Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

 دولہا نکاح نامے میں شرائط لکھوا سکتا ہے؟

سعودی عرب میں کچھ عرصہ پہلے تک خواتین نکاح نامے میں من پسند شرائط تحریر کرا سکتی تھیں مثلاً یہ کہ شادی کے بعد تعلیم جاری رکھنے پر کوئی پابندی نہیں ہو گی، ملازمت سے نہیں روکا جائے گا، سوتن نہیں لائی جائے گی، ملازمہ کا انتظام کرناہوگا وغیرہ تاہم اب دلہنوں کی دیکھا دیکھی دولہوں نے بھی نکاح نامے میں شرائط پیش کرنا شروع کر دیں۔
سبق ویب کے مطابق سعودی وکیل احمد عیبان نے دولہوں کے حوالے سے قانونی موقف پیش کرتے ہوئے کہا کہ’ اگر شوہر چاہے تو وہ بھی نکاح نامے میں اپنی پسند کی شرطیں ڈال سکتا ہے۔ مثلاًوہ یہ شرط لگا سکتا ہے کہ بیوی اسکی مرضی کے بغیر سفر نہیں کر سکتی۔وہ یہ شرط بھی عائد کر سکتا ہے کہ بیوی کسی بھی قسم کی ایپلیکشن استعمال نہیں کر سکے گی‘۔
نکاح نامے میں انہی مردانہ شرائط نے نئی بحث چھیڑ دی۔ قانونی رائے پر جب ردعمل سامنے آیا تو احمدالعیبان نے یہ مشورہ پیش کیا کہ اگر بیوی شادی کے بعد ملازمت جاری رکھنے کی شرط نکاح نامے میں شامل کرنا چاہے تو کر سکتی ہے یہ اسکا حق ہے۔
خاتون رکن شوریٰ ڈاکٹر اقبال درندری نے العیبان پر تنقید کرتے ہوئے کہا ’وکیل محترم !کیا نکاح نامے میں ایسی شرائط کے اضافے کی کوئی گنجائش ہو سکتی ہے جو سعودی عرب کے قانونِ نکاح کے سراسر منافی ہوں‘ ؟۔
رکن شوریٰ نے یہ بھی پوچھا کیا مرد حضرات نکاح نامے میں ایسی شرائط عائد کر سکتے ہیں جن سے خواتین کے حقوق پر قدغن لگائی جا رہی ہو؟۔
’کیا مرد حضرات کو نکاح نامے میں خواتین کے ساتھ ان کے حقوق کے بارے میں سودے بازی کی اجازت دی جا سکتی ہے‘؟
خاتون رکن شوریٰ نے اپنا موقف واضح کرتے ہوئے کہا کہ ایسی شرائط جن سے کسی کا بنیادی حق متاثر نہ ہو رہا ہو ، لگائی جا سکتی ہیں۔ مثال کے طور پر اگر کوئی خاتون یہ شرط لگا رہی ہو کہ اس پر کوئی سوتن نہیں لائی جائے گی تو اس میں کوئی قباحت نہیں کیونکہ یہ مرد کا بنیادی حق سلب کرنیوالی شرط نہیں ہے۔
خاتون رکن شوری کا کہنا تھا کہ دوسری شادی تفریح طبع کے لیے کی جاتی ہے۔اس سے پہلی بیوی کو نقصان بھی ہوتا ہے۔جہاں تک ملازمت نہ کرنے اور سفر سے محروم کرنیوالی شرائط تھوپنے کا تعلق ہے تو ایسا کرنے سے خاتون کے بنیادی حقوق متاثر ہوتے ہیں۔رفتہ رفتہ یہ عمل انسانی اسمگلنگ کے دائرے میں آجائے گا۔
ڈاکٹر اقبال درندری نے مزید کہا کہ اس قسم کی شرائط بنیادی طور پر غلط ہیں۔ ان سے خواتین کے ایسے بنیادی حقوق ختم ہو جاتے ہیں جن کی ضمانت سعودی قانون نے دے رکھی ہے۔اگر کسی نے نکاح نامے میں اس قسم کی شرائط لکھوا دیں تو ان پر عمل درآمد ضروری نہیں ہو گاکیونکہ یہ شرائط غیر قانونی ہیں۔

 

ایک اور وکیل محمد المری نے رائے دی کہ میرے نقطہ نظر سے یہ غیر اخلاقی شرائط ہیں۔اس قسم کی شرائط وہی شخص لگا سکتا ہے جو مکمل شریک حیات میں یقین نہ رکھتا ہو۔ اصولی بات یہ ہے کہ شوہر بیوی دونوں کو خود مختار ہونا چاہئے ، یہ انکا بنیادی حق ہے۔ اگر فریقین میں سے کوئی ایک دوسرے کو زیر کرنے والی شرائط عقائد کر رہا ہو تو یہ کوئی اچھی علامت نہیں۔اس قسم کی شرائط شادی کو ناکام بنانے کا الارم ہے۔
خاتون وکیل خلود الغامدی کا کہنا تھا کہ خاتون بھی شوہر پر شرطیں عائد کر سکتی ہے مثلاًوہ نکاح نامے میں یہ شرطیں شامل کر سکتی ہے کہ اس کے کسی بھی ای پروگرام میں شوہر مداخلت کا مجاز نہیں ہو گا۔اسے سفر سے نہیں روکے گا ، ڈرائیونگ پر پابندی نہیں لگائے گا، ملازمت کی راہ میں حائل نہیں ہو گا۔طلاق کی صورت میں ایک لاکھ ریال یا اس سے زیادہ دینے ہوں گے۔

شیئر: