Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

'فیض آباد دھرنا کیس کے فیصلے کے خلاف سات درخواستیں دائر'

اے وحید مراد
پاکستان میں حکمران جماعت تحریک انصاف نے سپریم کورٹ کے فیض آباد میں مذہبی جماعت کے دھرنے پر دیے گئے فیصلے پر نئی نظرثانی درخواست دائر کرتے ہوئے استدعا کی ہے کہ انصاف کے تقاضے پورے کرنے کے لیے اس فیصلے کو ختم کیا جائے ۔ 
پارٹی کی جانب سے اس سے قبل دائر کی گئی نظر ثانی درخواست پر سپریم کورٹ کے رجسٹرار آفس نے اعتراضات عائد کیے تھے جس کے بعد تحریک انصاف کے وکیل ایڈووکیٹ علی ظفر نے اپنی درخواست واپس لے لی تھی۔ 
عدالت عظمیٰ کے فیض آباد  دھرنا کیس پر فیصلے پر اب تک سات نظرثانی درخواستیں دائر کی جا چکی ہیں ۔ 
نظرثانی درخواستیں دائر کرنے والے دیگر فریقوں میں متحدہ قومی موومنٹ ، شیخ رشید احمد، اعجاز الحق، انٹیلی جنس بیورو، الیکشن کمیشن آف پاکستان اور آئی ایس آئی شامل ہیں۔ 
فیصلے میں عدالت نے پاکستان کی فوج اور آئی ایس آئی کی اعلی کمان کو ہدایت کی تھی کہ ان افسران کے خلاف کارروائی کی جائے جن پر دھرنے والوں کا ساتھ دینے کا الزم ہے۔ 
پاکستان کی خفیہ ایجنسی انٹرسرسز انٹیلی جنس آئی ایس آئی نے وزارت دفاع کے ذریعے اس فیصلے پر نظر ثانی درخواست دائر کرتے ہوئے فوج کو جاری کیے گئے حکم نامے کو واپس لینے کے لیے کہا ہے۔
وزارت دفاع کی درخواست میں کہا گیا ہے کہ 'یہ نظرثانی چھ فروری کے حکم نامے میں فوج کے بارے میں مخالف آبزرویشن اور منفی حتمی ریمارکس کی حد تک دائر کی جا رہی ہے جس میں بری، بحری اور فضائی افواج کے سربراہوں کو ہدایت جاری کی گئی تھی کہ اپنی کمانڈ کے نیچے کام کرنے والے ان اہلکاروں کے خلاف کارروائی کریں جنہوں نے اپنے حلف کی خلاف ورزی کی ہے۔'
درخواست میں کہا گیا ہے کہ‘ جنگی صرف اسلحے سے نہیں بلکہ سپاہی کا مورال بلند کرنے سے جیتی جاتی ہیں اور کسی بھی سپاہی کا مورال اس سے زیادہ کوئی چیز نہیں گرا سکتی کہ اس کو کہا جائے کہ تمہارا افسر وہ کام کر رہا ہے جس سے اس کو سروکار نہیں ہونا چاہیے تھا۔‘'
درخواست کے مطابق سپاہی کا حوصلہ اس بات سے بھی ٹوٹتا ہے کہ اس کو بتایا جائے کہ تمہارے افسران شدت پسندوں کو نقد رقم دیتے ہیں، اور ایسے لوگوں کو 'پیمپر' کرتے ہیں جو نفرت پھیلاتے، تشدد پر اکساتے اور گالی دیتے ہیں۔  درخواست کے مطابق 'مختصر یہ کہ ان کو بتایا جائے کہ آپ کے افسران ملک دشمن ہیں جو اپنے حلف کی خلاف ورزی کرتے ہوئے قومی مفاد کے خلاف کام کر رہے ہیں۔'
وزارت دفاع کی درخواست میں کہا گیا ہے کہ عدالتی فیصلے میں فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے ڈائریکٹر جنرل کے اس بیان کو کہ 'تاریخ یہ ثابت کرے گی کہ سنہ 2018کے الیکشن شفاف تھے' درست تناظر میں نہیں دیکھا گیا اور عدالتی فیصلے میں یہ آبزرویشن بھی مبہم اور غیر واضح ہے کہ فوج سیاست میں ملوث رہی ہے۔
20صفحات پر مشتمل درخواست میں کہا گیا ہے کہ عدالتی فیصلے میں افواج کے سربراہوں کو اہلکاروں کے خلاف کارروائی کی ہدایت مبہم ہے جو قابل عمل نہیں۔  

درخواست کے مطابق فیصلے میں ایسے افسران کی نشاندہی نہیں کی گئی جنہوں نے اپنے حلف کی خلاف ورزی کی ہے ۔ 
تحریک انصاف کی ہدایت پر اس کے وکیل ایڈووکیٹ علی ظفر کی جانب سے دائر کی گئی نئی درخواست میں کہا گیاہے کہ 'فیصلے سے یہ تاثر ملا کہ سنہ 2014 میں پی ٹی آئی اور عوامی تحریک کا دھرنا غیر قانونی تھا اور صرف شہرت کے حصول کے لیے تھا جس میں جان بوجھ کر الزامات لگائے گئے۔'
درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ فیصلے کو ختم کیا جائے تاکہ اس کے مستقبل میں اثرات سے بچا جا سکے ۔ 
اس سے قبل تحریک انصاف کی جانب سے دائر کی گئی نظرثانی درخواست میں فیصلہ لکھنے والے جسٹس قاضی فائز عیسی پر بھی تنقید کی گئی تھی اور کہا گیا تھا کہ 'اس طرح کے یک طرفہ فیصلے سے جج اپنے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کا مرتکب ہوتا ہے جس پر اعلی عدلیہ کے ججوں کا محاسبہ کرنے والے فورم سپریم جوڈیشل کونسل سے رجوع کیا جا سکتا ہے۔'
چھ فروری کو دیے گئے اس فیصلے کے خلاف دائر کی گئی دیگر درخواستوں میں ایم کیو ایم، الیکشن کمیشن، انٹیلی جنس بیورو، شیخ رشید اور اعجازالحق نے اپنے بارے میں دی گئی آبزرویشن کو حذف کرنے کی استدعا کی ہے ۔ 
خیال رہے کہ فیصلے میں عدالت نے 12مئی 2007میں کے کراچی قتل عام کا ذکر کیا تھا جبکہ شیخ رشید اور اعجازا لحق کے دھرنے دینے والوں کے سٹیج پر جاکر تقاریر کرنے کو بھی حکم نامے کا حصہ بنایا تھا۔ 
عدالتی فیصلے میں الیکشن کمیشن پر دھرنے دینے والی مذہبی جماعت کی رجسٹریشن اور انٹیلی جنس بیورو پر دھرنا قائدین کی درست معلومات نہ رکھنے کی وجہ سے تنقید کی گئی تھی ۔
 

شیئر: