Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بے نامی جائیداد کیا ہوتی ہے اور اس سے حکومت کو مسئلہ کیا ہے؟

حکومت پاکستان نے بے نامی لین دین کی روک تھام کے لیے قانون بے نامی ایکٹ 2017 کے نام سے بنایا۔ فوٹو اے ایف پی
پاکستان میں ٹیکس ایمنسٹی سکیم اور بینک اکاؤنٹس کی تصدیق کی مدت ختم ہونے کے بعد حکام کی جانب سے بے نامی جائیداد اور اکاؤنٹس کے خلاف کارروائیاں شروع کرنے کے اعلان پر عام آدمی کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہو رہا ہے کہ آخر بے نامی جائیداد ہوتی کیا ہے۔
جیسا کہ آپ نے خبروں میں سنا ہو گا کہ ایک غریب فالودہ فروش کے نام پر بینک اکاؤنٹ سے اربوں روپے برآمد ہوئے تو ایک چھابڑی فروش کو ٹیکس نادہندہ ہونے پر اس لیے نوٹس جاری کیا کہ اس کے اکاؤنٹ میں بھی لاکھوں روپے تھے۔
 آپ نے خبروں میں یہ بھی سنا ہوگا کہ ایف بی آر نے فلاں سیاستدان کی اتنی ہزار کنال اراضی قبضے میں لے لی، فلاں صاحب کے اتنے بے نامی پلاٹس قبضے میں لے لیے۔
در اصل یہی بے نامی کی تعریف ہے کہ جب کوئی مالدار شخص ٹیکس سے بچنے اور اپنی مالی حیثیت کم بتانے کے لیے اپنے اثاثے کسی ملازم، ماتحت یا کسی بھی دوسرے شخص کے نام پر خریدے اور جن کے نام سے یہ اثاثے خریدے گئے ہوں وہ ان کی قیمت ادا کرنے کے قابل ہی نہ ہوں۔

اثاثہ جات ڈیکلیریشن سکیم کے تحت ایف بی آر میں باضابطہ ڈھانچہ بھی تشکیل دیا گیا۔ فوٹو ایف بی آر ٹوئٹر

اسی طرح مالدار لوگ بینک اکاونٹس اپنے ڈرائیورز اور گھریلو ملازمین کے نام پر کھلواتے ہیں تاکہ کسی بھی مہنگے گھر، پلاٹ اور جائیداد کی خریداری کے وقت کم قیمت دکھا کر اپنے اکاؤنٹ سے ادا کریں اور اصل قیمت اپنے ملازم کے اکاؤنٹ سے ادا کر سکیں۔ اس طرح وہ ٹیکس حکام کو دھوکہ دینے میں کامیاب ہو جاتے ہیں اور کم ظاہر کی گئی قیمت کی شرح سے ٹیکس دیتے ہیں۔
اسی تناظر میں حکومت پاکستان نے بے نامی لین دین کی روک تھام کے لیے قانون بے نامی ایکٹ 2017 کے نام سے بنایا۔ تحریک انصاف کی موجودہ حکومت نے اس پر عملدرآمد سے متعلق قواعد ترتیب دیے اور اثاثہ جات ڈیکلیریشن سکیم متعارف کرائی جس کے تحت ایف بی آر میں باضابطہ ڈھانچہ بھی تشکیل دیا اور ایک اتھارٹی کا قیام بھی عمل میں لایا گیا ہے۔
اس حوالے سے سابق سیکریٹری خزانہ وقار مسعود نے اردو نیوز سے گفتگو میں کہا کہ ملک میں یہ رواج ہو چلا تھا کہ ٹیکس سے بچنے اور اپنی مالی حیثیت غلط بتانے کےلیے بے نامی جائیدادیں خریدی جاتیں یا پھر بینکوں سے قرضہ لے کر واپس نہیں کیا جاتا، اس لیے اپنے اکاؤنٹ میں رقم رکھنے کے بجائے کسی نوکر کے اکاؤنٹ میں رکھ کر بینک کو قرض معافی کی درخواست دے دی جاتی۔
انھوں نے کہا کہ بے نامیت اپنی اصلیت چھپانے کا طریقہ ہے اور قانون نہ ہونے کے باعث بینکوں میں بھی یہ سہولت تھی کہ کسی کے نام پر بھی اکاؤنٹ کھولا جائے۔
 وقار مسعود نے یہ بھی کہا کہ نئے قانون میں بے نامی کو جرم قرار دیا گیا ہے اور بے نامی جائیداد رکھنے والے کو کم از کم ایک سال قید با مشقت کی سزا ہوگی اور پلی بارگین کا کوئی آپشن بھی دستیاب نہیں ہے۔

آپ کی جائیداد بھی خطرے میں ہے؟

عام آدمی کے ذہن میں یہ سوال بھی پایا جاتا ہے کہ اگر کسی وجہ سے انہوں نے اپنے اثاثہ جات کی تفصیلات ایف بی آر میں جمع نہیں کرائیں تو کہیں ان کی جائیداد بھی قبضے میں تو نہیں لے لی جائے گی؟
ٹیکس قوانین کی ماہر وکیل حذیمہ بخاری نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بے نامی کا تعلق فائلر اور نان فائلر سے نہیں ہے بلکہ دونوں طرح کے لوگ ہی بے نامی جائیدادیں اور اکاؤنٹس رکھتے ہیں۔ ’تاہم کوئی بھی شہری جس کی جائیداد اپنے نام پر ہے تو اس کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں کیونکہ بے نامی کا مطلب اپنی جائیداد کسی اور کے نام پر رکھنا ہے۔‘
انھوں نے کہا عموماً بیرون ملک مقیم پاکستانی اپنے کسی رشتے دار یا دوست کے نام پر سرمایہ  بھیجتے ہیں۔ اگر انھوں نے اپنے دوست یا رشتے دار کو رقم قانونی طریقے سے یا بینک کے ذریعے بھیجی ہے اور اس کے پاس منی ٹریل موجود ہو تو یہ جائیداد بھی بے نامی کی تعریف میں نہیں آئے گی اور نہ ہی اسے ضبط کیا جا سکتا ہے۔ جس کے نام پر بھی یہ جائیداد ہو وہ اسے امانت بتا سکتا ہے۔
واضح رہے کہ حکومت پاکستان نے 15 مئی کو اثاثہ جات ڈیکلیریشن سکیم جسے ٹیکس ایمنسٹی سکیم بھی کہا جاتا ہے متعارف کرائی تھی جس کے تحت 3 جولائی تک چھپائے گئے یا بے نامی اثاثہ جات ڈیکلیئر کرنے کے لیے معمولی ٹیکس ادا کرکے اسے قانونی بنانے کا موقع فراہم کیا گیا۔
اس سکیم کو کامیاب بنانے کے لیے جہاں بڑے پیمانے پر مہم چلائی گئی وہیں خود وزیر اعظم عمران خان نے تین مرتبہ قوم کے نام خصوصی ویڈیو پیغامات جاری کرتے ہوئے انھیں اس سکیم سے فائدہ اٹھانے کی ہدایت کی۔

شیئر: