Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پاکستان یا انڈیا: کلبھوشن کیس میں جیت کس کی ہوئی؟

آئی سی جے نے کلبھوشن کی بریت کی انڈیا کی درخواست مسترد کر دی۔ فوٹو: اے ایف پی
عالمی عدالت انصاف نے مبینہ انڈین جاسوس کلبھوشن جادھو کیس کا فیصلہ سنا دیا ہے جس کو پاکستان اور انڈیا اپنی اپنی فتح قرار دے رہے ہیں۔
عالمی عدالت انصاف کے فیصلے کے بعد دی ہیگ میں پاکستانی میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے اٹارنی جنرل انور منصور خان نے کہا کہ کلبھوشن کی رہائی نہ ہونا پاکستان کی جیت ہے کیونکہ عدالت نے واضح طور پر کہا ہے کہ کلبھوشن رہا نہیں ہوگا۔
انھوں نے کہا کہ عدالت نے واضح طور پر کہا ہے کہ کلبھوشن کے مقدمے پر نظر ثانی کی جائے اور ہماری ہائی کورٹ اس پر نظر ثانی کر سکتی ہے۔
عالمی عدالت انصاف کے فیصلے پر پاکستانی وزارت خارجہ نے بھی ایک بیان جاری کیا اور کہا کہ عدالت نے کلبھوشن جادھو کو بری کرنے، رہا کرنے اور واپس بھارت بھیجنے کی بھارتی درخواست مسترد کر دی ہے۔
ترجمان دفتر خارجہ کی جانب سے جاری ہونے والے بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ پاکستان ایک ذمہ دار ملک ہے اور قانون کے مطابق اس فیصلے پر عملدرآمد کیا جائے گا۔
 پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود نے بھی ٹویٹ کیا اور کہا کہ ’کمانڈر کلبھوشن جادھو پاکستان میں رہیں گے اور پاکستانی قوانین کے تحت ہی ان سے سلوک کیا جائے گا۔ اور یہی پاکستان کی جیت ہے۔‘
دوسری جانب انڈین میڈیا کلبھوشن تک قونصلر رسائی ملنے اور فیصلے پر نظر ثانی کے حکم کو لے کر اپنی فتح کے گیت گا رہا ہے اور پاکستان کو ’شکست‘ سے دوچار کرنے پر خوش ہے۔
انڈین چینلز نے بریکنگ نیوز چلائیں کہ عالمی عدالت انصاف میں انڈیا کو ’سنسنی خیز‘ فتح ملی ہے۔
انڈین وزیراعظم نریندرا مودی نے بھی ٹویٹ کیا اور عالمی عدالت انصاف کے فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ سچائی اور انصاف کا بول بالا ہوا ہے۔ ’عالمی عدالت انصاف کو حقائق کے تفصیلی مطالعے کے بعد فیصلہ سنانے پر مبارکباد پیش کرتا ہوں۔‘
مودی نے کہا کہ مجھے یقین ہے کہ کلبھوشن کو انصاف ضرور ملے گا۔ ’ہماری حکومت ہر انڈین کی حفاظت کے لیے اقدامات کرتی رہے گی۔‘
انڈین وزارت خارجہ نے فیصلے کو اپنے حق میں قرار دیتے ہوئے اس کا خیرمقدم کیا اور کہا کہ عالمی عدالت انصاف نے جہاں کلبھوشن کی سزا پر نظر ثانی کا کہا ہے وہیں پاکستان کو ویانا کنونشن کی خلاف ورزی کا مرتکب بھی قرار دیا ہے۔
انڈیا نے پاکستان سے مطالبہ کیا کہ عالمی عدالت انصاف کے فیصلے کی روشنی میں فوری طور پر کلبھوشن تک قونصلر رسائی دی جائے۔
اردو نیوز نے برطانیہ میں مقیم بین الاقوامی قوانین کی ماہر عائشہ اعجاز خان سے رابطہ کیا اور پوچھا کہ اس فیصلے سے کس کی فتح ہوئی ہے، تو ان کا جواب تھا کہ ’انڈیا نے عالمی عدالت انصاف سے کلبھوشن کی بریت، رہائی اور انڈیا واپسی کے لیے جو ریلیف مانگا تھا عدالت نے اپنے فیصلے میں اس کو مسترد کیا ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ اس بنیاد پر پاکستان اپنی فتح کا دعوی کر سکتا ہے کہ پاکستان کے اس بنیادی موقف کو تقویت ملی ہے کہ کلبھوشن جادھو پاکستان میں جاسوسی کر رہا تھا اور دہشتگردی میں ملوث تھا۔

دی ہیگ میں پاکستان کے اٹارنی جنرل انور منصور خان انڈین وفد کے ارکان سے مل رہے ہیں۔ فائل فوٹو: اے ایف پی 

عائشہ اعجاز خان نے کہا کہ چونکہ عدالت نے کلبھوشن کی سزا پر نظر ثانی کا کہا ہے اور پاکستان کو ویانا کنونشن کی خلاف ورزی کا مرتکب ٹھہرا کر انڈیا کو قونصلر رسائی دینے کا حکم جاری کیا ہے تو انڈین میڈیا کو بھی جشن منا لینے دیجیے۔
دوسری جانب پاکستانی وزارت خارجہ کی سابق لیگل ایڈوائزر رفعت بٹ کہتی ہیں کہ بنیادی طور پر یہ کیس قونصلر رسائی کا تھا جس کا فیصلہ انڈیا کے حق میں آیا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ پاکستان نے عالمی عدالت انصاف کے دائرہ سماعت اور پھر اس کیس کے قابل سماعت ہونے پر جو اعتراض کیا تھا وہ مسترد ہوا ہے تاہم عدالت نے انڈیا کی جانب سے کلبھوشن کی بریت، رہائی اور ملک واپسی کی اضافی استدعا کو مسترد کیا ہے۔ 
رفعت بٹ نے کہا کہ پاکستان کے لیے خوش آئند بات یہ ہے کہ عالمی عدالت انصاف نے پاکستان کی ملٹری کورٹ کے فیصلے اورعدالتی ضابطہ کار کے بارے میں کوئی تبصرہ نہیں کیا۔
یاد رہے کہ پاکستانی وزارت خارجہ کے ترجمان ڈاکٹر فیصل نے پہلے ہی کہا ہی تھا کہ کلبھوشن کی بریت اور رہائی کے حکم کے علاوہ کوئی بھی فیصلہ آئے وہ انڈیا کی ناکامی تصور ہوگا کیونکہ انڈیا نے بریت، رہائی اور وطن واپسی کے تین نکات پر کیس لڑا ہے۔

شیئر: