حال ہی میں مشہور زمانہ امریکی جریدے فوربز کی رپورٹ کے بعد یہ سوال اٹھا ہے کہ کیا پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ واقعی اپنے کچرے کے مسئلے کو ایک مربوط ڈھانچے میں بدلنے کی طرف قدم بڑھا چکا ہے؟
فوربز کا مضمون اس امکان کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ صوبے میں صفائی کا وہ پیچیدہ اور برسوں پرانا مسئلہ جو مختلف اداروں، کمزور عملداری اور بکھرے ہوئے نظام کے باعث حل نہ ہو سکا تھا اب ایک ڈیجیٹل اور صوبہ گیر ماڈل کے تحت ازسرِنو ترتیب پا رہا ہے۔
مضمون میں لکھا گیا ہے کہ پنجاب نے صرف آٹھ مہینوں میں ایسا نظام کھڑا کیا ہے جو روزانہ 50 ہزار ٹن کے لگ بھگ کچرا سنبھالتا ہے۔ شہروں اور دیہات دونوں کو ایک ہی صفائی چین میں لاتا ہے اور ہر گاڑی، ہر بِن اور ہر عملے کی نقل و حرکت کو مرکزی سطح پر ڈیجیٹل طریقے سے مانیٹر کرتا ہے۔
فوربز نے اس ماڈل کو ایک بڑی انتظامی تبدیلی قرار دیا ہے۔ اس مضمون کو حکومت اپنی کامیابی قرار دے رہی ہے جبکہ سوشل میڈیا پر اس خبر پر ’لافنگ ایموجیز‘ کی بھی بھرمار ہے۔
مزید پڑھیں
-
مریم نواز کی حکومت کے متنازع منصوبے، ’مقبولیت کا گراف نیچے‘؟Node ID: 896863
فوربز نے لکھا کیا ہے؟
امریکی جریدے فوربز نے اپنے مضمون میں اس بات پر زور دیا ہے کہ پنجاب نے روایتی طریقے سے ہٹ کر صفائی کے مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کی۔ چھوٹے پیمانے پر تجربات کرنے کے بجائے پورے صوبے میں نیا ڈھانچہ لاگو کیا گیا، اور 50 ہزار ٹن یومیہ کچرے کو ایک ہی نظام کے تحت سنبھالنے کا ہدف مقرر کیا۔
مضمون کے مطابق پنجاب کا یہ ماڈل محض شہروں تک محدود نہیں بلکہ دور افتادہ دیہی علاقوں تک پھیلا ہوا ہے جہاں اس سے پہلے صفائی کا باقاعدہ ڈھانچہ موجود ہی نہیں تھا۔
فوربز نے اس نظام کے سب سے نمایاں پہلو کے طور پر اس کی مکمل ڈیجیٹل نگرانی کا ذکر کیا جس کے تحت گاڑیوں کے روٹس، کچرے کی مقدار، لینڈ فل سائٹس تک کی نقل و حرکت اور صفائی ورکرز کی حاضری تک مرکزی سطح پر دیکھی جا سکتی ہے۔ ادائیگیوں کا نظام بھی کارکردگی کے ساتھ جڑا ہوا ہے تاکہ صفائی کا اصل کام ریکارڈ کی بنیاد پر جانچا جا سکے۔ فوربز کے مطابق یہی وہ خصوصیت ہے جس نے اس ماڈل کو دنیا کی توجہ کا مرکز بنایا۔
ستھرا پنجاب پروگرام کیا ہے؟

پنجاب حکومت نے ’ستھرا پنجاب‘ کا باضابطہ آغاز دسمبر 2024 میں لاہور میں سے کیا۔ اس پروگرام میں بڑے شہروں کے ساتھ ساتھ چھوٹے اضلاع اور تحصیلیں بھی اسی مرکزی فریم ورک میں شامل ہوئیں۔ صفائی ورکرز کی بھرتیاں، گاڑیوں اور مشینری میں اضافہ ہوا، اور کچرے کے بہاؤ کو کنٹرول کرنے کے لیے نئے ٹرانسفر سٹیشنز قائم کیے گئے۔
وزیر اطلاعات پنجاب عظمی بخاری کہتی ہیں کہ ’ستھرا پنجاب کا ڈھانچہ کچرے کے ایک پورے سفر پر محیط ہے۔ گلیوں اور محلّوں میں وہ چھوٹی گاڑیاں اور رِکشے جو گھر گھر سے کچرا اٹھاتے ہیں اب ایک منظم چین کا حصہ ہیں۔ ان گاڑیوں سے کچرا ٹرانسفر سٹیشنز تک منتقل ہوتا ہے جہاں اس کی پہلے مرحلے کی چھانٹ ہوتی ہے۔ وہاں سے چُنا ہوا کچرا مختلف مقامات تک جاتا ہے جہاں اسے لینڈ فل میں ٹھکانے لگایا جاتا ہے یا ری سائیکلنگ اور آئندہ کے ویسٹ ٹو انرجی منصوبوں کے لیے محفوظ کیا جاتا ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اس پورے عمل میں نگرانی مرکزی کردار ادا کرتی ہے۔ بڑے شہروں میں قائم کنٹرول رومز میں بیٹھے اہلکار روزانہ کی سرگرمیوں کو ڈیجیٹل ڈیش بورڈز پر دیکھتے ہیں۔ کس گاڑی نے کہاں سے کچرا اٹھایا، کتنی مقدار منتقل ہوئی کس جگہ شکایت موصول ہوئی یہ سب معلومات فوری طور پر سامنے آتی ہیں۔ موبائل ایپ اور ہیلپ لائن کے ذریعے دی گئی شکایات بھی اسی نظام کا حصہ ہیں جنہیں مقررہ وقت میں حل کرنے کا مقصد رکھا گیا ہے۔‘
کتنے افراد کو روزگار ملا؟

خیال رہے کہ ’ستھرا پنجاب‘ کے اعلان کے بعد صفائی کے شعبے میں روزگار کے مواقع نمایاں طور پر بڑھے۔ سرکاری اعلانات اور مختلف رپورٹس میں بتایا گیا کہ اس پروگرام کے تحت صفائی ورکرز، ڈرائیورز، سپروائزرز، مشینری آپریٹرز اور ڈیجیٹل نگرانی کے عملے کے لیے بڑی تعداد میں نوکریاں پیدا ہوئیں۔ ان نوکریوں کو ’سبز روزگار‘ کے نام سے شناخت دی گئی کیونکہ ان کا تعلق ماحولیات اور صحت عامہ کی بہتری سے جڑا ہے۔
یہ روزگار محض صفائی تک محدود نہیں بلکہ آگے بڑھ کر ری سائیکلنگ، کچرے کی چھانٹ، ویسٹ پارکس، تجزیاتی ڈیٹا کے مراکز اور ممکنہ ویسٹ ٹو انرجی منصوبوں تک پھیلنے کی توقع ہے۔ نئے کنٹرول رومز اور ڈیٹا سینٹرز نے بھی تکنیکی مہارت رکھنے والے نوجوانوں کے لیے مواقع پیدا کیے ہیں۔
یہ سب اس بڑے نظام کی طرف اشارہ کرتا ہے جو صفائی کے معاملے میں صرف جھاڑو اور ٹرک تک محدود نہیں بلکہ ایک تکنیکی اور انتظامی فریم ورک بنا رہا ہے۔ حال ہی میں اب پنجاب حکومت ’ستھرا پنجاب اتھارٹی‘ بھی قائم کرنے جا رہی ہے جس کا بل پنجاب اسمبلی میں پیش کیا جا چکا ہے۔
کوڑا ٹیکس: صفائی کی قیمت کس پر اور کتنی؟

اس پروگرام کے ساتھ جو سب سے بڑی پالیسی تبدیلی سامنے آئی وہ صوبہ گیر صفائی فیس ہے، جسے عوامی زبان میں ’کوڑا ٹیکس‘ کہا جاتا ہے۔ یہ فیس اس سال جولائی کے مہینے میں نافذ ہوئی۔ اس کا مقصد صفائی کے نظام کو مالی طور پر پائیدار بنانا بتایا گیا۔
شہری علاقوں میں 5 مرلہ تک کے گھروں کے لیے ماہانہ 300 روپے، 10 مرلہ تک کے لیے 500 روپے، 1 کنال تک کے لیے ایک ہزار روپے، 2 کنال تک کے لیے دو ہزار روپے اور اس سے بڑے گھروں کے لیے 5 ہزار روپے ماہانہ فیس مقرر کی گئی ہے۔
دیہی علاقوں میں شرح نسبتاً کم رکھی گئی ہے جہاں 2 سے 5 مرلہ گھروں کے لیے 200 روپے اور بڑے گھروں کے لیے 400 روپے ماہانہ فیس رکھی گئی ہے۔ دکانوں، چھوٹے کاروباروں، صنعتی یونٹس اور فیکٹریوں کے لیے ان کے سائز اور سرگرمی کے مطابق الگ فیس مقرر کی گئی ہے۔
خیال رہے کہ حال ہی میں اسی پروگرام کے تحت رنگ برنگے کوڑا دان جو بڑے شہروں، تجارتی مراکز، دفاتر اور تعلیمی اداروں میں لازمی قرار دیے گئے ہیں۔ صوبائی ماحولیاتی ادارے نے اس سلسلے میں نوٹیفکیشن جاری کیا ہے جس کے مطابق پانچ مختلف اقسام کے کچرے کے لیے الگ الگ ڈبے رکھے جائیں گے تاکہ کچرا جمع ہونے کے لمحے ہی تقسیم ہو جائے۔
پیلا رنگ کاغذ اور کارٹن کے لیے، سبز رنگ شیشے اور بوتلوں کے لیے، خاکستری یا جامنی رنگ گیلے کچرے اور کھانے پینے کی باقیات کے لیے، سرخ رنگ دھاتی کچرے کے لیے، اور نارنجی رنگ پلاسٹک کے لیے مختص کیا گیا ہے۔











