Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پنجاب کا نیا بلدیاتی نظام کیسا ہوگا؟

                                                                                                              رضوان صفدر

پاکستان کے صوبہ پنجاب میں حکمران جماعت تحریک انصاف کی طرف سے نئے سرے سے مقامی حکومتوں کے قیام کے لیے پنجاب لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2019 کا مسودہ وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کی منظوری کے بعد صوبائی اسمبلی میں پیش کر دیا گیا ہے۔

ایک طرف تحریک انصاف کے ارکان اسمبلی اور حامی اس مجوزہ بلدیاتی نظام کے ذریعے اختیارات کی نچلی سطح تک منتقلی کا دم بھرتے ہیں تو دوسری طرف مسلم لیگ نون اور دوسری اپوزیشن جماعتوں کے لیڈران اسے حکومت کا 'پھوکا نعرہ' قرار دیتے ہیں۔
آئیے دیکھتے ہیں کہ نئے لوکل گورنمنٹ ایکٹ کے مطابق پنجاب میں مقامی حکومتوں کا نظام کیسا ہوگا۔
شہری اور دیہی علاقوں کی تقسیم
تحریک انصاف کی حکومت نے صوبے کے شہری اور دیہی علاقوں میں مقامی حکومتوں کے قیام کے لیے بنیادی طور پر دو مسودے تیار کیے ہیں۔ پہلے مسودے کو لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2019 جبکہ دوسرے مسودے کو پنجاب ویلج پنچائیت اینڈ نیبرہوڈ کونسل ایکٹ 2019 کا نام دیا گیا ہے۔
لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2019 کے سیکشن 2 کے مطابق موجودہ بلدیاتی حکومتیں نئے ایکٹ کے اسمبلی سے منظور ہوتے ہی ازخود تحلیل ہو جائیں گی جس کے بعد ایک سال کے اندر نئی حلقہ بندیاں کروا کر الیکشن کروایا جائے گا۔
ایکٹ کے نفاذ کے بعد حکومت چھ ماہ کے اندر اندر تمام شہری اور دیہی علاقوں کی حد بندی نئے سرے سے کرے گی۔
اسی حد بندی کو مدنظر رکھتے ہوئے شہری علاقوں کو 2017ء کی مردم شمارے کے مطابق آبادی کے لحاظ سے میٹروپولیٹین کارپوریشنز، میونسپل کارپوریشنز، میونسپل کمیٹیوں، اور ٹاؤن کمیٹیوں میں تقسیم کیا جائے گا۔ یعنی شہری علاقوں میں مقامی حکومتوں کے چار بنیادی درجے ہوں گے جن کے انتخابات جماعتی بنیادوں پر کروائے جائیں گے۔
خیال رہے کہ یہ چار درجے نون لیگی حکومت کی جانب سے پیش کیے گئے پنجاب لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2013 سے کافی حد تک مطابقت رکھتی ہے۔
ایکٹ کے مطابق نئے نظام میں گوجرانوالہ، فیصل آباد، ملتان، راولپنڈی، ساہیوال، بہاورلپور، ڈیرہ غازی خان اور لاہور کے دو اضلاع میں میٹروپولیٹین کارپوریشنز بنائی جائیں گی۔ یعنی صوبے میں کل نو میٹروپولیٹین کارپوریشنز بنیں گی۔
مسودے کے مطابق مقامی حکومتوں کا دورانیہ پانچ سال ہوگا۔
ویلج اینڈ نیبرہوڈ کونسلز
ماضی کے لگ بھگ تمام ماڈلوں میں دیہی آبادی کے لیے ضلع کونسلوں جبکہ سابق صدر پرویز مشرف کے ماڈل میں ضلعی حکومت کا تصور موجود تھا تاہم نئے مجوزہ بلدیاتی نظام میں ضلع کونسلز یا ضلعی حکومیتں موجود نہیں ہیں۔
نئے ایکٹ کے تحت دیہی علاقوں کے لیے ریونیو حلقہ بندیاں استعمال کرتے ہوئے ویلج کونسلز اور تحصیل کونسلز متعارف کروائی جائیں گی تاہم اچھمبے کی بات یہ ہے کہ ویلج کونسلز کا تحصیل کونسلز کے ساتھ کوئی انتظامی یا قانونی تعلق نہیں ہوگا۔
دوسری طرف پنجاب ویلج پنچائیت اینڈ نیبرہوڈ کونسل ایکٹ 2019 اس بات کی ٹھیک سے وضاحت نہیں کی گئی کہ نیبرہوڈ کونسل کن علاقوں پر بنائی جائیں گی تاہم ماہرین کے مطابق نیبرہوڈ کونسلز ان شہری علاقوں میں بنائی جائیں گی جو لاہور جیسے بڑے شہروں میں نہ تو میٹروپولیٹن کارپوریشن میں آتے ہیں اور نہ ہی دیہی علاقے میں۔
یوں کہہ لیں کہ حکومت 20 سے 25 ہزار آبادی کے حامل نیم شہری قصبوں کو نیبر ہوڈ کونسلز کا نام دے گی اور ان کا دیہی علاقوں کی تحصیل کونسلوں اور شہری علاقوں کی میٹروپولیٹین کارپوریشن یا مونسپل کمیٹیوں سے کوئی تعلق نہیں ہوگا۔
نیبر ہوڈ کونسل ایک آزاد و خود مختار ادارہ ہوگا جس کے ارکان کی تعداد پانچ سے آٹھ ہوگی جبکہ ویلج کونسل کے ممبران کی تعداد تین سے پانچ ہوگی۔ پنچائیت اور نیبرہوڈ کونسل  کے الیکشن غیر جماعتی ہونگیں اور ان کا دورانیہ تین سال ہوگا۔
ماہرین مسودے میں بیان کیے گئے نیبر ہوڈ کونسلز کے تصور کو رومانوی اور مبہم قرار دیتے ہیں۔
ایکٹ کے مطابق پنجاب حکومت ہر 10 سال بعد علاقوں کی حد بندی کا نئے سرے سے جائزہ لے گی اور ضرورت کے مطابق ان میں تبدیلیاں کی جا سکیں گی۔
پنجاب بھر میں کتنی تحصیل اور ویلج کونسلز ہوں گی؟
وزیراعلیٰ پنجاب کے ترجمان ڈاکٹرشہبازگل کی سوشل میڈیا پر جاری کی گئی ایک ویڈیو کے مطابق پنجاب میں پہلے سے موجود 32 سو 81 یونین کونسلز کی جگہ اب 22 ہزار ولیج کونسلز بنائی جائیں گی۔
ترجمان نے بتایا کہ نئے نظام سے قبل ضلع کونسلز ہوتی تھیں لیکن نئے نظام میں لاہور کے علاوہ پنجاب کے 35 اضلاع میں ضلع کونسلز ختم کر کے الیکشن کے ذریعے تحصیل کونسلز بنائی جائیں گی۔
ان کے بقول پنجاب بھر میں 138 تحصیل کونسلز بنائی جائیں گی۔
مقامی حکومتوں کے مالی معاملات کی نگرانی کون کرے گا؟
مالی معاملات کی نگرانی ، صوبے بھر میں ٹیکس، ٹول اور سرکاری فیسوں کےتعین اورمقامی حکومتوں کو ترقیاتی فنڈر کے اجراء  کے لیے  ایکٹ کے نفاذ کے چھ ماہ کے اندر اندر پنجاب حکومت13 افراد پر مشتمل ایک فنانس کمیشن بنائے گی جسے  لوکل گورنمنٹ فنانس کمیشن کا نام دیا جائے گا۔ پنجاب کا وزیر خزانہ اس کمیشن کا چئیرمین جبکہ وزیر بلدیات اس کا شریک چئیرمین ہوگا۔
پنجاب کا سیکرٹری خزانہ اس کمیشن کا بھی سیکرٹری ہوگا۔اس کے علاوہ  سیکرٹری لوکل گورنمنٹ، سیکرٹری پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ  اس کمیشن کے رکن ہوں گے۔
اس کے علاوہ  مقامی حکومتوں کےچار سربراہ بھی کمیشن کا حصہ ہوں گےجن میں سے دو کا چناؤ میٹروپولیٹن کارپوریشنز، میونسپل کارپوریشنز، میونسپل کمیٹیز اور ٹاؤن کمیٹیوں کے سربراہان میں سےجبکہ دو کا چناؤ تحصیل کونسلزسے قرعہ اندازی کے ذریعے کیا جائے گا۔ ان ارکان کو ایک ایک سال کے لیے چنا جائے گا۔
اس کے علاوہ پنجاب حکومت مقامی حکومتوں اور ان کے مالی معاملات کا تجربہ رکھنے والے چار ماہرین کو بھی کمیشن میں بھرتی کرے گی۔
یہ کمیشن ہر مالی سال کے پہلے مہینے میں مقامی حکومتوں کی سالانہ مالی  کارکردگی پرمبنی ایک رپورٹ حکومت کو پیش کرنے کا ذمہ دار ہوگا۔
کون بتائے گا کہ کس نے کتنا کام کیا؟
مقامی حکومتوں کے کام کی نگرانی اور رپورٹنگ کے لیےصوبائی سطح پر ایک  'انسپکٹروٹ آف لوکل گورنمنٹ' بنایا جائے گا جس کا سربراہ انسپکٹر جنرل ہوگا۔
اسی طرح مقامی حکومتوں کے روزمرہ کے معاملات کی دیکھ بھال اور تنازعات کے حل کے لیے چھ ماہ کے اندر اندر ایک لوکل گورنمنٹ کمیشن بنایا جائے گا۔ بلدیات کا صوبائی وزیر اس کمیشن کا چئیرمین ہوگا جبکہ وزیراعلیٰ پنجاب اور حزب اختلاف کی  جانب سے اپنی اپنی جماعت کے نامزد  دو ارکان صوبائی اسمبلی اس کمیشن کے رکن ہوگے۔

اس کے علاوہ پنجاب کا سیکرٹری قانون، سیکرٹری بلدیات اور کم از کم 20 سال کا انتظامی تجربہ اور بلدیات کے متعلق وسیع علم رکھنے والے چار  ماہرین بھی اس کمیشن کے رکن ہوں گے۔
پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ کے لیے الگکمیشن
پنجاب حکومت صوبے کے ہر ضلعے میں کم از کم  پانچ افراد پر مشتمل  ایک پلاننگ بورڈ بنائے گی جس کا سربراہ متعلقہ مقامی حکومت کا چیف آفیسرہوگا جبکہ اس کا ساتھ تعمیراتی کام کا تجربہ رکھنے والا ایک ماہر انجنئیر دے گا۔ ایکٹ میں یہ واضح نہیں کہ بورڈ میں بقیہ تین یا  تین سے زیادہ افراد کون سے ہوں گے۔
ماہرین کیا کہتے ہیں؟
نئے مجوزہ بلدیاتی نظام کے خلاف ایک طرف جہاں نون لیگ کے مقامی نمائندے پنجاب بھر میں احتجاج کر رہے ہیں تو وہیں دوسری طرف ماہرین کی طرف سے بھی تحریکِ انصا ف کی حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
مقامی حکومتوں پر متعدد کتابوں کے مصنف اور سماجی تنظیم سنگت فاؤنڈیشن کے سربراہ زاہد اسلام مجوزہ بلدیاتی نظام کو  'پیچیدہ اور ناقابل عمل ' تصور کرتے ہیں۔
انہوں نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کو نیا ایکٹ بنانے کی اتنی جلدی تھی کہ اس نے ایک بھی سٹیک ہولڈر مشورہ کرنا مناسب نہیں سمجھا۔ 'میرے خیال میں مقامی حکومتوں کے نئے قانونی مسودے میں بہتری کے لیے حکومت کو متعدد ترامیم کرنا پڑیں گی اور اس کام کے لیے حکومت کو عوام، حزب اختلاف اور سول سوسائٹی سےمشورہ لینا چاہیے۔'
زاہد اسلام کے بقول مجوزہ نظام میں مقامی نمائندوں کے اختیارات، فرائض اور ذمہ داریاں نہایت واجبی اور برائے نام ہیں۔ حکومت کی طرف سے اختیارات کو صوبائی مرکز تک محدودرکھنے کی ہر ممکن کوشش کی گئی ہے۔
میٹروپولیٹین کارپوریشن لاہور کے ڈپٹی مئیر نذیر احمد سواتی کا تعلق مسلم لیگ نون سے ہے۔ ان کا شمار بھی ان منتخب نمائندوں میں ہوتا ہے جو تحریک انصاف کے نئے بلدیاتی مسودے کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔
نذیر سواتی نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ نئے بلدیاتی نظام کو متعارف کروانے کے پیچھے تحریک انصاف کا صرف ایک ہی مقصد ہے کہ صوبے بھر میں اس وقت 50 ہزار کے قریب موجود نون لیگی نمائندوں کو عہدوں سے ہٹایا جائے۔
اُن کے بقول مقامی حکومتیں جمہوریت کی نرسری ہوتی ہیں مگر پاکستان کے حکمرانوں نے اس نظام پر ہمیشہ تجربات کیے ہیں۔ جب بھی کوئی نیا حکمران آیا، اس نے اپنی مرضی کا بلدیاتی نظام لانا چاہا۔
انہوں نے مزید کہا کہ 'ہماری حکومت سے درخواست ہے کہ ہمیں پانچ سال کا دورانیہ پورا کرنے دیا جائے۔ اس کے بعد جو بھی نظام چاہتے ہیں لے آئیں۔'

شیئر: