Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مسلم لیگ ن پھر سے نوازشریف کی لائن پر مگر نشانہ حکومت

پاکستان میں اپوزیشن کی بڑی جماعت مسلم لیگ (ن) کئی ماہ کی خاموشی کے بعد اچانک پھر سے سیاسی افق پرمتحرک  ہوگئی ہے ۔ 

پارٹی پالیسی میں اس تبدیلی کا آغاز گزشتہ ہفتے اس وقت ہوا جب ن لیگ کی پارلیمانی پارٹی نے لندن میں موجود پارٹی صدرشہباز شریف کی جگہ قومی اسمبلی میں پارلیمانی لیڈر کا عہدہ خواجہ آصف کو دینے جبکہ پبلک اکاونٹس کمیٹی کی سربراہی بھی شہباز شریف  کی جگہ رانا تنویر کے حوالے کرنے کا اعلان کیا ۔ 

اگلے ہی دن پارٹی کے قائد اور سابق وزیراعظم نواز شریف سے فکری طور پر قریب سمجھے جانے والے شاہد خاقان عباسی کو سینئر نائب صدر بنانے کا اعلان کیا گیا اور پارٹی کے 16 نئے نائب صدور کو نامزد کیا گیا جن میں  نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز بھی شامل  ہیں ۔ 

قیادت کا ڈھانچہ کیا تبدیل ہوا گویا پارٹی ہی بدل گئی ۔ شاہد خاقان عباسی کے سخت بیانات (جن میں این آر او مانگنے اور دینے والوں پر لعنت بھیجی گئی تھی) اور مریم نواز کےحکومت مخالف  ٹویٹس نے واضح کر دیا کہ خاموش رہنے کا بیانیہ  اب ختم ہو چکا ہے ۔

شہباز شریف کی لائن پٹ گئی ہے

شہباز شریف کو مسلم لیگ نواز میں اسٹیبلشمنٹ کے لیے نرم گوشہ رکھنے والا سمجھا جاتا ہے ۔ الیکشن سے قبل پارٹی نے جیل میں قید  نواز شریف  کے "ووٹ کو عزت دو" کے سخت بیانیے کو اپنائے رکھا۔ مگر انتخابات کے بعد  پارٹی پالیسیوں پر شہباز شریف کے مصالحت والے بیانیے کی چھاپ نظر آئی ۔

اس سلسلے میں اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے سینئر صحافی اور سیاسی تجزیہ کار نجم سیٹھی کا کہنا تھا  کہ الیکشن کے بعد کچھ عرصہ تک شہباز شریف کی رائے پر نواز شریف  اور مریم نواز نے خاموشی اختیار کیے  رکھی مگر اس کا مثبت نتیجہ نہ نکلنے پر اب پارٹی کے اندر فیصلہ ہوا ہے  کہ  شہباز شریف کی لائن پٹ گئی ہے اور میاں صاحب (نواز شریف) کی لائن  برقرار ہے ۔

ان کا کہنا تھا کہ زیادہ تر جو بندے پارٹی میں اب اہم عہدوں پر لگائے گئے ہیں وہ نواز شریف کے قریب سمجھے جاتے ہیں ۔" یہ میاں صاحب کی ٹیم ہے۔ میاں صاحب نے پارٹی اپنے ہاتھ  لے  میں لے لی ہے"۔  نجم سیٹھی نے کہا کہ مریم نواز کی نامزدگی میاں نواز شریف کی طرف سے  نہ صرف اپنی پارٹی  بلکہ حکومت اور اس کے ساتھیوں کے لیے بھی واضح پیغام ہے ۔

اب نواز لیگ کا نشانہ پی ٹی آئی ہے

 تجزیہ کار عارف نظامی نے اردو نیوز کو بتایا کہ ان کے خیال میں  نواز شریف ہی مسلم لیگ نواز کے اصل رہنما ہیں اور شہباز شریف کا پارٹی میں کوئی کیمپ نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پہلے شاید انتظار کیا جا رہا تھا کہ نواز شریف کو ضمانت میں توسیع مل جائے گی مگر  جب ایسا نہ ہوا تو پارٹی نے فیصلہ کیا کہ اسٹینڈ لینا پڑے گا۔

 عارف نظامی نے کہا کہ شاید اب کوئی ڈیل  کی بات نہیں ہوگی بلکہ قومی اسمبلی  اجلاس میں پارٹی نے سخت رویے سے مستقبل کے لائحہ عمل کی نشاندہی کر دی ہے ۔ عارف نظامی کے مطابق یہ تاثر درست ہے کہ اب ن لیگ  اسٹیبلشمنٹ کے بجائے حکومت کو نشانہ بنا رہی ہے ۔

نواز، شہباز کا بیانیہ ایک مگر رائے مختلف

دوسری طرف ن لیگ کی سیکرٹری اطلاعات مریم اورنگزیب نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے اس تاثر کی تردید کی اور کہا کہ نواز شریف اور شہباز شریف کا بیانیہ ایک ہے۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ دونوں رہنماؤں کی رائے مختلف ہو سکتی ہے ۔  

ان کا کہنا تھا کہ نئے پارٹی عہدیداران پرانے کارکن ہیں اور ان کا نوٹیفیکشن شہباز شریف کی منظوری سے جاری کیا گیا ہے  ۔

جب ان سے کہا گیا کہ پارٹی نے ایک دم خاموشی کیوں توڑ دی ہے تو ان کا جواب تھا کہ ’خاموشی کا تاثر غلط تھا بلکہ الیکشن کے دوران اور بعد میں  پارٹی کی آواز میں فرق ہوتا ہے۔‘

 انہوں نے کہا کہ خاموشی کا تاثر شاید اس لیے ابھرا کہ میاں نواز شریف جیل چلے گئے  اور ان کے گھر میں بیگم کلثوم نواز کی وفات سے غمناک صورتحال پیدا ہو گئی تھی۔

مریم نواز کے ٹویٹر پر متحرک ہونے کے حوالے سے ن لیگ کی ترجمان کا کہنا تھا کہ والدہ کی وفات کے بعد وہ صدمے کی وجہ سے خاموش تھیں مگر اب عوام کے مسائل اتنے شدید ہو چکے ہیں کہ انہوں نے ان مسائل پر بات کرنے کا فیصلہ کیا۔

ایک سوال پر کہ کیا پارٹی اب اسٹیبلشمنٹ کے بجائے صرف حکمران تحریک انصاف کے خلاف بات کرے گی، مریم اورنگزیب نے کہا کہ عوام کے ووٹ کی عزت کی بات کی گئی تھی اب بھی عوام ہی کی مشکلات کی بات کی جا رہی ہے ۔

 

شیئر: