Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

تین ملک ایک کہانی

 *** وسعت اللہ خان *** 
کاش ملکوں کو پہیے ہوتے تو کم از کم 3 ممالک (انڈیا، پاکستان، افغانستان) ایک دوسرے کو کبھی کا انٹارکٹیکا تک نہیں تو بحرِ ہند میں ضرور دھکیل چکے ہوتے۔ مگر مشکل یہ ہے کہ رشتے دار اور ہمسائے جیسے بھی ہوں برداشت ہی مقدر ہے ورنہ بیچ کی دیوار ڈھینے سے دونوں ہی ایک دوسرے پر پورے پورے کھل جاتے ہیں۔ اگر اتنی سامنے کی بات بھی ان حکومتوں کی سمجھ میں آجائے تو یہ علاقہ جنت نہ ہو جائے۔
چلیے لاحاصل دھینگا مشتی جاری رکھیے مگر سانڈوں کی لڑائی میں جو گھاس عرف عوام کچلی جا رہی ہے اسے تو پرے کر دیں۔
اگر دونوں حکومتیں (پاک افغان) اپنی اپنی باہمی رنجشیں مٹانا چاہتی ہیں تو اس کے لیے رسمی نہیں حقیقی بات چیت ضروری ہے۔ ایک دوسرے کے آگے اکڑنے سے پہلے کیا حاصل ہوگیا جو اب ہو جائے گا۔
ہاں معلوم ہے افغان حکمران ڈیورنڈ لائن نہیں مانتے مگر انہوں نے کبھی اس لکیر کو مٹانے کے لیے فوجیں بھی تو نہیں بھیجیں۔ ہاں معلوم ہے پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے نزدیک افغانستان سٹرٹیجک ڈیپتھ کا دوسرا نام ہے۔ لیکن سرحد سے چند میل پرے کیمپ سجائے دشمنوں کی گوشمالی کے لیے سرجیکل سٹرائکس کے بارے میں سوچا تو بہت گیا مگر کبھی ہوئیں تو نہیں۔ تو پھر ایسی باتیں طعنوں کی طرح ایک دوسرے کے منہ پر مارنے اور طرح طرح کی سوئیاں طرح طرح سے چبھونے سے کیا حاصل اور تا بکہ؟
اس بحث سے قطع نظر کہ افغانستان، پاکستان اور انڈیا میں سے کون کسے زیادہ نچا رہا ہے اور کس کے کندھے پر کس کی بندوق ہے، تینوں ممالک جب تک پانچ مرلے مکان کی پچھواڑہ ذہنیت سے نہیں نکلیں گے کچھ نہیں ہونے کا۔
اس ذہنیت کا پس منظر یوں ہے کہ ہمارے آپ کے گھروں میں عموماً بزرگ خواتین اس خیال سے چیزیں جمع کرتی رہتی ہیں کہ کبھی نہ کبھی کام آجاویں گی۔ بھلے وہ دیوار کی چنائی سے بچ جانے والی چار لاوارث اینٹیں ہوں کہ باتھ روم کا نیا فرش پڑنے کے بعد تنہا رہ جانے والی دو رنگین ٹائلیں یا ڈسٹمپر کا آدھا بچا ہوا ڈبہ۔ بچے کی حسرت ناک ٹوٹی سائیکل، بنا چابی کا آوارہ تالہ، لوہے کا یتیم سریہ، متروک کار کا فاقہ زدہ ٹائر، تین ٹانگوں کی پولیو زدہ کرسی، غموں کی ماری ادھڑی پتلون وغیرہ وغیرہ اس خیال سے گھر کے پچھواڑے یا سیڑھی کے نیچے والے خلا میں رکھ دیے جاتے ہیں کہ کبھی ان کی مرمت کروالیں گے۔ پلاسٹک کے خالی شاپرز تہہ کر کر کے گدوں کے نیچے اس امید پر گھسا دیے جاتے ہیں کہ وقت بے وقت ضرورت پڑ سکتی ہے۔ مگر ننانوے فیصد آزمائی بات ہے کہ ان اشیا کو جمع کرنے اور سینت سینت کے رکھنے والے ایک دن ضرور عزرائیل کے کام آجاتے ہیں مگر یہ فضول نادر اشیا کبھی کسی کام نہیں آتیں سوائے فالتو میں گھر کی جگہ گھیرنے کے۔
اگر ’کبھی کام آجائے گی‘ کی ذہنیت سے نجات حاصل کر لی جائے تو اسی دھول مٹی سے اٹے کاٹھ کباڑ کو گھیرنے والے پچھواڑے میں کیاری بنائی جا سکتی ہے، دوپہر میں آرام کے لیے پلنگ ڈل سکتا ہے، سیڑھیوں کے نیچے کے خلا کو ننھے میاں کے کھیلنے اور جھلانے کے کام میں لایا جا سکتا ہے۔
 آپ کو نہیں لگتا کہ انڈیا ہو کہ پاکستان کہ افغانستان یا ان جیسے دیگر ممالک۔ ہر جگہ ’کبھی آڑے وقت میں کام آ جائیں گی‘ ذہنیت رکھنے والے ہی حکمران ہیں جنہوں نے نوآبادیاتی دور کا کاٹھ کباڑ سینت سینت کے رکھا ہوا ہے۔ان حکمرانوں کی نسلیں بدل جاتی ہیں مگر کاٹھ کباڑ اپنی جگہ سے نہیں ہلتا بلکہ ہر آنے والا اور اضافہ کرتا چلا جاتا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ دوسرے کی زندگی تنگ کرنے کے چکر میں اپنے رہنے کی جگہ بھی تنگ سے تنگ تر ہوتی جا رہی ہے۔
ان میں سے ہر کوئی دوسرے کو بے وقوف ثابت کرنے کے مشن میں خود کو بے وقوف بنا رہا ہے۔دنیا کی آنکھوں سے اپنا حال دیکھنے کے بجائے اپنی آنکھوں سے دنیا کو دیکھنا اور پھر یہ ضد کرنا کہ دنیا بھی وہی دیکھے جو ہمیں نظر آر ہا ہے۔ یہ قومی حکمتِ عملی نہیں نفسیاتی عارضہ ہے۔یہ اکڑ نہیں علاج مانگتا ہے۔ہر بار ایک ہی راستے پر چل کر بھٹکنا اور اگلی بار پھر یہ سوچ کر چلنا کہ اس بار نہیں بھٹکوں گا۔اسے قصدِ سفر نہیں پاگل پن کہتے ہیں۔
کیا اسی دنیا میں تائیوان اور چین، فرانس اور جرمنی، ویتنام اور امریکہ، امریکہ اور جاپان نہیں بستے جنہوں نے اپنی دشمنیوں کو ماضی کے برتن میں دائمی دودھ پلا پلا کر پالنے اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے کاٹھ کباڑ جمع کرنے کی ذہنیت کو طلاق دے کر اپنے قومی ترقیاتی مقاصد کے حصول کے لیے یکسوئی خرید لی؟ ان پر کیسے آشکار ہوگیا اور ہم پر کیوں نہیں ہو پایا کہ ماضی یاد رکھنے کی چیز ہے، ماضی بدلا نہیں جا سکتا لہذا اسے حال میں گھسیڑ کر اپنا مستقبل کھدیڑنے سے کسی کو کوئی فائدہ نہیں۔ ہم جدید ریاستیں ہونے کے دعویدار تو ہیں مگر ہمارے دماغ آج بھی قبائلی و جاگیردارانہ ہیں۔ سر کٹ جائے پر مونچھ نیچی نہ ہو۔ بھلے اپنا گھر بھی جل گیا مگر ہمسائے کا گھر تو راکھ ہو گیا نا۔کبھی ایسی ذہنیت بھی عالمی سکہ رائج الوقت تھی۔مگر اب دو ہزار انیس ہے۔
آپ کا کیا خیال ہے؟ دنیا کو آپ کی پرواہ ہے؟ دنیا آپ پر ترس کھائے گی؟ دنیا آپ کے بیچ میں پڑ کے صلح صفائی کروائے گی؟ یہ اگلے وقتوں میں ہوتا تھا۔آج کسی کے پاس فرصت نہیں کہ اپنی صلیب بھی اٹھائے اور آپ کی بھی۔آج قافلے سے پیچھے رہ جانے والوں کو کوئی نہیں پوچھتا۔ ممکن ہے آج بھی کچھ خدا ترس ممالک یا تنظیمیں ہوں جو آپ کے لیے کچھ دیر ٹھہر کر مدد کر کے آپ کو آگے بڑھ جانے والے ترقی کے قافلے کے ہم قدم لانا چاہتی ہوں۔مگر آپ اپنی مدد کرنے والوں کی بھی کتنی مدد کر رہے ہیں۔ جہالت کا علاج ممکن ہے مگر مغرور جہالت کا علاج کسی کے بس میں نہیں۔کم ازکم زمین پر تو نہیں۔
٭٭٭٭٭٭٭٭
 

شیئر: