Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

العزیزیہ کیس دلائل پر تین ماہ لگ سکتے ہیں

سابق وزیراعظم نواز شریف کی العزیزیہ سٹیل ملز ریفرنس کیس میں احتساب عدالت کے فیصلے کے خلاف اپیل کی سماعت بدھ کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں ہوئی۔ کیس کی سماعت جسٹس عامر فاروق اور جسٹس محسن اختر کیانی پر مشتمل دو رکنی بنچ نے کی۔
سابق وزیر اعظم نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے عدالت سے پیپر بک میں کچھ دستاویزات شامل نہ ہونے کا اعتراض اٹھایا اور احتساب عدالت کے سابق جج ارشد ملک کا اسلام آباد ہائی کورٹ میں جمع کرایا گیا بیان حلفی اور رجسٹرار کی پریس ریلیز کی مصدقہ نقول فراہم کرنے کی درخواست کی۔
جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ ایسی کوئی دستاویز جو شواہد کا حصہ ہے مگر پیپر بکس میں شامل نہیں تو وہ پیش کی جا سکے گی۔ عدالت نے سابق جج ارشد ملک کے بیان حلفی کی مصدقہ نقل نواز شریف کے وکلا اور نیب کو فراہم کرنے کا حکم دیتے ہوئے سماعت 7 اکتوبر تک ملتوی کر دی۔

مسلم لیگ ن کے کارکن کمرہ عدالت میں سیلفیاں بناتے رہے، تصویر: ہائی کورٹ ویب سائٹ

احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کی ویڈیو منظر عام پر آنے کے بعد اس کیس کی یہ پہلی سماعت تھی۔ دوسری جانب عدالت نے بھی سابق جج ارشد ملک کے ہائی کورٹ میں جمع کرائے گئے بیان حلفی اور رجسٹرار کی جانب سے جاری کی گئی پریس ریلیز کو اپیل کے ساتھ منسلک کر دیا۔
یاد رہے کہ سابق وزیراعظم نواز شریف کو احتساب عدالت نے دسمبر 2018 میں العزیزیہ ریفرنس میں سات سال کی قید اور بھاری جرمانے کی سزا سنائی تھی۔ جنوری 2019 میں سابق وزیراعظم نے سزا کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ میں اپیل دائر کی تھی۔ دوسری جانب نیب نے بھی سابق وزیراعظم کی سزا بڑھانے سے متعلق درخواست دائر کر رکھی ہے۔
عدالتی منظر نامہ
اسلام آباد ہائی کورٹ کا کمرہ عدالت نمبر 2 بدھ کو دن 11:30 بجے ہی کھچا کھچ بھر گیا تھا۔ وکلا، مسلم لیگ ن کے رہنما اور کچھ لیگی کارکن بھی کمرہ عدالت میں موجود تھے۔ جوں جوں سماعت کا وقت قریب آتا گیا کمرہ عدالت میں رش بڑھتا گیا اور 12 بجتے ہی کمرہ عدالت میں تل دھرنے کی جگہ نہ رہی۔

خواجہ حارث کی درخواست پر سماعت 7 اکتوبر تک ملتوی ہو گئی، تصویر: اے ایف پی

عدالتی کارروائی کی کوریج کے لیے بھی صحافیوں کی بڑی تعداد موجود تھی۔ کورٹ رپورٹرز کے علاوہ چند سینیئر اینکرز بھی عدالتی کارروائی دیکھنے کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ پہنچے تھے۔
مسلم لیگ ن کے سینیئر رہنما راجا ظفر الحق، سابق گورنر پنجاب رفیق رجوانہ، سابق سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق ، سابق وفاقی وزیر پرویز ملک اور مریم اورنگزیب سمیت خواتین ارکان اسمبلی کمرہ عدالت میں موجود تھیں۔
کمرہ عدالت میں لیگی رہنما، صحافی، لیگی کارکن اور نیب ٹیم تو پہنچ چکی تھی لیکن نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث اور جج صاحبان کے آنے کا ابھی انتظار کیا جا رہا تھا۔
انتظار کی گھڑیاں طویل ہوئیں تو کچھ لیگی افراد کمرہ عدالت میں سیلفیاں لینے میں مشغول ہو گئے۔ ایسے میں کمرہ عدالت کے داخلی دروازے سے ایک آواز آئی ’ایک بار سب درود پڑھ لیں‘۔
 تجسس ہوا کہ عدالت میں نیکی کی دعوت دینے والا یہ شخص کون ہے، معلوم کرنے پر پتہ چلا کہ لیگی کارکن ہیں اور آج اپنے قائد کی رہائی کا حکم نامہ سننے کی خواہش لے کر عدالت آئے ہیں۔
12 بج کر 30 منٹ پر نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث بھی کمرہ عدالت میں پہنچ چکے تھے۔ انتظار کی گھڑیاں اس وقت ختم ہوئیں جب 1 بج کر 10 منٹ پر دونوں جج صاحبان کمرہ عدالت میں تشریف لائے اور عدالتی کارروائی کا آغاز ہوا۔
عدالتی کارروائی کیا رہی ؟
نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے اپنے دلائل کے آغاز میں کہا کہ اپیل کی پیپر بک ہمیں گذشتہ ہفتے فراہم کی گئیں، ہم نے  پیپر بک کا جائزہ لیا ہے۔ کچھ دستاویزات ایسی ہیں جو شواہد کا حصہ تو ہیں لیکن پیپر بک میں شامل نہیں۔ جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ اگر کچھ دستاویزات شامل نہیں ہیں تو وہ نشان دہی کرنے پر شامل کر دی جائیں گی۔
نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے احتساب عدالت کے سابق جج ارشد ملک کی جانب سے اسلام آباد ہائی کورٹ میں جمع کرائے گئے بیان حلفی سے متعلق کہا کہ عدالت نے بیان حلفی اور پریس ریلیز کو اپیل کے ساتھ منسلک تو کر دیا ہے لیکن ہمیں اس کی کاپی نہیں فراہم کی گئی۔
جسٹس عامر فاروق نے عدالت کی اصل فائل خواجہ حارث تک بڑھائی اور کہا کہ آپ دیکھ لیں یہ اصل بیان حلفی ریکارڈ کا حصہ ہے۔ خواجہ حارث نے عدالت سے بیان حلفی اور پریس ریلیز کی مصدقہ نقول فراہم کرنے کی درخواست کرتے ہوئے کہا کہ میڈیا میں تو اس حوالے سے کافی کچھ آتا رہا ہے مگر ہم اصل بیان حلفی دیکھنا چاہتے ہیں۔ جج سے متعلق سپریم کورٹ نے بھی آپ کو کافی کچھ بتا دیا ہے کہ اس معاملے پر کیا کرنا ہے۔ جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ دیکھنا ہو گا کہ اس بیان حلفی اور پریس ریلیز کا اس کیس پر کتنا اثر پڑ سکتا ہے۔
سماعت کے دوران بینچ میں شامل جسٹس محسن اختر کیانی قدرے خاموش رہے اور جسٹس عامر فاروق اور نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث کے درمیان مکالمہ بغور سنتے رہے۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے خواجہ حارث کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اپیل کا آغاز آپ نے کرنا ہے، کیس کو آگے بڑھائیں۔ وقت بتا دیں کب تک دلائل مکمل کر لیں گے۔
 خواجہ حارث نے کہا کہ اپیل پر دلائل مکمل ہونے میں تین ماہ تو لگیں گے۔ جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ پیپر بک میں اگر کچھ شامل نہیں تو وہ نشان دہی پر ریکارڈ کا حصہ بنا دیا جائے گا۔ عدالت نے خواجہ حارث کی درخواست پر سماعت 7 اکتوبر تک ملتوی کر دی۔

شیئر: