Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

جدید دور کے پروفیشنل فوٹوگرافرز

شاہی قلعہ لاہور میں سیر و تفریح کے لیے آئے بچے اس وقت تک اپنی تفریح کو ادھورا سمجھتے ہیں جب تک شاہی لباس پہنے، سر پر نقلی ہیرے موتیوں کا تاج سجائے، ہاتھ میں تلوار پکڑے اور ہونٹوں پر شاہانہ مسکراہٹ سجائے تصویر نہ بنوا لیں۔
قلعے کے دیوانِ خاص، دیوانِ عام، شیش محل اور مرکزی کیفے ٹیریا کے ساتھ سجے سٹالز پرشاہی لباس میسر ہیں۔ انہیں پہن کر تصویر بنوانے والا ہر شخص چند لمحوں کے لیے اپنے آپ کو مغلیہ شاہی خاندان کا فرد محسوس کرتا ہے۔
لیکن ان تصویروں کا اصل مزہ تب ہی ہے جب وہاں موجود فوٹوگرافرز آپ کو چند ہی منٹ میں ان کے پرنٹ بنا کر دے دیں۔

اس لباس کو پہن کر تصویر بنوانے کی قیمت 200 روپے ہے۔

شاہی قلعے میں ہر وقت 30 سے 40 فوٹو گرافرز موجود رہتے ہیں۔ جن کے پاس تصویروں کو خوبصورت اورمنفرد بنانے کے لیے نئے نئے آئیڈیاز بھی موجود ہوتے ہیں، یہ آئیڈیاز وہ اس لیے تخلیق کرتے ہیں کہ سیاح جدید ٹیکنالوجی والے کیمروں اور موبائل فونز سے خود سیلفیاں بنانے کی بجائے اپنی تصاویر ان سے کھنچوائیں۔  
2010 سے، جب کیمرے والے موبائل فونز کا رواج ہوا، پروفیشنل فوٹو گرافرز کا کاروباردباؤ کا شکار ہے کیونکہ زیادہ تر لوگ خود ہی اپنی تصاویر بنا لیتے ہیں۔
اس مسئلے کا ادراک کرتے ہوئے لاہوروالڈ سٹی اتھارٹی نے فوٹو گرافرز کو مالی مشکلات سے بچانے کے لیے 2016 میں ایک نیا ٹرینڈ متعارف کروایا اور مختلف مقامات پر شاہی ملبوسات کا اہتمام کر دیا تاکہ سیاح وہ لباس پہن کر پروفیشنل فوٹوگرافرز سے ہی تصویریں بنوائیں۔
والڈ سٹی اتھارٹی کی ترجمان تانیہ قریشی کے مطابق ان شاہی ملبوسات و لوازمات کے اہتمام کے بعد نہ صرف فوٹو گرافرز کی آمدن میں بہتری آئی ہے بلکہ سیاحوں کے اشتیاق میں بھی اضافہ ہوا ہے۔
’آپ کو یہاں جو شاہی لباس، تاج و تلواریں نظر آتی ہیں یہ دراصل اسی لیے ہیں۔ لوگ آتےہیں شاہی لباس کو زیب تن کرتے ہیں، یہ فوٹو گرافرزان کو فوراً وہ تصویریں مہیا کرتے ہیں جیسا لوگ خود کو دیکھنا چاہتے ہیں۔ صرف مقامی سیاح نہیں بلکہ دنیا بھر سے آئے ہوئے سیاح، سفارتکار اور اعلٰی عہدیدار ان فوٹو گرافرز کی بنائی تصاویر یادگار کے طور پرساتھ لے جاتے ہیں۔‘ 

شاہی قلعے میں ہر وقت 30 سے 40 فوٹو گرافرز موجود رہتے ہیں۔

خاوراحمد گذشتہ دو دہائیوں سے شاہی قلعے میں فوٹو گرافی کررہے ہیں، اس دوران انہوں نے لاکھوں تصویریں بنائیں۔ ان کا کہنا ہے کہ سیاحوں کو جو مزہ شاہی لباس کے ساتھ تصویر بنوانے میں آتا ہے وہ کسی اور چیز میں نہیں آتا۔
ان کے ہمکار محمد زبیر کے مطابق ’اب لوگوں کو خود تصویر بنانی تو آتی ہے لیکن ابھی بھی ہمارا کاروبار اس لئے چل رہا ہے کہ شاہی لباس میں بنائی گئی تصاویر لوگ بے چین ہو کے دیکھتے ہیں‘
’شاہی قلعے میں سجے شاہی لباس کے سٹالز پر رکنے والے خود کو مغلیہ دور کے باسی تصور کرتے ہیں۔‘
اپنے بچوں کے ساتھ قلعے کی سیر کرنے والی شائستہ احمد کہتی ہیں ’ جب بھی بچے شاہی قلعے میں آتے ہیں، شاہی لباس میں تصویریں بنوانے کی ضد ضرورکرتے ہیں۔ پھر وہی تصویریں اپنے کزنز کو دکھا کے یہ باور کراتے ہیں کہ یہ ان تصویروں میں بالکل شہزادے لگے رہے ہیں۔‘
فوٹوگرافرز کے لیے شاہی ملبوسات کا انتظام کرنے والے محمد جمیل کہتے ہیں کہ یہ لباس زیب تن کرنے والے سیاحوں کا دل بھی بادشاہوں کی طرح بڑا ہو جاتا ہے۔
’ہمارے پاس شاہی لباس، تاج، تلواریں اور شاہی جوتے بھی ہیں۔ لوگ یہاں آ کے یہ لباس پہنتے ہیں، تصویریں بنواتے ہیں، خوش ہوتے ہیں اور اپنی خوشی میں کبھی ہمیں زیادہ پیسے بھی دے جاتے ہیں۔ اس لباس کو پہن کر تصویر بنوانے کی قیمت 200 روپے ہے لیکن بچوں کے لیے کم بھی کر لیتے ہیں‘

 ان کی دیکھا دیکھی اب ان کے ساتھی فوٹوگرافرز نے بھی خود کو ڈیجیٹلائز کر لیا ہے۔

لاہور کی طرح اسلام آباد میں بھی پرانے فوٹوگرافرز نے اپنے آپ کونئے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش کی ہے۔
فیصل مسجد کے سائے میں لوگوں کی تصویر کشی کرتے محمد فاروق اعظم وفاقی دارالحکومت کے چند ابتدائی فوٹوگرافرز میں سے ہیں، جنہیں لائسنس جاری کیا گیا۔ انہیں اسلام آباد کے تفریحی مقامات پر پروفیشنل فوٹوگرافی کرتے ہوئے 40 سال ہو گئے ہیں۔
پولارائیڈ کیمرے سے اپنے کیریئرکا آغاز کرنے والے فاروق بدلتے زمانے کے ساتھ اپنے کام کے انداز بدلنے کی کہانی دلچسپ انداز میں سناتے ہیں۔
’پولارائیڈ کے دورمیں بٹن دبانے کے چند سیکنڈ میں ہی تصویر کا پرنٹ کیمرے سے باہر نکل آتا تھا لیکن پولارائیڈ کی فلم مہنگی تھی اور تصویر کی کوالٹی بھی ناقص۔ پھر’فلم رول‘ والے کیمرے آ گئے، ہمارے پاس آٹھ ، 12، 18 تصویروں کا پورا رول ہوتا تھا۔ تصویریں کھینچ کررول ان کے حوالے کر دیا جاتا تھا۔‘

فیصل مسجد کے سائے میں لوگوں کی تصویر کشی کرتے محمد فاروق اعظم وفاقی دارالحکومت کے چند ابتدائی فوٹوگرافرز میں سے ہیں، جنہیں لائسنس جاری کیا گیا۔

2010 میں موبائل کیمروں کی وجہ سے ایک سال بے روزگاری کاٹنے کے بعد فاروق نے اپنے کام میں جدت لانے کا فیصلہ کیا۔
انہوں نے ایک ڈیجیٹل کیمرے اورپرنٹر کا بندوبست کیا اوراب وہ موبائل فون سے زیادہ اچھی ڈیجیٹل تصاویر بنا کر موقعے پر ہی سیاحوں کو پرنٹ کر دیتے ہیں۔
 ان کی دیکھا دیکھی اب ان کے ساتھی فوٹوگرافرز نے بھی خود کو ڈیجیٹلائز کر لیا ہے۔ وہ پرنٹ کے ساتھ ساتھ تصویریں میموری کارڈ میں بھی فراہم کرتے ہیں۔

پولارائیڈ کیمرے سے اپنے کیرئیرکا آغاز کرنیوالے فاروق بدلتے زمانے کے ساتھ اپنے کام کے انداز بدلنے کی کہانی دلچسپ انداز میں سناتے ہیں۔

اپنے اس ڈیجیٹل انقلاب کے بارے میں فاروق اعظم کہتے ہیں۔
’دل مشتاق پیدا کر اگر چاہیے وقار اپنا
محبت کے بنا دنیا میں کچھ حاصل نہیں ہوتا‘
’جب تک انسان کو اپنے کام سے عشق نہ ہو تو وہ کامیاب نہیں ہو سکتا۔‘

شیئر: