Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

دوہری شہریت ،’الیکشن لڑنے کی اجازت آئین سے متصادم‘

آئینی ماہرین کا خیال ہے کہ کابینہ کے فیصلہ پر عمل درآمد کے لیے آئین میں ترمیم کرنا پڑے گی۔فوٹو اے ایف پی
وفاقی کابینہ نے جمعرات کو دوہری شہریت کے حامل پاکستانیوں کو انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت دینے کی منظوری دی ہے تاہم قانونی اور آئینی ماہرین کے مطابق حکومت اس فیصلے پر عمل درآمد کرنے کی پوزیشن میں نہیں کیوں کہ یہ آئین کی دو شقوں سے متصادم ہے۔
رات گئے کابینہ کے فیصلوں کے حوالے سے صحافیوں کو بریفنگ دیتے ہوئے وزیراعظم کی معاون خصوصی برائے اطلاعات فردوس عاشق اعوان نے کہا تھا کہ وزیراعظم چاہتے ہیں کہ بیرون ملک پاکستانی ملکی امور میں دلچسپی لیں اور ملک کی رہنمائی کریں اس لیے ان کے انتخابات میں حصہ لینے اور پارلیمان کے رکن بننے کے حوالے سے تجاویز دینے کے لیے ایک اعلی سطحی کمیٹی قائم کر دی گئی ہے۔

آئین میں ترمیم ضروری ہو گی!

دوسری طرف قانونی اور آئینی ماہرین کا خیال ہے کہ کابینہ کے فیصلہ پر عمل درآمد کے لیے آئین میں ترمیم کرنا پڑے گی۔
اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے سابق وزیرقانون اورسپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر علی ظفر نےکہا کہ آئین کی دفعات باسٹھ اور تریسٹھ میں واضح کیا گیا ہے کہ پاکستان کی پارلیمنٹ کے رکن کے لیے لازم ہے کہ وہ پاکستان کا شہری ہو۔
آئین کی آرٹیکل باسٹھ اے میں کہا گیا ہے کہ پاکستانی شہری ہی پارلیمنٹ کا رکن  بننے کا اہل ہو گا جبکہ آرٹیکل تریسٹھ سی کے مطابق جو شخص کسی دوسرے ملک کی شہریت حاصل کرے گا وہ پارلیمنٹ کی رکنیت کے لیے نااہل ہو جائے گا۔
علی ظفر کے مطابق انہوں نے سپریم کورٹ میں ان دفعات کی وضاحت کے لیے دلائل دیے تھے اور کہا تھا کہ چونکہ پاکستان شہریت ایکٹ میں دوہری شہریت کو تسلیم کیا گیا ہے اس لیے ایسے افراد کو انتخابات میں حصہ لینے اور پالیمنٹ کا رکن بننے کا اہل قرار دیا جائے تاہم عدالت عظمیٰ نے ان دلائل کو مسترد کرتے ہوئے تشریح کی تھی کہ آئین کے مطابق دوہری شہریت کا حامل شخص ممبر پارلیمنٹ نہیں بن سکتا۔

عمران خان دورہ امریکہ میں امریکی نژاد پاکستانیوں سے خطاب کرتے ہوئے۔ فوٹو اے ایف پی

ان کا کہنا تھا کہ حکومت کوکابینہ کے حالیہ فیصلے پر عمل درآمد کرنے کے لیے آئین میں ترمیم کرنا پڑے گی جس کے لیے پارلیمان کے دو تہائی اکثریت درکار ہے۔ یاد رہے کہ اس وقت حکومت کو قومی اسمبلی میں صرف سادہ اکثریت حاصل ہے جبکہ سینٹ میں سادہ اکثریت بھی حاصل نہیں ہے۔
پاکستان کے الیکشن کمیشن کے سابق سیکرٹری کنور دلشاد کے مطابق کابینہ کے فیصلے پر عمل کے لیے حکومت کو آئین کے بنیادی ڈھانچے میں تبدیلی کرنا پڑے گی اور سپریم کورٹ کے ایک فیصلے کے مطابق ایسا کرنا قانون ساز اسمبلی کے اختیار سے باہر ہے۔ ’صرف ایک نئی آئین ساز اسمبلی ہی دو تہائی اکثریت سے ایسا فیصلہ کر سکتی ہے۔‘

اقامہ کا ہنگامہ اور دوہری شہریت

یاد رہے کہ موجودہ حکمران جماعت نے مسلم لیگ نواز کے چند ارکان  کی طرف سے خلیجی ممالک کا اقامہ (رہائشی اجازت نامہ) رکھنے پر ان کے خلاف نااہلیت کی درخواستیں جمع کروائی تھیں۔  پی ٹی آئی کے رہنما عثمان ڈار کی پٹیشن پر مسلم لیگی رہنما خواجہ آصف کودبئی کا اقامہ رکھنے پر اسلام آباد ہائی کورٹ نے نااہل قرار دیا تھا تاہم سپریم کورٹ نے خواجہ آصف کی اپیل پر ان کی نا اہلیت ختم کر دی تھی۔  وزیراعظم عمران خان اور کابینہ کے متعدد ارکان بھی ماضی میں سابق وزیراعظم نواز شریف اور خواجہ آصف پر دبئی کا اقامہ رکھنے پر شدید تنقید کرتے رہے ہیں۔
 کنور دلشاد کے مطابق اقامہ رکھنے پر اگر کوئی نااہل ہو سکتا ہے تو پھر دوہری شہریت تو اس سے آگے کی چیز ہے اسکی اجازت کیسے دی جا سکتی ہے۔ ’اقامہ تو صرف نوکری کے لیے حاصل کیا جاتا ہے جبکہ دوسرے ملک کی شہریت تو اس ملک کے ساتھ وفاداری کا حلف اٹھا کر حاصل کی جاتی ہے‘

عمران خان ماضی میں سابق وزیراعظم نواز شریف اور خواجہ آصف پر دبئی کا اقامہ رکھنے پر شدید تنقید کرتے رہے ہیں۔ فوٹو اے ایف پی

سابق سیکرٹری کا کہنا تھا کہ وزیراعظم کی کابینہ کے ٹیکنو کریٹ ارکان میں سے متعدد دوہری شہریت کے حامل ہیں تاہم ملکی سلامتی کے موجودہ حالات میں دوہری شہریت کے حامل افراد کو پارلیمنٹ کا رکن بننے کی اجازت دینا مناسب نہیں۔

دوہری شہریت پر سپریم کورٹ کے فیصلے

تاہم پاکستان کی سپریم کورٹ نے حال ہی میں مسلم لیگ نواز کے دو سینیٹرز سعدیہ عباسی اور ہارون اختر کو دوہری شہریت رکھنے کی بنا پر نا اہل کر چکی ہے۔ تاہم سابق چیف جسٹس پاکستان ثاقب نثار کی سربراہی میں قائم سپریم کورٹ کے ایک تین رکنی بینچ نے گزشتہ سال دسمبر میں پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اور وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے بیرون ملک پاکستانی زلفی بخاری جو کو دہری شہریت کے باوجود کام کرنے کی اجازت دی تھی۔ سابق چیف جسٹس کے ریمارکس تھے کہ  ’ہم ڈکلئیر کر رہے ہیں کہ وہ منسٹر نہیں۔ اسپیشل اسسٹنٹ کے لیے دوہری شہریت کی پابندی نہیں۔‘

امریکی نژاد پاکستانی کانگریس میں عمران خان کا خطاب سن رہے ہیں۔ فوٹو ٹوئٹر

سرکاری ملازمین کی دہری شہریت ملک کے لیے خطرہ

گزشتہ سال دسمبر میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ نے دوران ملازمت غیر ملکی شہریت رکھنے والے ملازمین کے خلاف کارروائی کا حکم دیا تھا۔ عدالت نے غیر ملکی شہریت والے سرکاری ملازمین کو ملکی مفاد کیلئے خطرہ قرار دیا تھا اور وفاقی وصوبائی حکومتوں کو دوہری شہریت سے متعلق قانون سازی کرنے کا حکم دیا تھا۔
عدالتی فیصلے میں کہا گیا تھا کہ وفاقی و صوبائی حکومت اس معاملے پر قانون سازی کریں، متعلقہ حکومتیں ایسے ملازمین کو ڈیڈلائن دیں کہ وہ نوکری چھوڑ دیں یا دوہری شہریت چھوڑ دیں۔
تفصیلی فیصلے میں دوہری شہریت اور غیر ملکی شہریت رکھنے والوں کی تفصیلات بھی دی گئی تھی جس کے مطابق ملک بھر میں دوہری شہریت اور غیر ملکی شہریت کے حامل 1 ہزار 116 افسران کام کر رہے ہیں، جبکہ 1 ہزار 249 افسران کی بیگمات دوہری شہریت اور غیر ملکی شہریت کی حامل ہیں۔

شیئر: