Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’مہنگائی تو برداشت کی تھوڑا کشمیر کے لیے بھی کر لیں‘

اگرچہ پاکستان اور انڈیا کے درمیان تعلقات اس سال کے آغاز سے ہی کشیدہ چلے آ رہے تھے لیکن اس مہینے کی پانچ تاریخ کو انڈین حکومت کی جانب سے اپنے زیر انتظام کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت اور داخلی خودمختاری کے خاتمے کے بعد دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی عروج پر ہے۔
اس کشیدگی کا اثر دونوں ملکوں کے عوام پر بھی پڑ رہا ہے۔ دونوں ممالک کے شہری ایک دوسرے کے خلاف سوشل میڈیا پر صف آرا ہیں اور آئے روز ایک دوسرے کے خلاف سوشل میڈیا پر پروپیگنڈا کرنے اور ٹرینڈ چلانے میں مصروف ہیں۔
گذشتہ دنوں پاکستانی سوشل میڈیا صارفین انڈین وزیراعظم مودی کے جہاز کو پاکستان کی فضائی حدود کے استعمال کی اجازت دینے پر اپنی حکومت کے خلاف غصے کا اظہار کرتے پائے گئے اور انڈیا کے لیے پاکستانی فضائی حدود بند کرنے کے مطالبے پر مبنی ٹرینڈز بھی چلائے گئے۔

انڈیا کی جانب سے کشمیر کی خود مختار حیثیت ختم کرنے کے بعد وادی میں معمولات زندگی معطل ہیں، فوٹو اے ایف پی

سوشل میڈیا پر یہ مہم اتنی زوردار تھی کہ پاکستان کے وزرا کو بیانات دینا پڑے کہ حکومت فضائی حدود بند کرنے پر غور کر رہی ہے، تاہم بعد میں وزیر خارجہ نے وضاحت کی کہ اس حوالے سے ابھی تک کوئی فیصلہ نہیں ہوا۔
اس وقت ٹوئٹر کے ٹاپ ٹرینڈز میں انڈیا کی مصنوعات کے بائیکاٹ کا ہیش ٹیگ شامل ہے۔
صارفین انڈیا کی مختلف مصنوعات کی فہرست شیئر کرکے پاکستانیوں پر زور دے رہے ہیں کہ وہ ان کا استعمال بند کریں اور پاکستانی ہونے کا ثبوت دیں۔
صارفین کی بڑی تعداد انڈین کاسمیٹکس کی مصنوعات کا استعمال بند کرنے کی اپیل بھی کر رہی ہے۔
 
’بائیکاٹ انڈین پراڈکٹس‘ مہم کے حوالے سے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے فاخرہ نامی خاتون نے کہا کہ وہ پہلے انڈین کاسمیٹکس استعمال کرتی تھیں لیکن اب نہیں کر رہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ انڈین اور پاکستانی کاسمیٹکس مصنوعات میں پیکنگ کے علاوہ کوئی فرق نہیں۔ ان کے مطابق دونوں ممالک کی مصنوعات کی کوالٹی ایک جیسی ہے۔ ’جب میں انڈین پراڈکٹس استعمال کرتی تھی تو اس وقت انڈین مصنوعات کی قیمتیں زیادہ تھیں اور معیار میں کوئی فرق نہیں تھا اس لیے میں نے ان کا استعمال چھوڑ دیا تھا۔
فریحہ کا کہنا تھا کہ انڈین مصنوعات کے بائیکاٹ سے پاکستانی صارفین پر کوئی فرق نہیں پڑے گا اس لیے انڈین کاسمیٹکس اور دوسری مصنوعات کا بائیکاٹ ہونا چاہیے۔
صائمہ صدیق نامی خاتون نے بائیکاٹ مہم کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ظاہر ہے اگر انڈین مصنوعات آنا بند ہو گئیں تو صارفین کو ان کا متبادل ڈھونڈنے میں مشکل ہو گی۔ ہو سکتا ہے ان کا متبادل مہنگا ہو اور انہیں زیادہ قیمت ادا کرنا پڑے۔
تاہم صا ئمہ کا کہنا تھا کہ ’اگر ہم موجودہ حکومت میں ہونے والی ہوشربا مہنگائی برداشت کر رہے ہیں تو کچھ مہنگی مصنوعات کا خریدنا کشمیر کاز کے لیے بھی قبول کر لیں۔ ان کا کہنا تھا کہ قومی کاز کے لیے وہ کاسمیٹکس کے استعمال پر زیادہ اخراجات بھی برداشت کرنے کے لیے تیار ہیں۔

انہوں نے حکومت کو مشورہ دیا کہ مارکیٹ سروے کرکے انڈین مصنوعات کا سستا یا کم مہنگا متبادل متعارف کرائے۔
اسلام آباد چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے ایگزیکٹو ممبر اور پنجاب کیش اینڈ کیری کے مالک چودھری محمد طاہر نے اردو نیوز کو بتایا کہ انڈیا سے فوڈ سٹف، فریش فروٹ، ٹماٹر اور مسالہ جات آتے ہیں۔
چودھری محمد طاہر نے بھی انڈین مصنوعات کے بائیکاٹ کی حمایت کی۔ ان کا کہنا تھا کہ ’گو کہ بائیکاٹ سے وقتی طور پر کاروبار پر فرق پڑے گا لیکن ایک قومی مقصد کے لیے ہمیں ان مصنوعات کا بائیکاٹ کرنا چاہیے۔‘
ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ انڈین مصنوعات کے بائیکاٹ کے کاروباری افراد اور صارفین پر کچھ منفی اثرات تو ہوں گے لیکن جب کشمیر میں انڈیا کے مظالم کو دیکھتے ہیں تو پھر ہمیں ہر حد تک جانا چاہیے۔

سوشل میڈیا پر بائیکاٹ انڈین پراڈکٹس والے ٹرینڈ میں حصہ لیتے ہوئے دی پیٹریاٹ نامی ٹوئٹر صارف نے ٹویٹ کیا کہ بیرون ملک پاکستانیوں کے لیے یہی وقت ہے کہ وہ انڈیا میں تیار کردہ تمام مصنوعات کا مکمل بائیکاٹ کریں اور کشمیر کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔
ارشاد بھٹی نے ٹویٹ کیا کہ ’پاکستان کے غداروں کے لیے بری خبر، عمران خان نے کابینہ اجلاس میں دوٹوک فیصلہ کیا ہے کہ انڈیا کے لیے فضائی حدود مکمل طور پر بند کر دی جائے۔ واہگہ سے جو تجارت افغانستان اور انڈیا کی ہو رہی ہے وہ مکمل بند کر دی جائے، اور سب سے بڑی خبر بھارت کو نمک کی ترسیل بھی فوری طور موخرکی جائے۔‘
خرم نامی ٹوئٹر صارف نے لکھا کہ بائیکاٹ ہی بی جے پی کی انڈیا کی جانب سے کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا بہترین اور حب الوطنی پر مبنی جواب ہے۔

اس ٹرینڈ میں مختلف انڈین صارفین بھی حصہ لے رہے ہیں اور بائیکاٹ انڈین پراڈکٹس کی مخالفت میں ٹویٹ کر رہے ہیں۔
انیل پٹیل نامی صارف نے لکھا کہ اگر پاکستانی حقیقتاً انڈین مصنوعات کا بائیکاٹ کرنا چاہتے ہیں تو انہیں پہلے پانی کا بائیکاٹ کرنا چاہیے کیونکہ پانی انڈیا سے آتا ہے۔
بعض صارفین نے ٹرینڈ میں حصہ لیتے ہوئے مزاحیہ ٹویٹ بھی کیں۔ حسن قدرت نامی ٹوئٹر ہینڈل نے بائیکاٹ انڈین پراڈکٹس ہیش ٹیگ کے ساتھ کرکٹر شعیب ملک اور حسن علی کی انڈین بیگمات کی تصویر شیئر کیں۔

حفیط فاطمہ نامی صارف نے بائیکاٹ انڈین پراڈکٹس کے ہیش ٹیگ کے ساتھ لکھا کہ ’میں تمام پاکستانیوں سے درخواست کرتی ہوں کہ وہ اپنے ڈی پی پر کسی بھی انڈین اداکار یا اداکارہ کی تصویر نہ لگائیں۔‘
نوید نامی صارف نے مختلف کاسمیٹکس مصنوعات کی تصاویر شیئر کرکے لکھا کہ تمام انڈین کاسمیٹکس کا بائیکاٹ کریں۔
پاکستانی اداکارہ وینا ملک نے ٹرینڈ میں حصہ لینے ہوئے لکھا کہ ’دو لوگ بوجہ مجبوری انڈین پراڈکٹس کا بائیکاٹ نہیں کر سکتے۔۔۔ باقی سب تو کریں‘

شیئر: