Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

منٹو حنیف محمد کی بیٹنگ کے دلدادہ تھے؟

منٹو نے اپنی موت سے ایک دن پہلے دوستوں کی بزم میں ایک خواہش ظاہر کی تھی، جس کا تعلق کرکٹ سے تھا۔
وہ انڈیا اور پاکستان کی کرکٹ ٹیموں کے درمیان لاہور میں ہونے والے ٹیسٹ میچ میں حنیف محمد کی بیٹنگ دیکھنے جانا چاہتے تھے لیکن اس میچ سے 11 دن پہلے وہ اور ان کی یہ آرزو، دونوں خاک میں مل گئے۔
18 جنوری 1955 کو پاکستانی ٹیم بہاولپور کے ڈرنگ سٹیڈیم میں سیریز کا دوسرا ٹیسٹ کھیل رہی تھی۔ منٹو کے عزیز بھانجے حامد جلال اس میچ میں کمنٹری کررہے تھے۔ ٹرنک کال کے ذریعے انھیں ماموں کے انتقال کی اطلاع دی گئی۔ یہ بری خبر سن کر وہ کمنٹری باکس میں آئے تو ساتھیوں نے دریافت کیا کہ خیریت تو تھی؟ اس پر انھوں نے کاغذ پر یہ جملہ لکھ دیا:
’امپائر نے سعادت حسن منٹو کو آخر آﺅٹ دے ہی دیا۔ آج صبح ان کا انتقال ہو گیا۔‘
حامد جلال نے اپنے مضمون ’منٹو ماموں کی موت‘ میں لکھا:
’منٹو ماموں کو آﺅٹ دینے کے لیے امپائر سے کئی بار اپیلیں کی جا چکی تھیں لیکن ہر بار اپیل مسترد کردی گئی تھی۔ اب ان کی بے صبر اور ڈانواں ڈول اننگز ختم ہوگئی تھی۔ وہ کرکٹ کے کھلاڑی ہوتے تو میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ وہ کبھی حنیف محمد کی طرح ہوشیار اور محتاط کھلاڑی نہیں بن سکتے تھے، جسے وہ لاہور کے تیسرے ٹیسٹ میچ میں کھیلتے ہوئے دیکھنے کے بے حد مشتاق تھے۔ اس کا علم مجھے ان کی موت کے 24 گھنٹے بعد گھر پہنچ کر ہوا۔ درحقیقت ان کی زندگی کی آخری دو خواہشوں میں سے ایک خواہش یہ بھی تھی، اپنی موت سے ایک دن پہلے انھوں نے ایک ریستوران میں اپنے دوستوں سے کہا تھا:
’حامد جلال کو واپس آجانے دو۔ میں اسی کے ساتھ ٹیسٹ میچ میں حنیف کا کھیل دیکھنے جاﺅں گا۔‘

حینف محمد کو لٹل ماسٹر کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے (تصویر: گیٹی امیجز)

حنیف محمد کی بیٹنگ دیکھنے کی منٹو کی خواہش کا ذکر معروف انڈین تاریخ دان رام چندرگوہا کی کتاب ’اے کارنر آف فارن فیلڈ‘ میں موجود ہے اور حامد جلال کی لائق فائق بیٹی اور ممتازمورخ عائشہ جلال کی تحریر کردہ منٹو کی سوانح میں بھی۔ 
 سنہ 1952میں انڈیا کے دورے سے واپسی پر قومی ٹیم کے چند کھلاڑی حامد جلال سے ملنے لکشمی مینشن میں ان کے فلیٹ پر آئے تو منٹو کی بھی ان سے ملاقات ہوئی۔ پاکستانی کھلاڑیوں میں دو کا نام حامد جلال نے اپنے مضمون میں وقار حسن اور محمود حسین لکھا ہے۔
کھلاڑی اپنے دورے کے تاثرات بیان کرنے لگے تو کچھ دیر منٹو نے ان کی باتیں سننا گوارا کیا لیکن پھر محمود حسین کو بات کرتے ٹوکا اور کہا ’مجھے معلوم ہے تمام تیز بولر فراڈ ہوتے ہیں۔ اچھا بتاﺅ نا تم گیند کو کس طرح بمپ کرتے ہو؟‘
حامد جلال کے بقول، اس کے بعد وقار حسن کو بھی منٹو ماموں کو بتانا پڑا کہ وہ اپنے ’فراڈ سٹروک‘ کیسے لگاتے ہیں۔
اس محفل میں منٹو نے کسی اور کو زیادہ بات نہ کرنے دی ،جس سے کھلاڑیوں کی زبانی دورے کا احوال سننے کے مشتاق حضرات کو الجھن ہوئی۔
 سنہ 2015 میں راقم الحروف کی کراچی میں حنیف محمد سے ملاقات ہوئی تو انھیں بتایا کہ اردو کے عظیم افسانہ نگار کو بھی ان کا کھیل پسند تھا، یہ جان کر وہ خوش ہوئے اور کہا کہ حامد جلال سے ان کا بہت اچھا تعلق تھا، وہ نفیس آدمی تھے۔ 
منٹو نے ایک کرکٹر کے نام کی رعایت سے ’ہپ ٹلا‘ کی اصطلاح ایجاد کی جو بہت چلی۔ منٹو نے اپنے یارِعزیز شیام پر خاکے میں اس بارے میں بڑی دل چسپ کہانی لکھی ہے۔ 

سنہ 1967 میں دورہ انگلینڈ کے دوران ناٹنگھم ٹیسٹ کی ایک یادگار تصویر (تصویر: گیٹی امیجز)

’ایک روز صبح گھر سے بمبئی ٹاکیز آتے ہوئے، میں نے ٹرین میں اخبارکا  سپورٹس کالم کھولا۔ برے برن سٹیڈیم میں کرکٹ میچ ہورہے تھے۔ ایک کھلاڑی کا نام کچھ عجیب وغریب تھا۔ ’ہپ ٹلا‘ ایچ، ای پی، ٹی یو، ایل ایل، ایچ اے....ہپ ٹلا.... میں نے بہت سوچا کہ آخر یہ کیا ہوسکتا ہے مگر کچھ سمجھ میں نہ آیا۔ شاید یہ ہیبت اللہ کی بگڑی ہوئی شکل تھی۔ سٹوڈیو پہنچا تو کمال کی کہانی کی فلمی تشکیل کا کام شروع ہوا۔ کمال نے اپنے مخصوص ادبیانہ اور اثر پیدا کرنے والے انداز میں کہانی کا ایک باب سنایا۔ مجھ سے اشوک نے رائے طلب کی ’کیوں منٹو‘، معلوم نہیں کیوں میرے منہ سے نکلا۔ ٹھیک ہے۔ مگر ہپ ٹلا نہیں! بات کچھ بن ہی گئی۔ ہپ ٹلا۔ میرا مطلب بیان کرگیا۔ میں کہنا یہ چاہتا تھا کہ سیکونس زوردارنہیں ہے۔
کچھ عرصے کے بعد حسرت نے اسی باب کوایک نئے طریقے سے پیش کیا۔ میری رائے پوچھی گئی تو میں نے اب کی دفعہ ارادی طور پر کہا۔ بھئی حسرت بات نہیں بنی۔ کوئی ہپ ٹلا چیز پیش کرو۔ ہپ ٹلا۔ دوسری مرتبہ، ہپ ٹلا کہہ کر میں نے سب کی طرف ردعمل معلوم کرنے کے لیے دیکھا۔ یہ لفظ اب معنی اختیارکرچکا تھا۔ چنانچہ اس نشست میں بلا تکلف میں نے اسے استعمال کیا۔ ہپ ٹیلٹی نہیں۔ ہپ ٹولائزکرنا چاہیے، وغیرہ وغیرہ، لیکن اچانک ایک بار اشوک مجھ سے مخاطب ہوا ’ہپ ٹلا کا اصل مطلب کیا ہے؟ کس زبان کا لفظ ہے!‘ شیام اس وقت موجود تھا، جب اشوک نے مجھ سے سوال کیا۔ اس نے زور کا قہقہہ لگایا۔ اس کی آنکھیں سکڑ گئیں۔ ٹرین میں وہ میرے ساتھ تھا۔ جب میں نے کرکٹ کے کھلاڑی کے اس عجیب وغریب نام کی طرف اس کو متوجہ کیا تھا، ہنس ہنس کر دوہرا ہوتے ہوئے، اس نے سب کو بتایا کہ یہ منٹو کی نئی منٹویت ہے۔ جب کچھ سمجھ میں نہ آیا تو ہپ ٹلا کو کھینچ کرفلمی دنیا میں لے آیا۔ مگر کھینچا تانی کے بغیر لفظ بمبئی کے فلمی حلقوں میں رائج ہوگیا۔ 29 جولائی 1948ء کے خط میں شیام مجھے لکھتا ہے:
’پیارے منٹو! اب کی دفعہ تم پھرخاموش ہو، تمہاری یہ خاموشی مجھے بہت دق کرتی ہے۔ اس کے باوجود کہ میں تمھارے دماغی تساہل سے بخوبی واقف ہوں۔ میں غصے سے دیوانہ ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا جبکہ تم یکلخت چپ سادھ لیتے ہو۔ اس میں شک نہیں کہ میں بھی کوئی بہت بڑا خط باز نہیں ہوں۔ لیکن مجھے ایسے خط لکھنے اور وصول کرنے میں لطف حاصل ہوتا ہے، جو ذرا الگ قسم کے ہوں.... یعنی ہپ ٹلا۔ لیکن ہپ ٹلا یہاں بہت ہی نایاب چیز ہو گئی ہے.... اسے کاغذ پر لکھو تو کم بخت ’ہپ ٹلی‘ بن جاتی ہے اور اگر یہ ہپ ٹلی بھی دستیاب نہ ہو تو بتاﺅ کتنی کوفت ہوتی ہے۔ معاف کرنا، اگر میں نے ہپٹولائز کرنا شروع کردیا ہو.... لیکن کیا کروں۔ جب حقیقتیں گم ہو جائیں تو انسان ہپٹولیٹ ہی کرتا ہے مگر مجھے کچھ پروا نہیں کہ تم کیا کہو گے کیا نہیں کہو گے۔ میں اتنا جانتا ہوں اور تمہیں اس کا علم ہو گا کہ تم ایسے بڑے ہپ ٹلا کو اس میدان میں شکست دینے کا سہرا صرف میرے سرہے۔‘

منٹو اپنی موت سے قبل حنیف محمد کو بیٹنگ کرتے دیکھنا چاہتے تھے 

ہپ ٹلا کے بارے میں ہمیں جو معلومات حاصل ہوئی ہیں، ان کے مطابق، ہپ ٹلا کا پورا نام صالح بھائی ہپ ٹلا تھا اور اس نے اپنے پہلے فرسٹ کلاس میچ میں گجرات کی نمائندگی کرتے ہوئے وجے ہزارے کو آﺅٹ بھی کیا۔ ہپ ٹلا، بمبئی اور مسلمز کی ٹیم کی طرف سے بھی کھیلا۔ کرک انفو کے مطابق، ہپ ٹلا نے سنہ 1934 سے سنہ 1948 تک فرسٹ کلاس کرکٹ کھیلی۔ سنہ 1966 میں بمبئی میں اس کا انتقال ہوا۔
 عصمت چغتائی کے منٹو پر خاکے میں بھی ایک جگہ کرکٹ کا ذکر آیا ہے: 
’ایک دن دفتر میں گرمی سے پریشان ہو کر میں نے سوچا جا کر منٹو کے یہاں آرام کرلوں پھر واپس ملاد جاﺅں۔ دروازہ حسب معمول کھلا ہوا تھا، جا کر دیکھا تو صفیہ منہ پھلائے لیٹی ہے۔ منٹو ہاتھ میں جھاڑو لیے سٹا سٹ پلنگ کے نیچے ہاتھ مار رہا ہے اور ناک پر کرتے کا دامن رکھے میز کے نیچے جھاڑو چلا رہا تھا۔
’یہ کیا کررہے ہیں؟‘ میں نے میز کے نیچے جھانک کر پوچھا۔
’کرکٹ کھیل رہا ہوں۔‘ منٹو نے بڑی بڑی مور پنکھ جیسی پتلیاں گھما کر جواب دیا۔

شیئر: