Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پگاڑا بھٹو جیسی پوزیشن چاہتے تھے

پگاڑا کا ایک تضاد پیپلزپارٹی کے ساتھ تھا، دوسرا اسٹیبلشمنٹ کی حامی قوتوں کے ساتھ۔ فوٹو ٹویٹر 
تین نسلوں تک حکمرانوں کے خلاف علم بغاوت بلند رکھنے والے پیر پگاڑا اسٹیبلشمنٹ کے حامی کیسے ہوئے؟
بقول ایک محقق کے ’حر پاکستان کے وہ شہری ہیں جن کی نسلیں سرکاری پہرے میں کانٹے دار باڑوں والی بستیوں میں پیدا اور جوان ہوئیں۔ ان میں سے کئی حر آج بھی ہیں جنہوں نے پاکستان کا پرچم پہلی بار باڑوں والی جیلوں سے دیکھا تھا۔ 
حر تحریک کا آخری معرکہ
 حر تحریک کا آخری معرکہ 1943 میں ہوا جب چھٹے پیر پگاڑا صبغت اللہ شاہ راشدی نے برطانوی حکومت کے خلاف اعلان جنگ کیا، انھیں گرفتار کر لیا گیا۔
ردعمل میں ان کے مریدوں نے حر تحریک کے نام سے گوریلا جنگ شروع کر دی۔ برطانوی راج نے انہیں سزائے موت دے دی اور مرشد کی گدی بھی ختم کر دی۔ خاندان کے بزرگوں نے دو بیٹوں پیر سکندر شاہ اور نادر شاہ کو تعلیم کے بہانے پہلے علی گڑھ اور بعد میں لندن جلا وطن کر دیا۔
برطانوی راج نے وقت کے کلیکٹر حیدر آباد محمد بخش کے ذریعے اپنے کسی حامی کو سجادہ نشین بنانے کے لیے سیاسی انجنیئرنگ کی ناکام کوشش کی، کہا جاتا ہے کہ وہ شخص پیر علی محمد راشدی تھے۔ 
قیام پاکستان کے بعد وزیراعظم لیاقت علی خان لندن گئے تو انہوں نے دونوں بھائیوں سے ملاقات کی اور ان کی گدی بحال کرنے کی یقین دہانی کرائی لیکن گدی 1952 میں بحال ہو سکی۔ ضبط شدہ جائیدادیں واپس کی گئیں۔ سکندر شاہ کی پگاڑا ہفتم کے طور پر تاج پوشی ہوئی۔ 

صدارتی الیکشن میں فاطمہ جناح کے مقابلے میں پگاڑا نے ایوب خان کا ساتھ دیا۔
صدارتی الیکشن میں فاطمہ جناح کے مقابلے میں پگاڑا نے ایوب خان کا ساتھ دیا۔

مریدوں میں یہ قصے بھی چلے کہ برطانیہ نے کسی اور کو بادشاہ پیر کا بیٹا بنا کر بھیجا ہے۔ بہرحال پیرپگاڑا کے ہمراہ بھیجے گئے ان کے اتالیق علی بخش جونیجو اور دیگر نے تصدیق کی یہ وہی بچے ہیں جنہیں انگریز ساتھ لے کر گئے تھے۔
پگاڑا کی حر جماعت نے 1965 کی پاک بھارت جنگ میں راجستھان سیکٹر پر پاکستانی فوج کا ساتھ دیا۔ حر جماعت آج بھی ایک ریزرو فورس تصور کی جاتی ہے۔ 
جنرل ایوب خان کے مقابلے میں بانی پاکستان محمد علی جناح کی ہمشیرہ فاطمہ جناح نے مہم چلائی اور صدارتی الیکشن لڑا تو پیر پگاڑا نے ایوب خان کا ساتھ دیا۔
1970 کے تاریخی انتخابات میں پگاڑا نے مسلم لیگ قیوم کے ٹکٹ پر حصہ لیا لیکن ذوالفقار علی بھٹو کی لہر کے آگے بری طرح ہار گئے۔ سندھ اور پنجاب میں پیپلز پارٹی جیتی تو پگاڑا نے مشرقی پاکستان سے جیتنے والی شیخ مجیب کی عوامی لیگ میں شمولیت اختیار کی لیکن جیسے ہی مشرقی پاکستان میں فوجی آپریشن شروع ہوا وہ اس سے الگ ہو گئے۔
پیر پگاڑا نے کسی بھی حکومت کی مخالفت نہیں کی سوائے ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کے، پگاڑا دو طرح سے بھٹو کے حریف تھے۔ دونوں کا سیاسی بیس سندھ تھا۔ دونوں اسلام آباد میں اقتدار حاصل کرنے کے لیے ایک دوسرے سے مقابلے میں تھے۔
بھٹو کو پاپولسٹ حمایت حاصل تھی جس سے ان کے پاس اضافی نمبر تھے۔ لہٰذا ان کی خاندانی دیرینہ دوستی سیاسی دشمنی میں بدل گئی۔ ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کے خلاف ولی خان اوردائیں بازو کی اپوزیشن جماعتوں نے یو ڈی ایف بنایا تو اس نئے اتحاد کی سربراہی پیر پگاڑا کو سونپی گئی۔
بھٹو پر انتخابی مہم کے دوران پگاڑا کے سیاسی قلعے سانگھڑ میں قاتلانہ حملہ ہوا تھا۔ بعد میں بھٹو حکومت کے خلاف سرگرم ہونے پر وزیراعلیٰ سندھ ممتاز بھٹو نے مریدوں اور حروں کو انتقامی کارروائیوں کا نشانہ بنایا۔ ایک واقعے میں پگاڑا کے سات حروں کو قتل کر دیا گیا۔ 

ضیاالحق نے پگاڑا کو پیچھے دھکیلنے کے لیے چوہدری ظہور الٰہی کی قیادت میں ایک گروپ بنایا۔
ضیاالحق نے پگاڑا کو پیچھے دھکیلنے کے لیے چوہدری ظہور الٰہی کی قیادت میں ایک گروپ بنایا۔

بھٹو کے خلاف پاکستان قومی اتحاد بنانے میں انہوں نے مرکزی کردار ادا کیا۔ بعد میں اس اتحاد نے انتخابات میں مبینہ دھاندلیوں کے خلاف پیر پگاڑا کی قیادت میں تحریک چلائی جس نے جنرل ضیاالحق کے مارشل لا کی راہ ہموار کی۔
مارشل لا حکومت کو سیاسی حمایت کی ضرورت پڑی تو جنرل ضیا نے میوزیکل چیئر کا سلسلہ شروع کیا۔ ولی خان، غلام مصطفیٰ جتوئی اور پیر پگاڑا کو وزارت عظمیٰ کی پیشکش کی۔ جتوئی بھٹو خاندان کو اعتماد میں لینا چاہتے تھے جبکہ ضیا پیپلزپارٹی کو باہر رکھنا چاہتے تھے۔
پگاڑا پرامید تھے لیکن ایم آر ڈی کی تحریک نے ان کا راستہ روک لیا۔ ایک بار پھر پیپلز پارٹی اور بھٹو خاندان کی وجہ سے وہ ملک کا اعلیٰ ترین عہدہ حاصل کرنے سے محروم رہے۔ 
ایم آر ڈی تحریک 
سندھ میں دو بڑی سیاسی تحریکیں چلیں، ایک ون یونٹ کے خلاف اور دوسری ایم آر ڈی کی تحریک، پگاڑا دونوں کا حصہ نہیں بنے۔ انہوں نے ایم آر ڈی تحریک کی مخالفت کی۔ ضیا دور میں ان کی فوجیوں کے ساتھ نیاز مندی مضبوط ہوئی۔ دراصل پگاڑا خود سویلین سیٹ اپ میں کسی بڑے عہدے کے خواہش مند تھے۔
1985 کے غیر جماعتی انتخابات کے ذریعے جنرل ضیا نے سویلین اور سیاستدانوں کو بطور جونیئر پارٹنر لینے کا فیصلہ کیا تو پیپلز پارٹی نے انتخابات کا بائیکاٹ کر دیا۔ لہٰذا پگاڑا کے لیے موقع نکل آیا، وہ بادشاہ گر ہو گئے۔
 پگاڑا اقتدار میں وہ پوزیشن چاہتے تھے جو بھٹو کی تھی لیکن ضیاالحق نے انہیں پیچھے دھکیلنے کے لیے چوہدری ظہور الٰہی کی قیادت میں ایک گروپ بنایا۔ انہیں مسلم لیگ کی صدارت سے محروم کرنے کی کوشش کی گئی۔ پگاڑا چاہتے تھے کہ مارشل لا حکام سیاسی رہنماﺅں سے ڈیل صرف ان کے ذریعے کریں لیکن جنرل ضیا نے مجلس شورٰی بنا دی تو پگاڑا ’شورائی‘ مسلم لیگیوں کے ساتھ تعاون کے لئے تیار نہیں تھے۔
انہوں نے خواجہ صفدر کی بطور سپیکر قومی اسمبلی حمایت کرنے سے انکار کر دیا کیونکہ وہ مجلس شورٰی کے چیئرمین رہ چکے تھے۔ ضیا الحق بیک وقت سندھ کی دوسری بڑی قوت سے بگاڑنا نہیں چاہتے تھے لہٰذا پگاڑا کی فرمائش پر محمد خان جونیجو کو وزیراعظم نامزد کیا۔ 
جونیجو اور ضیاالحق دونوں نے انہیں مایوس کیا۔ جب مسلم لیگ کو دوبارہ زندہ کیا گیا تو جونیجو مسلم لیگ کے صدر بن گئے۔ اب اقتدار کے حصول کی جنگ سندھ کے بجائے پنجاب میں لڑی جا رہی تھی۔ پیر پگاڑا نے اپنے سیاسی وجود کو برقرار رکھنے کے لیے صدر ضیاالحق اور وزیراعظم جونیجو پر چیک جاری رکھا۔ ان اختلافات کو وہ چوہے بلی کا کھیل کہتے تھے۔ 

پگاڑا اقتدار میں وہ پوزیشن چاہتے تھے جو بھٹو کی تھی۔
پگاڑا اقتدار میں وہ پوزیشن چاہتے تھے جو بھٹو کی تھی۔

ضیا الحق وزیراعلیٰ پنجاب نواز شریف کو آگے لا رہے تھے لہٰذا پگاڑا نے نواز شریف سے شدید محاذ آرائی کی۔ انہوں نے لاہور میں سکونت اختیار کرلی اور ایک بار پھر ضیاالحق کے خلاف بیانات کا سلسلہ شروع کیا۔
پگاڑا کا ایک تضاد پیپلزپارٹی کے ساتھ تھا، دوسرا اسٹیبلشمنٹ کی حامی خاص طور پر پنجاب سے تعلق رکھنے والی قوتوں کے ساتھ رہا۔ 
جب 1988 میں انتخابات ہوئے تو سندھ میں بڑے بڑے برج الٹ گئے۔ پیر پگاڑا بھی ہار گئے۔
بینظیر بھٹو کی پہلی حکومت کی برطرفی کے بعد سندھ میں جام صادق نگران وزیراعلیٰ بنے۔ سندھ میں اکثریت نہ ہونے کے باوجود جام صادق علی نے ایم کیو ایم اور پگاڑا کی مدد سے حکومت بنا لی۔ جام صادق کے انتقال کے بعد فنکشنل لیگ کے حامی مظفر حسین شاہ کو یہ منصب ملا۔ ان کے بیٹے پیر صبغت اللہ شاہ دونوں حکومتوں میں وزیر رہے۔ 
جنرل مشرف نے نواز شریف کا تختہ الٹا تب فنکشنل لیگ حکومت میں شامل تھی لیکن مشرف کے حکومت میں آتے ہی اس کے ساتھ ہو گئی اور اقتدار کے آخری دنوں تک ان کے ساتھ رہی۔
مشرف دور کے عام انتخابات کے بعد ایک بار پھر پیپلزپارٹی کو باہر رکھنے کے لئے پگارا نے ایم کیو ایم کے ساتھ مل کرعلی محمد مہر اور ارباب غلام رحیم کی مخلوط حکومت بنانے میں مدد کی۔ 
دو ہزار آٹھ کے انتخابات کے بعد پہلی مرتبہ پگاڑا پیپلز پارٹی کے ساتھ شریک اقتدار ہوئے لیکن جب نئے انتخابات سر پر آئے توبلدیاتی نظام کے مسودہ کو جواز بنا کر سندھ حکومت سے الگ ہوگئے۔ 
بڑے پگاڑا شاہ مردان شاہ کے انتقال کے بعد ان کے بیٹے صبغت اللہ شاہ نے مسند سنبھالی۔
بڑے پگاڑا بَرملا کہتے تھے کہ وہ جی ایچ کیو کے آدمی ہیں جبکہ موجودہ پیر پگاڑا پیر صبغت اللہ شاہ نے بھی یہ روایت جاری رکھی ہے۔
2013 کے انتخابات میں پگاڑا کی قیادت میں نو جماعتی اتحاد بنا کر پیپلزپارٹی کو سندھ میں ہی مصروف رکھا اور پنجاب میں نواز لیگ جیت گئی۔ انتخابی نتائج اوراقتدار میں مطلوبہ حصہ نہ ملنے پر پیر صاحب نے شکوہ کیا کہ ہمارے ساتھ دھوکہ ہوا۔
دو سال بعد پگاڑا نے پیپلزپارٹی مخالف قوتوں کو جمع کر کے گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس کے نام سے اتحاد بنایا۔ جی ڈی اے کو وڈیروں کا اتحاد سمجھا جاتا ہے جو پیپلزپارٹی میں کسی وجہ سے اپنے لئے جگہ نہیں بنا پا رہے ہیں۔ 
گذشتہ انتخابات سے پہلے پیر صبغت اللہ شاہ کو ڈیفنس ویو سوسائٹی کراچی کی اراضی کی غیر قانونی الاٹمنٹ میں نیب کا سامنا کرنا پڑا۔

پگاڑا نے پیپلزپارٹی مخالف قوتوں کو جمع کر کے گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس کے نام سے اتحاد بنایا۔
پگاڑا نے پیپلزپارٹی مخالف قوتوں کو جمع کر کے گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس کے نام سے اتحاد بنایا۔

گذشتہ انتخابات میں عمران خان کا ساتھ دیا۔ پیپلزپارٹی اور نواز لیگ پر اسٹیبلشمنٹ کی ناراضی عیاں ہوئی توموجودہ پیر پگاڑا کو یقین تھا کہ اب سندھ میں ان کی حکومت ہوگی۔ انتخابی مہم کے دوران انہوں نے یہ تاثر دیا کہ اب زرداری کنگ میکر نہیں رہے لیکن پانسہ پلٹ گیا۔ سندھ میں خود کو پیپلزپارٹی کے متبادل کے طور پر پیش کرنے والا اتحاد انتخابات میں بری طرح سے ہار گیا۔ پیر پگاڑا کے بھائی پیر صدرالدین شاہ بھی ہار گئے۔ 
سندھ کی اقتداری سیاست میں پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے بعد پگاڑا تیسرے فریق ہیں جو یا تو حکومت کے حامی یا پھر مخالف اتحاد میں شامل ہوتے ہیں۔ پیر پگاڑا کو پیپلز پارٹی کا متبادل تصور کیا جاتا ہے۔
پیپلز پارٹی کے بغیر جو بھی سیٹ اپ بنتا ہے اس میں پگاڑا کنگ میکر ہوتے ہیں، وڈیروں کی اقتدار تک رسائی پگاڑا کے ذریعے ہو سکتی ہے۔
جنرل ایوب، جنرل ضیا اور جنرل مشرف اور ان کی زیر سایہ حکومتوں یا نواز شریف کے دورمیں پیر پگاڑا کو اقتدار میں حصہ ملتا رہا جبکہ سندھ میں ان ادوار کو ہمیشہ عوام مخالف سمجھا گیا۔
 پگاڑوں کی حکمت عملی یہ رہی کہ انہوں نے کبھی پارٹی نیٹ ورک نہیں بنایا۔
لہٰذا ان کی جماعت روحانی حر جماعت تک محدود ہے جس کا زیادہ اثر سانگھڑ،عمرکوٹ اور خیرپور میں ہے لیکن اب سانگھڑ میں بھی پیپلزپارٹی نے اپنے قدم جما لیے ہیں۔پیر پگاڑا سمجھتے تھے کہ جب مقتدر حلقے اقتدار کی بانٹ کریں گے توانھیں حصہ مل جائے گا ایسے میں عوام کے پاس جانے کی کیا ضرورت؟

شیئر: