Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اوغلو مستعفی، ترک سیاست میں بھونچال

صدر طیب اردوغان نے داؤد اوغلو کی علیہدگی پر کہا کہ پارٹی سے علیحدگی کی تحریکیں ماضی میں بھی ناکام ہوئی ہیں۔ فوٹو اے ایف پی
سابق ترک وزیر اعظم احمد داؤد اوغلو کا حکمران جماعت جسٹس اینڈ ڈیویلپمنٹ پارٹی (اے کے پی) کی رکنیت سے استعفیٰ ترکی کی سیاست میں بھونچال لے آیا ہے۔
احمد داؤد اوغلو جنہوں نے حال ہی میں پارٹی کی پالیسیوں کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا، کا کہنا ہے کہ ’اے کے پی کے پاس ملکی مسائل کا کوئی دیرپا حل نہیں ہے۔‘
’اس انتظامیہ کو پوری قوم کے سامنے جواب دہی کے لیے لایا جائے گا، آج سے ہی ہم اپنے اصولوں کی بنیاد پر نئی سیاسی تحریک کی شروعات کر رہے ہیں جو قوم کے لیے ہماری ذمہ داری ہے۔‘
یاد رہے کہ ترکی کے سابق وزیراعظم احمد داؤد اوغلو نے جمعے کو صدر رجب طیب اردگان  سے اپنی راہیں جدا کرتے ہوئے جسٹس اینڈ ڈیویلپمنٹ پارٹی کی رکنیت چھوڑنے کا اعلان کیا تھا۔

 2019 کے مقامی حکومتوں کے انتخابات میں صدر اردوغان کی جماعت کو دارالحکومت انقرہ میں شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

گذشتہ ہفتے ترکی کے صدر رجب طیب ارگان نے کہا تھا کہ اے کے پی سے علیحدگی کی تحریکیں ماضی میں بھی ناکام ہوئیں۔
خیال رہے کہ ترکی کے آئندہ انتخابات 2023 میں شیڈول ہیں۔
داؤد اوغلو کو ان کی ہمسایہ ممالک کے ساتھ کسی قسم کا مسئلہ نہ ہونے کی پالیسی کی وجہ سے جانا جاتا ہے۔ مارچ میں مقامی انتخابات میں بری کارکردگی دکھانے پر ان کی پارٹی پر تنقید بڑھ گئی تھی۔
داؤد اوغلو سے پہلے پارٹی کو چھوڑنے والوں میں علی بابا جان بھی شامل ہیں جو نائب وزیراعظم کے طور پر خدمات انجام دے چکے ہیں۔ انہوں نے جولائی میں پارٹی کی رکنیت چھوڑ دی تھی اور ایک نئی سیاسی تحریک چلانے کا اعلان کیا تھا۔
امکان ظاہر کیا جارہا ہے کہ ترکی کے سابق صدرعبداللہ گل بابا جان کی پارٹی میں باقائدہ شمولیت کے بغیر اس کی حمایت کریں گے۔

داؤد اوغلو سے پہلے پارٹی کو چھوڑنے والوں میں علی بابا جان شامل ہیں جو نائب وزیراعظم کے طور پر خدمات انجام دے چکے ہیں۔ فوٹو اے ایف پی

ترکی میں بڑھتی لاقانونیت اور معاشی عدم استحکام کے پیش نظر علی بابا نے رواں سال کے اختتام سے پہلے نئی پارٹی تشکیل دینے کا عندیہ دیا تھا۔
انقرہ کی ریسرچ کمپنی او آر سی کے حالیہ پول کے مطابق 11.6 فیصد جواب دہندگان کا کہنا ہے کہ وہ عام انتخابات میں بابا جان کی نئی پارٹی کو ووٹ دیں گے جبکہ 8.5 فیصد کا کہنا تھا کہ وہ اردگان کی حمایت کریں گے۔
پولش انسٹیٹیوٹ آف انٹرنیشنل افیئرز کے تجزیہ کار کارل واسلیوسکی نے عرب نیوز کو بتایا کہ ’داؤد اوغلو اور نہ ہی باباجان اردگان اور ان کی پارٹی کو سخت چیلنج دے سکتے ہیں‘۔
انہوں نے کہا کہ’ اے کے پی کی معاشی بدانتظامی اور شام کی پالیسی کے پیش نظر باباجان کی سیاست میں اہمیت بڑھ سکتی ہے، جہاں تک داؤد اوغلو کی بات ہے تو میں اس حوالے سے شک و شبے کا شکار ہوں کیونکہ مجھے ایسا کوئی مخصوص شعبہ نظر نہیں آتا جس میں وہ خود کو اے کے پی سے بہتر ثابت کرسکتے ہیں۔‘
واسلیوسکی کا کہنا تھا کہ اگر معیشت کی بات کی جائے تو باباجان داؤد اوغلو سے کہیں بہتر ہیں۔

شیئر: