Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کشمیر کی آزادی تک ادھار بند ہے

انڈیا میں مودی حکومت نے 5 اگست کو کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے لیے آئین میں ترمیم کی
کشمیر پر بھارتی جارحیت کے بعد ہمارے ٹی وی چینلز پر جو ٹاک شوز ہو رہے ہیں اس سے عوام کی کنفیوژن میں مزید اضافہ ہو رہا ہے۔
یوں لگتا ہے کہ تمام تر جہادی اینکرز، دفاعی و نیم دفاعی تجزیہ کار اور خلائی اور نیم خلائی صحافی ابھی تک کسی متفقہ نتیجے پر نہیں پہنچ سکے۔ کوئی متحد متبادل بیانیہ ابھی تک "باوثوق ذرائع" کی مدد سے سامنے نہیں آ سکا۔
کچھ سمجھ نہیں آ رہا بات کیا کرنی ہے، دفاع کس بات کا کرنا ہے اور" منہ توڑ" جواب کس بات کا دینا ہے؟
کیا اب بھی "کشمیر بنے گا پاکستان " کا نعرہ لگانا ہے یا پھر " ایسی تیسی ہندوستان " کی بات کرنی ہے؟ کشمیر کو" شہ رگ" کہنا ہے یا پھر "اٹوٹ انگ" پر اکتفا کرنا ہے؟ بھارت کو مکار دشمن کہنا ہے یا اپنی لاپرواہی پر نگاہ کرنی ہے؟
جنگ کی بات کرنی ہے یا امن کا پرچم لہرانا ہے؟ کشمیر میں ہونے والے مظالم کا ملبہ ملیحہ لودھی پر ڈالنا ہے یا پھر وزیر خارجہ کی کھنچائی کرنی ہے؟ اس الیمے کا ذمہ دار نواز شریف کو قرار دینا ہے یا پھر زرداری کے سوئس اکاؤنٹس پر اس کا الزام دھرنا ہے؟ سیاست دانوں کی مزید گرفتاریاں کرنی ہیں یا وزیراعظم نے قوم سے خطاب کرنا ہے؟

کیا اب بھی "کشمیر بنے گا پاکستان " کا نعرہ لگانا ہے یا پھر " ایسی تیسی ہندوستان " کی بات کرنی ہے؟

عمراں خان کو ذمہ دار ٹھہرانا ہے یا پھر خارجہ پالیسی  کی ناکامی کا ذکر شروع کرنا ہے؟ کشمیریوں کی دل جوئی کرنی ہے یا پھر اپنی معیشت کا نوحہ پڑھنا ہے؟ میڈیا کی بے راہ روی کو الزام دینا ہے یا پھر چند صحافیوں کو اینٹی پاکستان کہنا ہے؟ سوشل میڈیا کے جہادیوں کو نئی گالیوں کا نصاب دینا ہے یا پھر سیاسی جماعتوں کی بیخ کنی کرنی ہے؟ عالمی ضمیر کو جھنجھوڑنا ہے یا پھر اسے مردہ کہہ کر شتاب ہو جانا ہے؟
کنفیوژن بڑھتی جارہی ہے۔ ایسے محسوس ہو رہا ہے کہ کسی کو کچھ سمجھ نہیں آ رہی۔ بس اس شخص کو تلاش کیا جا رہا ہے جس پر اس سارے المیے کا الزام دھرا جا سکے۔
تجزیہ کاران ملت ہر ہر طریقے سے قوم کی تشفی کے لیے نت نئے دلائل سامنے لا رہے ہیں مگر قوم کی تشفی نہیں ہو رہی۔ اس ناتمام تشفی کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ہمیں برسوں سے بتایا جا رہا تھا کہ کشمیر کی آزادی کے لیے ہم خون کا آخری قطرہ بھی بہا دیں گے۔ کشمیر کی طرف میلی نگاہ سے دیکھنے والے دشمن کی آنکھیں نکال دیں گے۔ ہم اپنی جانیں دے کر کشمیر کے ایک ایک انچ کی حفاظت کریں گے۔ کشمیر پر بین الا قوامی ضمیر سویا ہوا ہے مگر خون مسلم جاگ رہا ہے وغیرہ وغیرہ۔
ہم نے بچپن سے آج تک دکانوں پر لکھے بورڈ پڑھے ہیں کہ کشمیر کی آزادی تک ادھار بند ہے۔ ہم نے مارکیٹوں میں کشمیر کے چندہ جمع کرنے والی صندوقچیوں میں اپنا جیب خرچ بھی ڈالا۔ ہم نے کشمیر کے گیت بھی لکھوائے اور ان کو بارہا ٹی وی پر چلوایا۔ ہم نے سرکاری ریڈیو اور ٹی وی میں کشمیر سیل بھی کھولے۔ ہم نے دھائیوں ہر خبرنامے میں کشمیر میں ہونے والے مظالم کو جگہ دی۔  
کئی دہائیوں کی یہ مشق اب ہم کو یاد ہو گئی ہے۔ اس لیے اب اگر لوگ کشمیر پر سودا بازی کا الزام لگا رہے ہیں تو اس کی وجہ وہ سارے اسباق ہیں جو کئی دہائیوں تک ہمارے حافظے پر نقش کروائے گئے ہیں۔
ابھی چند دن پہلے ہی کی تو بات ہے خان صاحب امریکہ سے کشمیر کی ثالثی کا تمغہ لے کر آئے تھے۔ وہ اس اعزاز کو ورلڈ کپ قرار دے رہے تھے۔ پوری کابینہ نے ان کے اس زریں کارنامے پر ایک دوسرے کو دھکے دے دے کر ان کو پھولوں کے ہار پہنائے تھے۔  پھر یہ اچانک کیا ہو گیا۔ ثالثی کی وہ پیش کش کیوں دم توڑ گئی۔ ورلڈ کپ ہاتھ سے کیوں گر کر چکنا چور ہو گیا۔
بات صرف اتنی ہے کہ بھارت نے جو ظلم ڈھانا تھا ڈھا دیا۔ مودی جی نے جو کرنا تھا وہ کر گزرے۔ اب اس کے جواب میں ہم ٹی وی کی جگمگاتی سکرینوں پر جو مرضی کہیں اس سے لوگ مطمئن نہیں ہو رہے۔
عمران خان جنہوں نے کبھی پارلیمنٹ سے مشورہ نہیں کیا وہ جب مشورہ کر رہے ہوتے ہیں کہ کیا میں جنگ شروع کر دوں؟ تو اس سے لوگوں کی تسلی نہیں ہو رہی۔ جب شاہ محمود قریشی جنگ کو احمقوں کی جنت قرار دیتے ہیں تو لوگ حیران ہوتے ہیں کہ ہمیں تو کچھ اور سبق پڑھایا گیا تھا۔
اب جو کشمیر کی آزادی کے لیے زلفی بخاری لندن میں جلسے کررہے ہیں تو لوگوں کو یقین نہیں آ رہا۔ اب جو شیخ رشید لندن جا کر اس آزادی کشمیرکے لیے شاپنگ کر رہے ہیں تو لوگ مطمئن نہیں ہو رہے۔ اب جو جگہ جگہ سیاہ ماتمی غبارے چھوڑے جا رہے ہیں اس سے لوگوں کا غم ہلکا نہیں ہو رہا۔ اب جو ڈی چوک پر ہزار سے بھی کم لوگوں کی مدد سے ’کشمیر بنے گا پاکستان‘ کے نعرے لگ رہے ہیں اس سے لوگوں کی تسلی نہیں ہو رہی۔

کچھ سمجھ نہیں آ رہا بات کیا کرنی ہے، دفاع کس بات کا کرنا ہے اور" منہ توڑ" جواب کس بات کا دینا ہے؟

اب لوگوں کو سلامتی کونسل والا بیانیہ پھسپھسا لگ رہا ہے۔ اس کٹھن وقت میں تجزیہ کاران ملت کوئی بھی حل پیش کرنے میں ناکام ہیں۔ کوئی ایسی دلیل سامنے لانے میں کامیاب نہیں ہوئے جس سے دکھ کا مداوا ہو، جو زخم کے لیے مرہم ہو، جو درد کے لیے دوا ہو۔
اب تو کشمیرکی آزادی کے لیے ایک ہی حل سوچا جا سکتا ہے کہ کبھی آئی ایم ایف، ورلڈ بینک کے باہر جلی حروف میں لکھا ہو کہ " کشمیر کی آزادی تک ادھار بند ہے" پھر دیکھیے ہم کس جانفشانی اورلگن سے راتوں رات کشمیر کو آزاد کرواتے ہیں۔

شیئر: