’بچی کے سکول بیگ میں منشیات‘، کراچی پولیس نے سمگلنگ گینگ کو کیسے بے نقاب کیا؟
’بچی کے سکول بیگ میں منشیات‘، کراچی پولیس نے سمگلنگ گینگ کو کیسے بے نقاب کیا؟
بدھ 3 دسمبر 2025 5:41
زین علی -اردو نیوز، کراچی
پیکٹس کو جب کھول کر دیکھا گیا تو ان میں سے مجموعی طور پر 4 کلو منشیات برآمد ہوئیں (فوٹو: پیکسلز)
کراچی پولیس نے بلوچستان سے منشیات سمگلنگ کی ایک سنگین کوشش ناکام بناتے ہوئے ایک ایسی خاتون کو گرفتار کیا ہے جس نے اپنی کم عمر بیٹی کے سکول بیگ کو منشیات کی ترسیل کے لیے استعمال کیا۔
یہ واقعہ موچکو پولیس سٹیشن کی حدود میں اس وقت پیش آیا جب کوئٹہ سے کراچی آنے والی ایک مسافر کوچ کی معمول کی تلاشی کے دوران 10 سالہ بچی کے بیگ سے 4 کلو منشیات برآمد کی گئیں۔
پولیس کے مطابق ملزمہ بی بی ذاکرہ اپنی بیٹی کو ڈھال کے طور پر استعمال کرتے ہوئے منشیات کراچی منتقل کرنے کی کوشش کر رہی تھی، تاہم کارروائی کے دوران یہ مکروہ منصوبہ ناکام بنا دیا گیا۔
پولیس کے مطابق موچکو تھانے کی ٹیم شہر میں داخل ہونے والی بین الاضلاعی گاڑیوں کی تلاشی کے لیے چیکنگ ڈیوٹی پر تعینات تھی۔
اسی دوران کوئٹہ سے آنے والی ایک مسافر کوچ کو مشکوک حرکات کے باعث روک کر تلاشی لی گئی۔ تلاشی کے عمل میں خاتون مسافر بی بی ذاکرہ کے پاس موجود بیگ کے حوالے سے شکوک و شبہات پیدا ہوئے۔
پولیس نے جب خاتون سے اس بیگ کے بارے میں سوالات کیے تو وہ گھبرا گئی، جس پر اہلکاروں نے بچی کے سکول بیگ کی تلاشی لینے کا فیصلہ کیا۔
سکول بیگ کھولنے پر معلوم ہوا کہ کتابوں کے نیچے بڑی مہارت سے منشیات کے پیکٹس رکھے گئے تھے۔ ان پیکٹس کو جب کھول کر دیکھا گیا تو ان میں سے مجموعی طور پر 4 کلو منشیات برآمد ہوئیں۔
پولیس کے مطابق ملزمہ نے منشیات سمگلنگ کے لیے دانستہ طور پر بچی کے سکول بیگ کا انتخاب کیا تاکہ چیکنگ پوائنٹس پر شکوک و شبہات سے بچا جا سکے، کیونکہ بچوں کے سامان کی عام طور پر سختی سے تلاشی نہیں لی جاتی۔
ایس ایس پی نے بتایا کہ ’کوچ کے مسافروں کی فہرست اور دیگر ریکارڈ بھی حاصل کر لیا گیا ہے۔‘ (فوٹو: اے ایف پی)
ایس ایس پی کیماڑی امجد شیخ نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ’ملزمہ بی بی ایک منظم سمگلنگ نیٹ ورک کا حصہ معلوم ہوتی ہے جو بلوچستان سے منشیات کراچی منتقل کرنے کے لیے خواتین اور بچوں کو استعمال کرتا ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’کوچ کے مسافروں کی فہرست اور دیگر ریکارڈ بھی حاصل کر لیا گیا ہے تاکہ اس نیٹ ورک سے منسلک دیگر افراد تک پہنچا جا سکے۔‘
ان کے مطابق کوئٹہ سے کراچی تک منشیات سمگلنگ کا روٹ عرصے سے منشیات فروشوں کے لیے محفوظ سمجھا جاتا رہا ہے، خاص طور پر اس لیے کہ بلوچستان سے آنے والی مسافر گاڑیاں اکثر کم چیکنگ کے باعث سمگلروں کے لیے آسان ہدف بن جاتی ہیں۔ تاہم کراچی پولیس نے گزشتہ چند مہینوں میں اس روٹ پر نگرانی سخت کر دی ہے تاکہ منشیات کی ترسیل پر قابو پایا جا سکے۔
سکیورٹی اداروں کے مطابق گزشتہ ایک دہائی میں بلوچستان کے مختلف علاقوں سے کراچی سمیت سندھ کے دیگر شہروں میں منشیات کی ترسیل کے کئی نیٹ ورکس سامنے آ چکے ہیں۔
افغانستان سے منشیات کی غیرقانونی ترسیل زیادہ تر بلوچستان سے پاکستان کے مختلف حصوں تک کی جاتی ہے، جن میں تربت، قلات، کوئٹہ اور چمن کے راستے استعمال ہوتے ہیں۔ ان میں سے بڑی مقدار کراچی پہنچتی ہے جہاں اسے مختلف علاقوں میں فروخت کر دیا جاتا ہے۔
کوئٹہ سے کراچی کا قومی شاہراہ کا روٹ منشیات سمگلنگ کے لیے بدنام رہا ہے (فوٹو: اے پی پی)
کراچی چونکہ ایک میگا سٹی ہے اور یہاں منشیات کی طلب بھی نسبتاً زیادہ ہے، اسی لیے سمگلر بلوچستان سے کراچی کا روٹ ترجیحی بنیادوں پر اختیار کرتے ہیں۔
ذرائع کے مطابق منشیات فروشوں کے نیٹ ورکس اکثر خواتین اور بچوں کو استعمال کرتے ہیں تاکہ وہ چیکنگ کے دوران مشکوک نہ ٹھہریں۔ یہی وجہ ہے کہ حالیہ کارروائی میں ایک بچی کو استعمال کرنا اسی غیر انسانی کاروبار کی ایک مثال ہے۔
کوئٹہ سے کراچی کا قومی شاہراہ کا روٹ منشیات سمگلنگ کے لیے بدنام رہا ہے۔ اس شاہراہ پر ٹریفک کا دباؤ زیادہ ہوتا ہے اور روزانہ سینکڑوں مسافر کوچیں کراچی میں داخل ہوتی ہیں۔
پولیس اور دیگر اداروں کی موجودگی کے باوجود سمگلر مختلف حربے اختیار کرتے ہیں، جن میں خفیہ خانوں والے سوٹ کیس، بچوں کے بیگز، خواتین کے ذاتی سامان اور حتیٰ کہ کھانے پینے کی اشیا میں منشیات چھپانا شامل ہے۔
حکام کے مطابق اس روٹ پر باضابطہ نگرانی کے باوجود سمگلنگ کے چند گروہ اب بھی فعال ہیں جنہیں پکڑنے کے لیے انٹیلی جنس بیسڈ آپریشنز کی ضرورت ہے۔
پولیس نے ملزمہ بی بی ذاکرہ کو گرفتار کرکے تھانے منتقل کر دیا ہے، جہاں اس کے خلاف منشیات ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔
پولیس نے کہا ہے کہ ایسے نیٹ ورکس کے خلاف کارروائیوں کا دائرہ کار مزید بڑھایا جائے گا (فوٹو: اے ایف پی)
پولیس کا کہنا ہے کہ خاتون نے ابتدائی تفتیش میں منشیات کی ملکیت سے انکار کیا ہے اور دعویٰ کیا ہے کہ اسے علم نہیں تھا کہ بیگ میں کیا رکھا ہوا ہے۔ تاہم پولیس اس کے بیان کو مشکوک قرار دے رہی ہے، کیونکہ بیگ اس کی اپنی بیٹی کے زیر استعمال تھا۔
تفتیشی افسروں کا کہنا ہے کہ خاتون کے فون ڈیٹا، کال ریکارڈز اور رابطوں کی فہرست کی چھان بین کی جا رہی ہے تاکہ یہ معلوم ہو سکے کہ وہ کون سا نیٹ ورک چلا رہی تھی یا اس کا حصہ تھی۔ اس کے علاوہ مسافر کوچ کے عملے سے بھی پوچھ گچھ کی جا رہی ہے تاکہ یہ طے کیا جا سکے کہ کیا کوئی اندرونی سہولت کار بھی اس کارروائی میں شامل تھا۔
پولیس حکام کے مطابق کراچی میں منشیات کی ترسیل کے خلاف گزشتہ چند ماہ سے کارروائیاں تیز کر دی گئی ہیں۔ مختلف علاقوں، بالخصوص کیماڑی، لیاری، منگھوپیر اور گلشنِ معمار میں منشیات فروشوں کے خلاف متعدد چھاپے مارے جا چکے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ بعض گروہ بلوچستان سے منشیات لاتے ہیں جبکہ کچھ افغانستان کے راستے آنے والی ترسیل کو آگے بڑھاتے ہیں۔
حکام نے واضح کیا کہ بچی کے سکول بیگ میں منشیات چھپانے کا واقعہ نہ صرف مجرمانہ فعل ہے بلکہ انتہائی سفاکانہ بھی ہے، کیونکہ اس سے بچوں کو بھی خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔
پولیس نے اس بات پر زور دیا کہ ایسے نیٹ ورکس کے خلاف کارروائیوں کا دائرہ کار مزید بڑھایا جائے گا۔