Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

جنوب مشرقی ایشیائی ممالک میں روزگار کی خواہش پاکستانیوں کے لیے ڈراؤنا خواب کیسے بنتی ہے؟

پاکستان سے نوجوان بہتر روزگار کی تلاش میں اکثر ایجنٹوں کے جھانسے میں آ کر جنوب مشرقی ایشیائی ممالک کمبوڈیا، تھائی لینڈ، میانمار اور لاؤس کا رُخ کرتے ہیں لیکن وہاں پہنچ کر ایک نئی مشکل میں پھنس جاتے ہیں۔ 
ایسے ہی لوگوں میں ضلع راجن پور کے احتشام احمد (فرضی نام) شامل بھی ہیں جو کمبوڈیا میں ایک برس گزارنے کے بعد گزشتہ ماہ ہی لوٹے ہیں۔
شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر انہوں نے اردو نیوز کو بتایا کہ وہ ایک برس سے زائد کا عرصہ کمبوڈیا کے تین صوبوں میں گزارا اور بے انتہا مشکلات کا سامنا کیا۔
ان کے مطابق ’یہ تاثر درست نہیں کہ پاکستانی وہاں صرف ٹریپ ہو کر جاتے ہیں، بلکہ اکثریت بہتر روزگار کی تلاش میں اپنی مرضی سے جاتی ہے اور جاتے ہی کمپنی آپ کا پاسپورٹ اور دیگر سفری دستاویزات قبضے میں لے لیتی ہے۔‘
انہوں نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ’کمپنی کے مقررہ اہداف اگر پورے نہ ہونے پر سزا پوری ٹیم کو دی جاتی ہے۔ ابتدا میں کام کے اوقات بڑھا دیے جاتے ہیں، بعد ازاں خوراک میں کمی کر دی جاتی ہے اور پھر شدید ٹارچر اور الیکٹرک شاکس تک پہنچتی ہے۔‘
احتشام کی طرح اور بھی بہت سے پاکستانی نوجوان وہاں گئے جن میں سے کچھ ایسے بھی ہیں جنہوں نے کمپنی کے اہداف پورا کر کے معاہدے کی شرائط مکمل کیں اور کچھ عرصہ کام کرنے کے بعد خود پاکستان واپس آ گئے جبکہ بعض کو پاکستان کی حکومت مقامی حکام کے تعاون سے واپس لائی۔
احتشام احمد کے مطابق ’جیسے ہی کوئی شخص وہاں کام کے لیے ایئرپورٹ پر اترتا ہے، کمپنی کی گاڑی لینے آ جاتی ہے، پاسپورٹ لے لیا اور اسے کمپنی کے مخصوص علاقے میں منتقل کر دیا جاتا ہے۔‘
اُن کا کہنا تھا کہ ’زیادہ تر افراد اپنی مرضی سے بہتر آمدن کی امید میں وہاں پہنچتے ہیں۔ پاکستان میں ایجنٹ چھ سے آٹھ لاکھ روپے لے کر زیادہ تر اسلام آباد اور لاہور ایئرپورٹس سے، ورک یا انڈیپنڈنٹ ویزے پر بھجواتے ہیں۔‘
ان کے بقول ’ویت نام، تھائی لینڈ، کمبوڈیا، لاؤس اور ملحقہ علاقوں میں بڑی تعداد میں چینی کمپنیوں نے سرمایہ کاری کر رکھی ہے جو غیرملکی شہریوں کو مختلف جعل سازی پر مبنی سکیمز میں ملوث کرتی ہیں۔‘
انہوں نے یہ بھی بتایا کہ حالیہ عرصے میں ان ممالک میں ایسی کمپنیوں کے خلاف کریک ڈاؤن بھی ہوا ہے، تاہم خاص طور پر کمبوڈیا میں حکومت کی سرپرستی میں اس نوعیت کے کاروبار چلتے ہیں۔
ان کمپنیوں کے دفاتر اکثر کیسینو، یونیورسٹی یا دیگر عمارتوں کے نام پر رجسٹرڈ ہوتے ہیں، تاہم حقیقت میں آن لائن سکیمنگ، ٹائپنگ پروجیکٹس، کالنگ پروجیکٹس اور آئی ٹی سے متعلق سرگرمیاں جاری ہوتی ہیں۔

کئی بار غیر قانونی مراکز کے خلاف کارروائیاں بھی کی جا چکی ہیں: فائل فوٹو اے ایف پی

انہوں نے بتایا کہ ’زیادہ تر کمپنیاں رہائش اور کھانے کے ساتھ کم از کم 900 ڈالر ماہانہ تنخواہ دیتی ہیں، تاہم یہ کمپنیاں زیادہ تر 30 سال سے کم عمر نوجوانوں کو ترجیح دیتی ہیں، جبکہ 30 سال سے زائد عمر کے افراد مشکل ہی بھرتی کیے جاتے ہیں۔‘
ان کے مطابق ’ٹکٹ اور ویزے کے علاوہ مجموعی طور پر تقریباً 1300 ڈالر خرچ آتا ہے، جس میں سے 300 ڈالر پاکستانی ایئرپورٹس پر مبینہ طور پر رشوت کی مد میں اور ایک ہزار ڈالر متعلقہ ممالک کے ایئرپورٹس پر سیٹنگ کے لیے دیے جاتے ہیں۔‘
’زیادہ تر کمپنیاں چھ ماہ سے ایک سال کا کنٹریکٹ کرتی ہیں۔ اگر کوئی شخص معاہدہ مکمل ہونے سے قبل واپس جانا چاہے تو اسے تقریباً 2200 ڈالر ادا کرنا پڑتے ہیں۔ ادائیگی نہ کرنے کی صورت میں کام جاری رکھنے پر مجبور کیا جاتا ہے اور تشدد کا سامنا بنایا جاتا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ دورانِ کام موبائل کے استعمال، چوری کرنے یا کسی قسم کی معلومات لیک کرنے پر بھی سخت ٹارچر کیا جاتا ہے۔

مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث گینگز دھوکہ دہی اور انسانی سمگلنگ کے ذریعے افراد کو ٹارگٹ کرتے ہیں: فائل فوٹو اے ایف پی 

احتشام احمد کے مطابق انہوں نے ایک سال سے زائد عرصے میں بہت کم ایسے پاکستانی دیکھے جو اپنی مرضی کے خلاف وہاں موجود ہوں، تاہم اردو نیوز کی سابقہ رپورٹس میں ایسے پاکستانیوں سے بھی گفتگو کی گئی تھی جو مجبوری کے تحت وہاں کام کر رہے تھے اور شدید تشدد کا نشانہ بنے۔
دفتر خارجہ اور امیگریشن حکام بھی اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ ان علاقوں میں غیر ملکیوں کے ساتھ شدید تشدد کے واقعات پیش آتے ہیں اور زیادہ تر غیر ملکیوں کو دھوکے سے وہاں بلایا جاتا ہے۔
احتشام کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’یہ کمپنیاں غیرملکی شہریوں کو ٹائپنگ اور کالنگ جیسے پروجیکٹس دیتی ہیں اور بالخصوص انڈین مارکیٹ کو ہدف بنا کر اوورسیز انڈینز اور انڈیا میں مقیم افراد کو کالز کے ذریعے مختلف سکیموں میں کے لیے قائل کرتی ہیں۔‘
’کمبوڈیا کے کچھ مخصوص شہروں، جیسے پوئیپٹ، پائلن، سائم ریپ، کمپونگ تھوم اور کمپوٹ، ان سرگرمیوں کے لیے خاص طور پر جانے جاتے ہیں۔‘
احتشام احمد پاکستان آنے میں کیسے کامیاب رہے؟
اس حوالے سے ان کا کہنا ہے کہ ’کوئی شخص اگر کمپنی کے اہداف پورے کر لے اور چھ ماہ یا ایک سال کے معاہدے کو مکمل کر لے تو اسے واپس جانے کی اجازت مل جاتی ہے۔‘
اُنہوں نے بھی ایک سال سے زائد عرصہ کام کرنے کے بعد گزشتہ ماہ پاکستان واپسی اختیار کی۔
واضح رہے کہ احتشام احمد نے پاکستان سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی ہے اور وہ آئی ٹی اور انگریزی زبان میں مہارت رکھتے ہیں۔
ایف آئی اے غیر قانونی طور پر بیرونِ ملک جانے والے شہریوں کو کیسے روکتی ہے؟

پاکستان میں گذشتہ کچھ عرصے سے ایئر پورٹس بھی مسافروں کی دستاویزی جانچ پڑتال میں اضافہ ہوا ہے: فوٹو اے ایف پی

ایف آئی اے کی ترجمان کی جانب سے میڈیا کے ساتھ ایک آگاہی ویڈیو شیئر کی گئی ہے، جس میں ڈپٹی ڈائریکٹر اینٹی ہیومن سمگلنگ ڈائریکٹوریٹ اسلام آباد قمر زمان کا کہنا ہے کہ ’ہیومن سمگلرز مختلف ممالک کی ویزا پالیسیز/رجیمز کا فائدہ اٹھاتے ہوئے لوگوں کو اپنے جال میں پھنساتے ہیں۔‘
ان کے مطابق جنوب مشرقی ایشیا کے مختلف  ممالک، جن میں کمبوڈیا، تھائی لینڈ، میانمار وغیرہ شامل ہیں، کی ویزا رجیمز کو دیکھتے ہوئے مختلف ممالک، بالخصوص پاکستان، کے شہریوں کو یہ لالچ دیا جاتا ہے کہ انہیں وہاں آئی ٹی کمپنیوں میں اچھی نوکریاں فراہم کی جائیں گی۔
ایف آئی اے نے حالیہ عرصے میں پاکستان میں درجنوں ہیومن سمگلرز کو گرفتار بھی کیا ہے اور ایئرپورٹس پر نگرانی اور سختی میں بھی اضافہ کیا گیا ہے، جس کے نتیجے میں غیر قانونی امیگریشن میں کسی حد تک کمی ضرور آئی ہے۔
پاکستانی شہری ان ممالک تک کیسے پہنچتے ہیں؟

 گینگز ہزاروں کی تعداد میں لوگوں کو دوسرے ممالک سے انٹرنیٹ پر دھوکہ دے کر بلاتے ہیں اور پھر ان سے جبری طور پر مشقت پر مجبور کیا گیا: فائل فوٹو اے ایف پی

غیر قانونی امیگریشن کی روک تھام کے لیے کام کرنے والے ڈپلومیٹک اینڈ امیگریشن لاز کے ایکسپرٹ میجر (ر) بیرسٹر ساجد مجید کا کہنا ہے کہ ملک میں غیرقانونی امیگریشن روکنے کے لیے ایف آئی اے اور دیگر اداروں نے سخت اقدامات کیے ہیں، جس کے باعث اس طرح بیرونِ ملک جانے والوں کا تقریباً نصف سلسلہ رُک گیا ہے، تاہم کچھ خامیاں اب بھی موجود ہیں جن کے ذریعے لوگ ان ممالک کا سفر کر رہے ہیں۔
ساجد مجید کے مطابق ’ جانے والے شہریوں کا عموماً ایک سے دو سال کا معاہدہ ہوتا ہے، جس کے دوران کمپنی کے طے شدہ ایس او پیز کے مطابق جتنا وہ کما سکیں کماتے ہیں، اور اہداف پورا نہ ہونے کی صورت میں انہیں شدید تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ اگرچہ یہ افراد ایک سال تک پیسے کما کر اپنے گھر والوں کو بھیجتے رہتے ہیں لیکن عملی طور پر وہ وہاں قید کی زندگی گزار رہے ہوتے ہیں، کیونکہ کنٹریکٹ کی شرائط مکمل کیے بغیر وہ پاکستان واپس نہیں آ سکتے۔
ساجد مجید نے یہ بھی بتایا کہ ’جو پاکستانی وہاں وقت گزارنے کے بعد کامیابی سے واپس آ جاتے ہیں، وہ باصلاحیت ہوتے ہیں کیونکہ وہاں سے واپس آنا آسان نہیں ہے۔ تاہم، یہاں پہنچ کر وہ آن لائن ٹریڈنگ یا کال سینٹرز کے ذریعے نوجوانوں کو بھرتی کر کے اسی نوعیت کا کاروبار شروع کر دیتے ہیں۔‘
انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ ’ایف آئی اے کی استعدادِ کار میں اضافہ کرنا ضروری ہے، کیونکہ بہت سے افراد ایئرپورٹس پر مبینہ طور پر رشوت دے کر بیرونِ ملک جانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’حکومت کو چاہیے کہ ایئرپورٹس پر پڑھے لکھے، تربیت یافتہ اور تجربہ کار افسر تعینات کیے جائیں جو اس نوعیت کی جاب آفرز یا مشتبہ اسکیموں میں پھنسنے والے شہریوں کی شناخت کر سکیں اور انہیں بروقت روک سکیں۔‘

کچھ واقعات میں لوگوں کو دھوکے کے ذریعے بلا کر قید کر لیا جاتا تھا اور پھر ان کے گھروالوں سے تاوان طلب کیا جاتا: فائل فوٹو اے ایف پی

دوسری جانب کراچی میں مقیم امیگریشن وکیل اور ماہر یاسر شمس کا کہنا ہے کہ ’پاکستان میں جب تک نوجوانوں کے لیے روزگار کے مواقع فراہم نہیں کیے جاتے نوجوان روزگار کی تلاش میں بیرونِ ملک جانے پر مجبور رہیں گے اور اس طرح کے جال میں پھنسنے کا خطرہ بھی برقرار رہے گا۔‘
ان کے مطابق ان ممالک میں جانے والے زیادہ تر پاکستانیوں کا تعلق پنجاب سے ہوتا ہے، اور ایجنٹ بالخصوص انہی علاقوں کو ٹارگٹ کر کے نوجوانوں کو اپنے جال میں پھنساتے ہیں۔
میڈیا میں کئی ایسے واقعات سامنے آئے ہیں جن میں پاکستان، انڈیا اور بنگلہ دیش سے ہزاروں نوجوان بہتر روزگار کی تلاش میں یا ایجنٹوں کے جھانسے میں آکر اپنی مرضی سے جنوب مشرقی ایشیائی ممالک کمبوڈیا، تھائی لینڈ، میانمار اور لاؤس کا رُخ کرتے ہیں تاہم بعد ازاں ان کے ساتھ غیر انسانی سلوک کیا جاتا ہے اور اُن کی واپسی بھی مشکل ہو جاتی ہے۔
اسی تناظر میں، حالیہ عرصے میں ان ممالک نے ان نجی کمپنیوں کے خلاف کریک ڈاؤن بھی کیا ہے جو غیر قانونی طور پر غیر ملکی شہریوں کو پناہ دیتی ہیں۔

شیئر: