Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’امریکہ چین کی دفاعی افواج کی طاقت کو کم تر نہ سمجھے‘

قومی سلامتی کے مسائل پر چین کی افواج کے عزم کو کم تر نہ سمجھا جائے۔ تصویر: اے ایف پی
چین نے امریکہ کو خبردار کیا ہے کہ وہ چین کی دفاعی افواج کو کم تر نہ سمجھے۔
چین کے وزیر دفاع جنرل وی فنگی نے جمعہ کو امریکہ کو انتباہ کرتے ہوئے کہا کہ قومی سلامتی اورعلاقائی سالمیت کے مسائل پر چین کی افواج کے عزم، قابلیت اور رضامندی کو حقیر نہ سمجھا جائے۔
ضبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق سنگاپور میں جاری سیکیورٹی فورم کے اجلاس کے موقع پر امریکی قائم مقام دفاعی سیکرٹری پیٹرک شانہان اور چینی وزیر دفاع جنرل وی فنگی کی بیس منٹ کی ملاقات ہوئی جس میں باہمی دلچسپی کے امور پر تبادلہ خیال کیا۔
چینی وزارت دفاع کے مطابق ملاقات کے دوران باہمی تشویش کے مسائل بالخصوص تائیوان کے مسئلے پرامریکہ اور چین کے مابین اتفاق رائے ہوا ہے۔
ویسے تو تائیوان، چین سے 1949 میں علیحدہ ہو گیا تھا اور تب سے بطورایک خودمختارریاست قائم ہے لیکن چین ابھی بھی اس کو اپنا حصی سمجھتا ہے اور اس کے الحاق کے لیے کوشاں ہے۔ جبکہ امریکہ چین کے اس مؤقف کو قبول نہیں کرتا اور تائیوان کو ایک خودمختار ریاست ہی سمجھتا ہے۔

چین کو امریکہ کے جنگی جہازوں کا تائیوان کی سمندری حدود میں سے گزرنے پر شدید اختلاف ہے۔ تصویر: اے ایف پی

چین کو امریکہ کے جنگی جہازوں کا تائیوان کی سمندری حدود میں سے گزرنے پر شدید اختلاف ہے، جن پر چین اپنا حق سمجھتا ہے۔
ملاقات کے دوران چینی وزیر دفاع نے امریکہ کی جانب سے اس معاملے پر منفی الفاظ اور کاروائیوں کے سلسلے کی طرف بھی توجہ دلائی اور باور کرایا کہ چین امریکہ کے اس اقدام کے بالکل خلاف ہے۔
امریکی قائم مقام دفاعی سیکرٹری پیٹرک شانہان کے ترجمان کا کہنا تھا کہ دونوں رہنماؤں کے مابین ہونے والی ملاقات تعمیری اور فائدہ مند تھی۔ ترجمان کا کہنا تھا کہ دونوں رہنماؤں نے چین اور امریکہ کے درمیان عسکری تعلقات بڑھانے کے حوالے سے تبادلہ خیال کیا تاکہ غلط فہمیوں سے پیدا ہونے والے خطرات کو کم کیا جا سکے۔
امریکہ، بیجنگ کے ساؤت چائینا سمندر میں عسکریت پسندی کے سخت مخالف ہے اور چین کے اس حوالےسے اقدامات کو ناکام بنانے کی کوشش بھی کرتا رہا ہے۔
سنگاپور میں مقیم ماہر بین الاقوامی امور شون ہو نے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ آئندہ دنوں میں چین اور امریکہ کے درمیان مزید مقابلہ دیکھنے میں آئے گا، روایتی شعبوں میں ہی نہیں بلکہ ٹیکنالوجی کے میدان میں بھی۔

شیئر: