Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کوہِ نور کا اصل حقدار کون؟

کوہِ نور ہیرے کو ہندوستان سے برطانیہ پہنچے ہوئے لگ بھگ ڈیڑھ سو سال ہو گئے ہیں مگر یہ بحث آج بھی زور و شور سے جاری ہے کہ آخر اس کا اصل حقدار کون ہے، اسے واپس ہونا چاہیے کہ نہیں، اگر واپس کیا جائے تو کسے؟
 اب کی بار اس بحث کو چھیڑنے میں پاکستان کے وفاقی وزیرِ اطلاعات چوہدری فواد حُسین نے پہل کی ہے۔
انھوں نے اپنے ایک تازہ ٹویٹ میں برطانیہ سے یہ ہیرا لاہور میوزیم کو واپس کرنے کا مطالبہ کیا ہے کیونکہ اُن کے خیال میں پاکستان ہی اس کا صحیح حقدار ہے۔
انڈین وزیرِ دفاع نرملا سیتارمن کی جانب سے 1919 کے جلیانوالہ باغ سانحے اور 1943 میں بنگال میں قحط سالی پر برطانیہ سے معافی مانگنے کے مطالبے کی توثیق کرتے ہوئے فواد چوہدری نے کہا ہے کہ ’برطانیہ کو جلیانوالہ باغ کے قتل عام اور بنگال کے قحط پر انڈیا، پاکستان اور بنگلہ دیش سے معافی مانگنے کے ساتھ ساتھ کوہِ نور کا ہیرا بھی لاہور میوزیم کو واپس کر دینا چاہیے کیونکہ یہ اسی کی ملکیت ہے۔‘
یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ کسی نے برطانیہ سے ہیرے کی واپسی کا مطالبہ کیا ہو۔
ماضی میں بھی مہاتما گاندھی کے پوتے راج موہن گاندھی سمیت ناصرف انڈیا، پاکستان بلکہ افغانستان اور ایران کی کئی اہم شخصیات بھی برطانیہ سے کوہِ نور کو واپس کرنے کا مطالبہ کر چُکے ہیں۔
اس کے علاوہ کچھ بھارتی نژاد برطانوی اراکین پارلیمان بھی کوہِ نور انڈیا کو لوٹانے کا کہہ چُکے ہیں۔ ان کے نزدیک انڈیا اس کا اصل حقدار ہے اور برطانوی حکومت نے اسے غیر قانونی طور پر حاصل کیا تھا۔
1997 میں ملکہ الزبتھ دوم جب انڈیا کے دورے پر آئی تھیں تو اس کے دوران بھی کوہِ نور واپس کرنے کا مطالبہ سامنے آیا تھا۔
اسی طرح 2015 میں لاہور کے ایک وکیل بیرسٹر اقبال جعفری نے برطانیہ سے کوہِ نور کی واپسی کے لیے لاہور ہائی کورٹ میں ایک درخواست بھی دائر کی تھی۔ 
دوسری جانب برطانیہ کے سابق وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون نے 2013 میں اپنے انڈیا کے دورے کے دوران واضح کر دیا تھا کہ کوہِ نور ہیرا واپس نہیں کیا جائے گا۔
انڈیا میں دئیے گئے ایک انٹرویو میں انھوں نے کہا تھا کہ ’ہیرے کی واپسی کے مطالبے کا صحیح جواب یہ ہے کہ برطانیہ کے عجائب گھر دنیا بھر کے دوسرے عجائب گھروں کے ساتھ بات کر کے اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ برطانیہ نے جن نایاب چیزوں کو جتنے بہترین طریقے سے سنبھال کر رکھا ہے ان کو پوری دنیا کے لوگوں کے ساتھ شيئر کیا جائے۔‘
کوہِ نور تاریخ کے آئینے میں
کوہِ نور دنیا کے بڑے ہیروں میں شمار ہونے والا 105 کیرٹ کا ہیرا ہے جسے برطانیہ کے شاہی زیور کے طور پر ٹاور آف لندن میں نمائش کے لیے رکھا گیا ہے۔
کئی تاریخی روایات کے مطابق اس ہیرے کو 13ویں صدی عیسوی میں موجودہ انڈین ریاست آندھرا پردیش کی ایک کان سے نکالا گیا تھا جس کے بعد پہلے پہل اسے بادشاہ علاوء الدین خلجی کے جنرل ملک کافور نے حاصل کیا اور یہ برسوں تک خلجی خاندان کے پاس رہا۔
لیکن بعد میں ریاستوں کے درمیان جنگ و جدل کے دوران مختلف راجوں کے ہاتھوں سے ہوتا ہوا 16ویں صدی میں سلطان ابراہیم لودھی کے پاس پہنچا جبکہ 1526 میں پانی پت کی لڑائی میں فتح کے بعد پہلے مغل شہنشاہ ظہیرالدین بابر تک پہنچا۔
مغلیہ دور کے زوال کے دِنوں میں ایرانی بادشاہ نادر شاہ تخت طاؤس کے ساتھ یہ ہیرا بھی لے گیا۔
روایات ہیں کہ کوہ نور کو یہ نام اسی ایرانی بادشاہ نے دیا تھا۔ نادر شاہ کے قتل کے بعد ہیرا افغانستان کے بادشاہ احمد شاہ ابدالی کے ہاتھوں چڑھ گیا، جس کے بعد پنجاب کے آخری حکمران مہاراجہ رنجیت سنگھ کے دور میں تخت لاہور کو مل گیا۔
کچھ مورخین کے مطابق مہاراجہ رنجیت سنگھ نے 1839 میں اپنے انتقال سے قبل یہ ہیرا خود ملکہ برطانیہ کو تحفے کے طور پر دیا تھا جبکہ کچھ کا کہنا ہے کہ 1849 میں برطانیہ کے پنجاب پر قبضے کے بعد انگریزوں نے یہ ہیرا رنجیت سنگھ کے کم سن پوتے دلیپ سنگھ سے ہتھیایا تھا۔
پاکستان کے معروف تاریخ دان ڈاکٹر مبارک علی اس بات سے اتفاق نہیں کرتے کہ یہ ہیرا 13ویں صدی عیسوی میں آندھرا پردیش کی کان سے نکالا گیا تھا۔
اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ کوہِ نور کو 17ویں صدی میں مغل بادشاہ شاہ جہان کے دور میں حیدر آباد دکن کی ایک کان سے نکالا گیا تھا جس کے بعد یہ ایک لمبے عرصے تک مغلوں کے پاس رہا۔
وہ اس بات کی بھی تردید کرتے ہیں کہ یہ ہیرا رنجیت سنگھ نے ملکہِ برطانیہ کو خود تحفے میں دیا تھا۔
’ایسا نہیں کہ رنجیت سنگھ نے کوہِ نور خود ملکہ کو دیا تھا بلکہ 1849 میں پنجاب پر قبضے کے بعد انگریزوں نے اسے اُن کے کم سن پوتے سے لیا تھا۔‘
’دُنیا کا بدنام ترین ہیرا‘
برطانیہ سے تعلق رکھنے والے معروف مصنف ولیم ڈیلرمپل اور انڈین نژاد برطانوی صحافی انیتا آنند نے اس ہیرے پر ایک تحقیقی کتاب لکھی ہے جس کا نام 'کوہ نور: دنیا کا بدنام ترین ہیرا‘ ہے۔
اس کتاب میں ہیرے سے جُڑی کئی کہانیوں پر تفصیلاً بات کی گئی ہے۔
بی بی سی اُردو میں چھپنے والے ایک مضمون کے مطابق اس کتاب کے مصنفین لکھتے ہیں کہ کوہ نور دنیا کا سب سے بڑا ہیرا نہیں ہے۔ درحقیقت یہ دنیا کا 90واں بڑا ہیرا ہے۔
جو سیاح اسے ٹاور آف لندن میں دیکھتے ہیں وہ اکثر اس بات پر حیرت کا اظہار کرتے ہیں کہ یہ کتنا چھوٹا سا ہے، خاص طور پر جب وہ اس کا موازنہ قریب ہی نمائش کے لیے رکھے گئے دو بڑے کلینن ہیروں سے کرتے ہیں۔
کتاب میں یہ بھی لکھا گیا ہے کہ یہ جاننا ناممکن ہے کہ کوہ نور کی دریافت کب اور کہاں ہوئی۔ اسی وجہ سے یہ ایک پراسرار ہیرا ہے اور اس کے متعلق یہ کہنا غلط ہے کہ یہ 13ویں صدی میں دریافت ہوا تھا۔
لیکن مصنفین لکھتے ہیں کہ ’ہم یہ بات یقین سے کہہ سکتے ہیں کوہِ نور کو کسی کان سے نہیں بلکہ شاید جنوبی انڈیا میں خشک دریائی سطح سے نکالا گیا تھا۔‘
اُن کے مطابق انڈین ہیرے کانوں سے نہیں نکلتے بلکہ دریائی زمین سے ملتے ہیں۔
 

شیئر: