونعیم اصفہانیؒ کے حوالے سے یہ دلچسپ اور حیرت انگیز واقعہ نقل کیا ہے کہ جب سرور کائنات نے دحیہ بن خلیفہؓ  کو شاہِ روم ہرقل کی طرف اپنا سفیر بنا کر بھیجا تو اس موقع پر شاہِ روم نے شام میں آئے ہوئے تاجر ابوسفیان اور ان کے ساتھیوں کو اپنے دربار میں طلب کرکے ان سے وہ مشہور سوالات کیے جو صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی روایت میں موجود ہیں۔ ابوسفیان ابھی تک مسلمان نہیں ہوئے تھے، اس لئے اُن کی یہی کوشش رہی کہ وہ رسول اللہ  کو ہرقل کی نگاہوں میں حقیر اور کم تر بنا کر پیش کریں لیکن وہ کہتے ہیں کہ اللہ کی قسم، میں اِس بات سے صرف اس لئے باز رہا کہ میں یہ پسند نہیں کرتا تھا کہ ہرقل کے پاس کوئی جھوٹ بولوں اور وہ میرا جھوٹ پکڑلے اور پھر میری کسی بھی بات کو سچا نہ مانے۔ آخر کار مجھے آپ کی معراج والی بات یاد آگئی۔ میں نے کہا:
     بادشاہ سلامت! کیوں نہ میں آپ کو ایک ایسی بات بتائوں جس سے آپ کو معلوم ہو جائیگا کہ اس شخص نے جھوٹ بولا ہے۔ بادشاہ نے پوچھا: وہ کیا بات ہے؟ میں نے کہا:
     ان کا یہ خیال ہے کہ وہ ایک رات ہمارے علاقے سرزمینِ حرم سے نکلے اور تمہاری اس مسجد، مسجد ایلیا (مسجد اقصیٰ) تک آگئے اور اسی رات صبح ہونے سے پہلے پہلے ہمارے پاس واپس بھی پہنچ گئے۔
    ایلیا کا سب سے بڑا پادری اس وقت قیصر روم کے قریب ہی بیٹھا تھا۔ اس نے ابوسفیان کی یہ بات سن کر فوراً کہا:
    میں اس رات سے واقف ہوں۔
     قیصر روم نے حیرت سے پادری کی طرف دیکھا اور پوچھا:
    تمہیں اس کے بارے میں کیسے معلوم ہوا؟، اس نے کہا:
    میری عادت یہ تھی کہ میں رات کو سونے سے پہلے مسجد کے سارے دروازے بند کرکے سویا کرتا تھا۔ اس رات میں نے سارے دروازے بند کر دئیے مگر ایک دروازہ مجھ سے بند نہ ہوسکا۔ میں نے اپنے کارندوں سے اور جو دیگر لوگ میرے پاس موجود تھے، سب سے مجموعی طور پر مدد طلب کی مگر ہم سب مل کر اس دروازے کو ہلا بھی نہ سکے۔ ایسا لگتا تھا جیسے ہم کوئی پہاڑ اس کی جگہ سے سرکا رہے ہیں۔ میں نے ترکھانوں کو بلایا۔ انھوں نے اس دروازے کا معائنہ کرکے بتایا کہ اس پر تو چوکھٹ اور عمارت کا بوجھ پڑگیا ہے،ہم اسے صبح ہونے سے پہلے نہیں ہلا سکتے۔ ہم صبح دیکھیں گے کہ یہ بوجھ کہاں سے آپڑا ہے۔ میں واپس آگیا۔ دونوں دروازے کھلے ہی رہنے دئیے۔ صبح ہوئی، میں ان دروازوں کے پاس گیا۔کیا دیکھتا ہوں کہ مسجد کے ایک کونے میں پڑے ہوئے پتھر میں ایک سوراخ ہوگیا ہے اور اس میں جانور کو باندھنے کا نشان بھی موجود ہے۔ میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا:
     یقینا رات کو یہ دروازہ کسی نبی ہی کیلئے کھلا رکھا گیا ہے اور انھوں نے ہماری اس مسجد میں نماز بھی پڑھی ہے۔
 

مزید پڑھیں:- - - -معراج کا سفر ، دکھوں کا مداوا

شیئر: