Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

50ہزار ریال میں فرضی ڈگری خریدنے والے اعلیٰ عہدوں پر فائز ہو گئے

ہمارے بڑے سمجھایا کرتے تھے کہ ’پڑھو گے لکھو گے بنو گے نواب ‘نجانے کتنے لوگوں نے اس سبق کو اس کی حقیقی روح کے ساتھ سمجھ کرمحنت مشقت سے پڑھنا لکھنا سیکھا اور ملک و قوم کی تعمیر و ترقی میں حصہ لیا اور اپنے وطن سے باہر نکل کر دنیا بھر کے انسانوں کی بہتری میں خوبصورت کردار ادا کیا ۔ 
ایسا لگتا ہے کہ اب صورتحال بدلنے لگی ہے ۔نئی نسل میں سینکڑوں نوجوان پڑھنے لکھنے کا مطلب یہ لینے لگے ہیں کہ کسی بھی شکل میں اعلیٰ ترین ڈگریاں حاصل کر لی جائیں اور کسی محنت اور مشقت کے بغیر اعلیٰ عہدوں پر قبضہ جما لیا جائے ۔
سعودی عرب ایسا ملک ہے جہاں دنیا بھر سے لاکھوں افراد روزگار کی غرض سے آتے رہتے ہیں ۔ یہاںوہ یہ دیکھ کر کہ اعلیٰ ڈگریاں اپنا کمال دکھارہی ہیں ۔یونیورسٹیوں سے ڈگریاں خرید کر نجی اداروں اور کمپنیوں میں کلیدی عہدے حاصل کرنے کی دوڑ میں لگ گئے۔سعودی شہریوں نے بھی غیر ملکیوں کی دیکھا دیکھی اور ان کی حرص میں فرضی ڈگریوں کا سہارا لینا شروع کر دیااور نہ جانے کتنے سعودی انہی ڈگریوں کے بل پر اعلیٰ عہدے حاصل کئے ہوئے بیٹھے ہیں۔ 
سعودی مجلس شوریٰ کے سابق رکن ڈاکٹر موافق الرویلی نے جو الرویلی کا ہیش ٹیگ ’’ہلکونی(مجھے مار ڈالا)‘‘انٹرنیٹ پر وائرل ہو چکا ہے۔
پر ’’ہلکونی (مجھے مار ڈالا)‘‘کے عنوان سے وائرل ہو جانے والا ہیش ٹیگ جاری کیا تھا۔فرضی ڈگریوں کے بارے میں ہوشربا حقائق بیان کئے ہیں ۔ 

الرویلی نے سبق ویب نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ 
بی اے ، ایم اے ، پی ایچ ڈی اورڈپلومہ جات کی فرضی ڈگریاں خریدنے والے سعودی بھی ہیں اور غیر ملکی بھی ۔بعض لوگ دولت کمانے اور دیگر معاشرے میں اپنا قد اونچا کرنے کیلئے اعلیٰ ڈگریاں خریدنے کی دوڑ میں لگے ہوئے ہیں ۔
یہ دیکھ کر دل کڑھتا ہے کہ کچھ لوگ بی اے ، ایم اے اور پی ایچ ڈی کی ڈگریاں دن رات محنت کر کے حاصل کرتے ہیں ۔ ان کا مقصد اپنی ذات ، اپنے خاندان اور اپنے ملک و قوم کو فائدہ پہنچانا ہوتا ہے ۔ ان کے برخلاف کچھ لوگ 50ہزار ریال دیکر پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کر لیتے ہیں اور آسانی سے بڑے عہدے پر بھی قبضہ جما لیتے ہیں ۔میری معلومات کے مطابق ایسے لوگ اچھی خاصی تعداد میں ہیں جو فرضی ڈگریوں پر زندگی گزار رہے ہیں ۔ 
الرویلی نے بتایا کہ مجھے معلوم ہے کہ سعودی عرب ، امارات ، کویت، عمان اور قطر میں ایم فل اور پی ایچ ڈی کی ڈگریوں کیلئے باقاعدہ رجسٹریشن ہوتے ہیں ۔ ایم فل اور پی ایچ ڈی کے مقالے پیسے دیکر لکھوا لئے جاتے ہیں اور دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کیلئے وائیوا کمیٹی میں ایسے لوگ رکھے جاتے ہیں جو اسکالرز سے سوال نہیں کرتے یا سطحی قسم کی باتیں کر کے وائیوا نمٹا دیتے ہیں ۔ 
الرویلی نے بتایا کہ بہت سارے لوگ ایسے ہیں جن کی جعلی ڈگریوں کی کہانیاں کھل گئی ہیں مگر ایسے بہت بڑی تعداد میں ہیں جن کی ڈگریوں پر ابھی تک پردہ پڑا ہوا ہے ۔ صحیح تعداد بتانا ممکن نہیں ۔
الرویلی نے بتایا کہ میں نجی وسائل کے بل پر انٹرنیٹ کے ذریعے فرضی ڈگریوں اور انہیں جاری کرنیوالے مراکز کو طشت ازبام کرنے پر لگا ہوا ہوں ۔ خلیجی ممالک کے کچھ لوگ میری مدد کر رہے ہیں ۔ 
الرویلی نے ایک دلچسپ بات یہ بتائی کہ سرکاری اداروں میں کئی اعلیٰ عہدیداروں نے انٹرنیٹ پر ہیش ٹیگ ’’ہلکونی ‘‘دیکھ کر سی وی سے پی ایچ ڈی اور ایم فل کی ڈگریاں نکال دیں۔بعض لوگوں نے اپنے گھروں کے ڈرائنگ رومز میں ڈگریاں سجھائی ہوئی تھیں ہٹا دیں۔
الرویلی کا کہنا ہے کہ جعلی ڈگریوں پر نجی اداروں میں کام کرنیوالوں میں غیر ملکی سرِ فہرست ہیں ۔اس کا مطلب یہ نہیں کہ نجی اداروں میں کام کرنیوالے سعودی اس لت میں مبتلا نہ ہوں ان کی بھی اچھی خاصی تعداد فرضی ڈگریوں پر گزارا کر رہی ہے ۔ فرضی ڈگریاں رکھنے والے کارکردگی اور معیار دونوں کے دشمن ہوتے ہیں ۔ 
الرویلی سے دریافت کیا گیا کہ فرضی ڈگریاں رکھنے والوں کو طشت ازبام کرنے پر آپ کے خلاف کافی کڑوی کسیلی باتیں کہی جا رہی ہیں ۔ آپ کا کیا موقف ہے ۔ انہوں نے کہا کہ میں یہ کام 7برس سے زیادہ عرصے سے کر رہا ہوں ۔ میرا مقصد کسی کو بدنام کرنا نہیں بلکہ فرضی ڈگریوں کے بل پر سستی شہرت اور دھن جمع کرنیوالوں کے چہروں پر پڑی نقاب اتارنا ہے ۔ 
 الرویلی نے بتایا کہ عرب ممالک کی معروف یونورسٹیاں اور خلیجی جامعات کے پروفیسر اس دھندے میں ملوث ہیں ۔زیادہ تر فرضی ڈگریاں تنزانیہ اور لائبیریا سے جاری کی گئیں ۔یہاں سے ایسے لوگ ڈگریاں حاصل کر رہے ہیںجنہوں نے مذکورہ ممالک کی شکل تک نہیں دیکھی ۔
الرویلی نے توجہ دلائی کہ عام طور پر مینجمنٹ ، کوالٹی ، منصوبہ جات اور آمدنی کے وسائل جیسے شعبوں میں فرضی ڈگریاں زیادہ لی جا رہی ہیں۔

اس پر ایک ٹویٹر صارف ڈاکٹر سلطان بن عبدالعزیز بن مساعد العنقری نے جو اسکالر مصنف اور علم النفس کے ماہر بھی ہیں۔ انہوں نے اپنی ٹویٹ میں کہا کہ جعلی ڈگریوں کی حقیقت دریافت کرنا سرکاری ادارے کا کام ہے۔پی ایچ ڈی کی ڈگری سرکاری دستاویزات کا درجہ رکھتی ہے۔غیر قانونی طریقے سے اس کا حصول معاشرے کے لئے تباہی کا باعث ہے۔
 

شیئر: