Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اقوام متحدہ میں پہلی عرب نمائندہ خاتون کون تھی؟

عرب خواتین نے قدیم زمانے اور عصر جدید میں زندگی کے مختلف شعبوں میں موثر کردار ادا کرکے ہمیشہ اپنے آپ کو منوایا۔ عرب خواتین ملکہ، سیاستدان، جنگجو، شاعر، فنکار اور ماں کی حیثیت سے اپنا فرض احسن طریقے سے ادا کرتی رہی ہیں۔
 ماضی میں خواتین سیاسی عمل میں محدود پیمانے پر ہی حصہ لے پاتی تھیں۔ اس حوالے سے ان کو متعدد مشکلات درپیش تھیں۔ صنفی قوانین اور ادارے خواتین کو اعلیٰ عہدوں پر سرفراز ہونے سے روکتے رہے تاہم اس کے باوجود کئی باعزم خواتین رکاوٹیں عبور کرکے روشن مثالیں قائم کرتی رہیں۔
عصر حاضر میں بھی تاریخی کردارادا کرنے والی خواتین کے کارناموں کو نظر انداز کرنے کا رواج کسی نہ کسی شکل میں موجود ہے۔
شام کی ’الیس قندلفت‘ ان مایہ ناز خواتین میں سے ایک ہیں جن کے تاریخی کردار کو فراموش بلکہ نظر انداز کر دیا گیا۔

اخبار امارات الیوم کے مطابق الیس قندلفت پہلی شامی خاتون ہیں جنہوں نے اقوام متحدہ میں اپنے ملک کے سفیر کی حیثیت سے کام کیا۔ انہیں گذشتہ صدی کے چوتھے عشرے میں اقوام متحدہ میں شام کا سفیر مقرر کیا گیا تھا۔
الیس قندلفت 1895 کے دوران شام کے ایک معتبر خاندان میں پیدا ہوئیں۔ انہوں نے دمشق میں ابتدائی تعلیم حاصل کی، پھر شام کے پروٹیسٹنٹ کالج میں داخلہ لیا۔ یہی کالج آگے چل کر بیروت میں امریکن یونیورسٹی میں بدل گیا۔ انہیں 1919 کے دوران کنگ کراؤن امریکن کمیٹی نے سکالر شپ دیا۔
تاریخی دستاویزات کے مطابق الیس قندلفت 1939 کے دوران عرب سوشلسٹ پارٹی البعث کے پہلے تاسیسی اجلاس میں شریک ہوئی تھیں۔ یہ پارٹی کے بانی میشیل عفلق، صلاح بیطار اور ان جیسی دیگر قد آور شخصیتوں کے شانہ بشانہ اجلاس کا حصہ تھیں۔ انہوں نے مدنی الخیمی کے پہلو بہ پہلو 1946کے دوران فکری فورم قائم کیا تھا۔
اقوام متحدہ کی دستاویزات میں اعتراف کیا گیا ہے کہ الیس قندلفت ان خواتین میں سے ایک ہیں جن کی مؤثر کارکردگی کو کبھی فرامو ش نہیں کیا جاسکتا۔ انہوں نے اقوام متحدہ میں سفارت کاری کے دوران انتہائی فراست اور عزم کے ساتھ کام کیا۔ وہ اپنے مقصد پر یقین رکھتی تھیں اور پوری قوت سے اس کا دفاع کرتی تھیں۔ انہوں نے اپنے وطن شام کا دفاع شایان شان طریقے سے کیا۔

الیس قندلفت پہلی شامی خاتون تھیں جنہوں نے اقوام متحدہ میں اپنے ملک کے سفیر کی حیثیت سے کام کیا (فوٹو:اے ایف پی)

اقوام متحدہ نے نیویارک میں متعدد بین الاقوامی وفود کے ساتھ الیس قندلفت کی ملاقاتوں کا ریکارڈ بھی بنایا ہوا ہے۔ ان میں سے ایک میں بتایا گیا ہے کہ الیس قندلفت 5 جنوری 1945کو دنیا بھر میں خواتین کے موضوع پر ہونے والے اقوام متحدہ کے دوسرے اجلاس میں شریک ہوئیں۔ انہوں نے عموماً عرب دنیا اور خصوصاً شام میں خواتین کے حالات پر روشنی ڈالی۔ الیس قندلفت نے اس امر پر زور دیا کہ فرانس کے استعمار سے شام کی آزادی بڑا ہدف ہے، یہ پورا ہوگا تب ہی شامی خواتین چین کا سانس لیں گی۔ انہوں نے ملکیت سے متعلق خواتین کے حقوق پر ہونے والے اقوام متحدہ کے 40ویں اجلاس میں خواتین کے اقتصادی حقوق پر بھی خیالات پیش کئے تھے۔
الیس قندلفت نے اقوام متحدہ کے ایوانوں میں اپنی موجودگی بھرپور انداز میں ثابت کی۔ اس وقت کے اثر و رسوخ کے حامل ممالک کے نمائندوں کے ساتھ ان کی تصاویر اس کا ثبوت ہیں۔ انہوں نے بھاگ دوڑ کرکے اقوام متحدہ میں اثرو رسوخ والے ممالک کو شام کی آزادی پر آمادہ کر لیا تھا۔ 1946ء میں ان کی یہ مہم منطقی انجام کو پہنچی اور ان کے ملک پر ناجائز قابض فرانسیسی 1946میں شام چھوڑنے پر مجبور ہوگئے۔
الیس نے 1942 میں دمشق کے قدیم امیہ ہوٹل میں ادبی اور سیاسی انجمن قائم کی تھی جس میں ان کے ہمعصر قد آور سیاستدان اور ادیب شرکت کیا کرتے تھے۔
الیس قندلفت مصر کے ساتھ شام کے اتحاد کے بعد لبنان منتقل ہوگئی تھیں۔ 60 کی دہائی کے وسط میں بیروت میں ان کا انتقال ہوا۔

شیئر: