Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اسسٹنٹ کمشنر پہاڑپور نے سائلہ کی بیٹی کا سکول میں داخلہ کروا دیا

خاتون سرکاری دستاویزات میں اپنی اراضی کم ظاہر کیے جانے کی شکایت لے کر آئی تھیں (فوٹو: اسسٹنٹ کمشنر آفس)
خیبرپختونخوا کے ضلع ڈیرہ اسماعیل خان کے ضلع پہاڑپور میں اسسٹنٹ کمشنر ڈاکٹر حامد صدیق نے اراضی سے متعلق شکایت لے کر آنے والی خاتون کی چھ سالہ بیٹی کا سکول میں داخلہ کرا دیا ہے۔
ڈاکٹر حامد صدیق کے مطابق میمونہ کی والدہ سرکاری دستاویزات میں اپنی اراضی کم ظاہر کیے جانے کی شکایت لے کر ان کے پاس آئی تھیں جہاں میمونہ نے دوران گفتگو بتایا کہ وہ سکول نہیں جاتی۔
پہاڑپور کو حال ہی میں ضلع کا درجہ دیا گیا ہے جبکہ اس سے قبل یہ علاقہ ضلع ڈیرہ اسماعیل خان میں سب ڈویژن کے طور پر جانا جاتا تھا۔
ڈاکٹر حامد صدیق رواں برس اس علاقے میں اسسٹنٹ کمشنر کے طور پر تعینات ہوئے ہیں۔ اس سے قبل وہ ضلع شانگلہ میں تعیناتی کے دوران کافی مقبول رہے۔
ڈاکٹر حامد صدیق اردو نیوز کو بتایا کہ ’دفتر کا دروازہ اس دن بھی معمول کے مطابق کُھلا تھا۔ ایک ماں اپنی چھ سالہ بیٹی میمونہ کے ہمراہ اراضی پر مبینہ قبضے سے متعلق فریاد لے کر آئی۔ خاتون نے بتایا کہ خدشہ ہے کہ کسی نے ان کی زمین پر قبضہ کر رکھا ہے اور وہ ریکارڈ کی درستی چاہتی ہیں۔‘
اسسٹنٹ کمشنر کے دفتر میں دیگر سائلین کے ساتھ وہ اپنی بیٹی کا ہاتھ پکڑے موجود تھیں۔ اسسٹنٹ کمشنر کے ساتھ گفتگو کے دوران انہوں نے یہ بھی بتایا کہ ان کے شوہر محمد وسیم مزدور ہیں اور اکثر کام نہ ملنے کے باعث گھر کے حالات خراب رہتے ہیں۔
خاتون کے شوہر محمد وسیم بتاتے ہیں کہ ’میری اہلیہ اراضی کی فریاد کے ساتھ ساتھ میرے لیے روزگار کی تلاش میں وہاں پہنچی تھیں۔‘
ڈاکٹر حامد صدیق نے خاتون کو سُننے کے بعد محمد وسیم کے لیے خود سی وی تیار کی اور اسے مقامی سطح پر جان پہچان رکھنے والے افراد اور صنعت کاروں کو بھیج دیا۔
ڈاکٹر حامد صدیق کہتے ہیں کہ ’میں نے محمد وسیم کی تفصیلات اس امید کے ساتھ مقامی انڈسٹری سے منسلک لوگوں کو بھیجیں کہ کہیں نہ کہیں مزدوری یا مستقل کام کی کوئی صورت نکل آئے گی۔‘

اسسٹنٹ کمشنر ڈاکٹر حامد صدیق نے بتایا کہ بچوں کو تعلیم دلوانے کے لیے مہمات چلائی جاتی ہیں (فوٹو: اسسٹنٹ کمشنر آفس)

چھ برس کی میمونہ اپنی والدہ کے ساتھ خاموش بیٹھی یہ سب سُن رہی تھی۔ ڈاکٹر حامد صدیق نے بتایا کہ وہ عموماً دفتر میں آنے والے بچوں سے بات ضرور کرتے ہیں۔ انہوں نے میمونہ سے اس کا نام اور عمر پوچھی تو بچی نے پُھرتی سے جواب دیا۔
’جب میں نے میمونہ سے سوال کیا کہ وہ کس کلاس میں پڑھتی ہے تو میمونہ نے ایک لمحے کے توقف کے بعد حسرت بھرے انداز میں بتایا کہ وہ سکول نہیں جاتی۔‘
میمونہ کے اس جواب نے کمرے کی فضا بدل دی۔ تصدیق پر معلوم ہوا کہ محمد وسیم کی آمدن اتنی نہیں کہ وہ سکول کی فیس، یونیفارم اور کتابوں کا خرچ برداشت کر سکیں جبکہ سرکاری سکول گھر سے کافی دور ہے۔
محمد وسیم نے بتایا کہ ’میرے دو بچے ہیں۔ ایک بیٹا دو سال کا ہے جبکہ چھ سال کی میمونہ کو میں اکیلے اتنے فاصلے پر قائم سرکاری سکول نہیں بھیج سکتا۔‘
ڈاکٹر حامد صدیق کے مطابق انہوں نے اسی وقت میمونہ کے گھر کے قریب واقع ایک نجی سکول سے رابطہ کیا۔ سکول انتظامیہ نے فوری طور پر میمونہ کو داخلہ دینے پر رضامندی ظاہر کی۔
انہوں نے تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ ’ہم نے یونیفارم، کتابوں اور دیگر سٹیشنری کے اخراجات بھی موقع پر ہی میمونہ کی والدہ کو دے دیے اور انہیں بتا دیا کہ اب میمونہ کے تمام تعلیمی اخراجات اسسٹنٹ کمشنر آفس پہاڑپور برداشت کر رہا ہے۔ نہ صرف سکول بلکہ غیر نصابی سرگرمیوں میں بھی اس کی حوصلہ افزائی کی جائے گی تاکہ بچی کسی احساس محرومی کے بغیر تعلیم حاصل کر سکے۔‘

محمد وسیم بتاتے ہیں کہ اب ان کی چھ سالہ بیٹی ایک نجی سکول میں پلے گروپ کی طالبہ ہے (فوٹو: اسسٹنٹ کمشنر آفس)

پہاڑپور میں زیادہ تر آبادی کاشت کاری سے منسلک ہے۔ لوگوں کا زیادہ تر ذریعہ معاش آم کے باغات اور گنے کی فصل سے جڑا ہوا ہے۔ ڈاکٹر حامد صدیق کے مطابق مقامی سطح پر اکثر لوگ اپنے بچوں سے کھیتی باڑی کرواتے ہیں۔
’اکثر والدین بچوں کو کمائی کا ذریعہ بھی سمجھتے ہیں۔ ان کے نزدیک سکول جانا وقت کا ضیاع ہے کیونکہ یہ سمجھتے ہیں کہ سکول کے اوقات کار کے دوران بچہ کچھ کما سکتا ہے۔ ہم انہیں یہ بھی بتا رہے ہیں کہ بچوں سے مزدوری کروانا غیر قانونی ہے اور تعلیم ان کا بنیادی حق ہے۔‘
اسسٹنٹ کمشنر ڈاکٹر حامد صدیق نے مزید بتایا کہ بچوں کو تعلیم دلوانے کے لیے مہمات چلائی جاتی ہیں اور سرکاری سکولوں میں مفت داخلہ دیا جاتا ہے حتیٰ کہ یونیفارم کے معاملے میں بھی نرمی رکھی گئی ہے تاکہ غربت تعلیم کی راہ میں رکاوٹ نہ بنے۔
محمد وسیم بتاتے ہیں کہ اب ان کی چھ سالہ بیٹی ایک نجی سکول میں پلے گروپ کی طالبہ ہے اور گزشتہ پانچ دن سے سکول جا رہی ہے۔ ’بیٹی کو سکول میں داخل کرا دیا گیا ہے اور میرے لیے بھی کام کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ یہ ہمارے لیے اُمید افزا بات ہے۔‘

 

شیئر: