Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بی جے پی کی جیت سے برصغیر میں امن ہوسکتا ہے: ریٹائرڈ فوجی افسران

کہ اگر کشمیر کا مسئلہ کوئی حل کرے گا تو بی جے پی کی حکومت ہی کرے گی: جنرل ریٹائرڈ اصف
ماضی میں اہم عہدوں پر خدمات انجام دینے والے پاکستان کے متعدد سینئیر ریٹائرڈ فوجی افسران کا خیال ہے کہ انڈیا میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی کامیابی برصغیر کے لوگوں کی قسمت بدل سکتی ہے اور امن کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتی ہے۔
’اردو نیوز‘ سے بات کرتے ہوئے پاکستانی فوج کے تین ریٹائرڈ جرنیلوں، جو اپنے وقت میں اہم عہدوں پر فائز رہے، نے کہا کہ بی جے پی اس پوزیشن میں ہے کہ مسئلہ کشمیر حل کر سکے۔
 انڈین انتخابات میں وزیراعظم نریندرا مودی  کی جماعت بی جے پی اور اتحادیوں کی فتح  کے بعد پاکستان کے وزیراعظم عمران خان اپنے انڈین ہم منصب کو مبارکباد دے چکے ہیں۔
 ’اردو نیوز‘ سے بات کرتے ہوئے سابق سیکریٹری دفاع لیفٹینٹ جنرل (ریٹائرڈ) آصف یاسین ملک  کے مطابق جب بھی پاکستان اور انڈیا میں امن کی پیش رفت ہوئی وہ بی جے پی کے دور میں ہوئی۔
انہوں نےسنہ 1999کے اعلان لاہورکا حوالہ دیا جب بی جے پی سے تعلق رکھنے والے انڈین وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی دوستی بس کے ذریعے لاہور آئے تھے اور وزیراعظم نواز شریف کے ساتھ معاہدہ لاہور پر دستخط کیے تھے۔ اس کے بعد واجپائی ہی کے دور میں پاکستان کے فوجی صدر پرویز مشرف جولائی  سنہ2001 میں بھارت کے دورے پر گئے اور آگرہ میں جامع مذاکرات کیے جو ناکام رہے۔

بی جے پی سے تعلق رکھنے والے انڈین وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی دوستی بس کے زریعے لاہور آئے تھے: تصویر اے ایف پی

جنرل ریٹائرڈ آصف نے کہا ’میری رائے ہے کہ اگر کشمیر کا مسئلہ کوئی حل کرے گا تو بی جے پی کی حکومت ہی کرے گی کیونکہ وہ وفیصلے کرتے وقت پرواہ نہیں کرتی۔ کانگریس کے دور میں کبھی امن عمل کی بڑی پیش رفت نہیں ہوئی‘
انہوں نے کہا کہ ایک طاقت ور جماعت ہی مضبوط فیصلے کر سکتی ہے۔ پہلے مودی پر الیکشن سوار تھا اب طوفان گزر گیا ہے تو وہ امن عمل آگے بڑھا سکتے ہیں مگر اس کے لیے دو باتیں ضروری ہیں۔ ایک تو تعلقات ٹھیک کرنے کی نیت اور دوسرا کشمیر کے معاملے پر اندرونی ردعمل کا سامنا کرنے کی اہلیت۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ مودی کا آنا انڈیا میں اندرونی استحکام کو نقصان پہنچائے گا کیونکہ ان کی جماعت مسلمانوں اور نچلی ذات کے ہندوؤں کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کرتی۔

پاکستان اور انڈیا کے درمیان متنازع کشمیر کو منقسم کرنے والی لائن آف کنٹرول پر اکثر حالات کشیدہ رہتے ہیں: تصویر اے ایف پی

پاک فوج کے ایک اور ریٹائرڈ جنرل اعجاز اعوان بھی متفق ہیں کہ بی جے پی ہی کے دور میں ماضی میں دونوں ممالک کے معاملات پر پیش رفت ہوئی ہے اور اب بھی انڈیا میں ہندو اجارہ داری پر یقین رکھنے والی جماعت کے دور میں کشمیر اور دیگر امور پر پیش رفت کے امکانات زیادہ ہوں گے۔
جنرل ریٹائرڈ اعجازاعوان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی فوج اور وزیراعظم انڈیا کے ساتھ مذاکرات چاہتے ہیں تاکہ کشمیر، سرکریک اور سیاچن کے مسائل حل کیے جا سکیں۔ ایک سوال پر کہ پاکستان نے پہلی بار دہشت گردی پر بات کرنے پر آمادگی ظاہر کی ہے، انہوں نے کہا دہشت گردی کی وجوہات پر بھی بات ہونی چاہیے۔
 تاہم انہوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ مودی کے دوسرے دور میں کشمیر میں بھارتی مظالم میں مزید اضافہ ہو گا۔
ان کا کہنا تھا کہ مودی کی فتح کے بعد افغانستان میں انڈین مداخلت کے عزائم کی حوصلہ افزائی ہو گی اور انڈیا چابہار بندرگاہ پر جاری انڈیا ایران مشترکہ منصوبے کے ذریعے افغانستان میں اپنے مقاصد آگے بڑھائے گا۔

واجپائی ہی کے دور میں پاکستان کے فوجی صدر پرویز مشرف جولائی 2001 میں بھارت کے دورے پر گئے

پاک فوج کے سابق ترجمان اور جنرل مشرف دور میں آگرہ مذاکرات میں شرکت کرنے والے ریٹائرڈ میجر جنرل راشد قریشی بھی یہ سمجھتے ہیں کہ اگر بی جے پی کا رہنما کوئی سیاسی بصیرت والا رہنما ہو تو اس کے دور میں پاک انڈیا دوستی ہو سکتی ہے اور اگر دوستی نہ بھی ہو تو کم از کم تعلقات تو قائم ہو سکتے ہیں تاہم وہ سمجھتے ہیں کہ نریندرا مودی میں بصیرت نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ مودی کے دور میں مسئلہ کشمیر حل نہیں ہو گا کیونکہ انڈیا کی سوچی سمجھی پالیسی ہے کہ پاکستان کے ساتھ کشمیر کے معاملے پر بات نہیں کرنی کیونکہ اس صورت میں پاکستان کے موقف کی فتح یقینی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ آگرہ مذاکرات میں ان کی موجودگی میں تمام معاملات طے ہو گئے تھے اور دونوں ممالک نے طے کر لیا تھا کہ کشمیر کا مسئلہ دونوں ممالک مل کر حل کر لیں گے اور اس پر ابتدائی کام بھی ہو گیا تھا۔


ریٹائرڈ میجر جنرل راشد قریشی یہ سمجھتے ہیں کہ مودی کے دور میں مسئلہ کشمیر حل نہیں ہو گا

ریٹائرڈ میجر جنرل راشد قریشی کے مطابق ’میں بھی پاکستانی وفد میں بطور میجرجنرل اور صدارتی ترجمان شامل تھا۔ انڈین وفد کی قیادت واجپائی جبکہ پاکستانی وفد کی سربراہی جنرل مشرف کر رہے تھے۔ دونوں وفود نے تمام معاملات پر اتفاق رائے کے بعد مشترکہ پریس کانفرنس کا فیصلہ کیا، واجپائی اور مشرف کی کرسیاں لگ گئیں اور میڈیا بھی آ گیا مگر انڈین وفد پریس کانفرنس میں نہیں آیا۔‘ انہوں نے کہا کہ انڈیا کے مکرنے کی وجہ یہ تھی کہ انہیں یقین ہو گیا تھا کہ کشمیر پر پاکستان کی منطق کی فتح ہو رہی تھی۔‘
جنرل ریٹائرڈ راشد قریشی کے مطابق انڈین اسٹیبلشمنٹ کشمیر کے مسئلے کا حل نہیں چاہتی۔
یاد رہے کہ چند ہفتے قبل پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے بھی کہا تھا کہ مودی کی فتح سے امن مذاکرات کے امکانات روشن ہو جائیں گے۔ غیرملکی صحافیوں سے گفتگو میں عمران خان کا کہنا تھا کہ کانگریس اقتدار میں آئی تو وہ بی جے پی کے خوف سے مذاکرات سے ہچکچائے گی، بی جے پی الیکشن جیتی تو مسئلہ کشمیر پربھی مذاکرات کا امکان ہے۔

شیئر: