Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’لال کبوتر کی کامیابی کے پیچھے سات سال کی محنت‘

اپنے اطراف کے مناظر کو دیکھ کر کراچی کے رگ و پے میں بسنے والی ثقافت پر لکھنے والے جواں سال علی عباس نقوی کو معلوم نہیں تھا کہ ایک دن وہ پاکستان کے سینما کے لیے نہایت قابل ستائش فلم ’لال کبوتر‘ کا سکرین پلے لکھیں گے اور پھر ایک دن اسے پاکستان کی جانب سے آسکر ایوارڈ کے لیے بھی بھیجا جائے گا۔
’شاید میری قسمت اچھی تھی یا یوں کہیے کہ ماں باپ کی دعائیں تھیں اور ان دوستوں کا ساتھ تھا جنہوں نے ہر دم مجھے آگے بڑھتے رہنے کی تلقین کی اور حوصلہ کم نہ ہونے دیا۔‘
علی عباس نے 2013 میں جامعہ کراچی سے وژیول سٹڈیز میں گریجویشن کیا تھا۔
اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ لال کبوتر کی کامیابی کے پیچھے ان کے وہ چھ سات سال ہیں جن کے دوران انہوں نے بہت زیادہ محنت کی۔ انہوں نے کئی سکرین پلے لکھے جو شاید چلے بھی نہیں مگر انہوں نے ہمت نہیں ہاری۔ ’اکثر لوگوں نے تو مفت میں بھی بہت کچھ لکھوا لیا۔‘

لال کبوتر رواں سال ریلیز ہوئی جسے شائقین نے بہت پسند کیا۔ 

انہوں نے کہا کہ ’لال کبوتر‘ کے سکرپٹ پر فلم کی پوری ٹیم نے کام کیا ہے اور اس سلسلے میں فلم کے ڈائریکٹر کمال خان اور معاون لکھاری باسط نقوی نے بھی اس مشکل کام میں ان کا بھرپور ساتھ دیا۔
یہ فلم رواں سال ریلیز ہوئی جسے شائقین نے بہت پسند کیا اور یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اس فلم کو دیکھ کر پاکستانی سینما کے بھلے دن یاد آجاتے ہیں۔
فلم ’لال کبوتر‘ کا خاصہ یہ ہے کہ یہ کراچی کے خاص حالات، ثقافت، رہن سہن اور مسائل کی عکاسی کرتی ہے۔
اس کے بارے میں علی عباس کا کہنا ہے کہ فلم کے ڈائریکٹر نے ان کو بتایا تھا کہ سکرپٹ میں انہیں کراچی کی جھلک چاہیے۔
’میں یہ تو نہیں کہوں گا کہ میں نے پورا کراچی اس طرح سے دیکھ لیا ہے، لیکن میرا جتنا تجربہ تھا بسوں میں گھوم پھر کر، ہوٹلوں پر بیٹھ کر اور چنگچی رکشوں میں سفر کر کے، تو مجھے ایسا لگتا ہے کہ کئی سارے کردار اس شہر میں موجود ہیں جنہیں ابھی تک خود پاکستانی ٹی وی انڈسڑی یا فلم انڈسڑی نہیں ڈھونڈ سکی۔‘

علی عباس کے بقول اکثر لوگوں نے ان سے بہت کچھ مفت میں لکھوایا۔

ان کا کہنا ہے کہ اگر کراچی کے کسی بھی دھابے پر بیٹھ جائیں تو ایک لکھاری کو سینکڑوں واقعات مل جائیں گے اور ایسے ہی کردار مل جائیں گے جن کو فلمایا جا سکتا ہے اور ان پر کہانی لکھی جا سکتی ہے۔
’ہرعلاقے کا اپنا ایک احساس ہے۔ تو میں نے بھی یہی کیا کہ یہاں سے جو جو کردار میری سمجھ میں آئے اور مجھے لگا کہ ان کو بُن کر کچھ لکھ سکتا ہوں تو میں نے انکو بُن دیا اور شاید وہ جڑ اچھا گیا۔‘

 

لکھنے کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں علی عباس نے کہا کہ ’مجھے تو آتا ہی لکھنا ہے یا شاید میں کرنا ہی صرف یہی چاہتا ہوں۔ اور میری روزی روٹی بھی یہی ہے۔ مجھے تو کرنا ہی یہی ہے۔ تو جتنا لکھتے ہوئے سیکھ سکتا ہوں، سیکھ لیتا ہوں لیکن یہ ضرور کہوں گا کہ لکھنا آسان نہیں ہے۔ اس میں بہت ’کھپ‘ ہے اور شاید اس وجہ سے بہت سارے لوگ اس میں نہیں آتے۔‘
علی عباس ایک نجی ادارے کے لیے بھی پچھلے دو سال سے کہانیاں قلم بند کر رہے ہیں جن کو فلمایا جاتا ہے۔
’ہمیں تو اس میں بہت مزہ آتا ہے۔ لیکن کبھی کبھار ہم سر بھی نوچتے ہیں اپنا، ہمیں اکتاہٹ بھی ہوتی ہے لیکن وہ وقتی ہوتی ہے۔ جیسے جیسے آپ کے کام کو پذیرائی ملتی رہتی ہے یہ ختم ہوتی جاتی ہے۔‘
علی عباس مستقبل کے حوالے سے اتنا پر امید نہیں ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ لکھنے والوں کی تعداد میں کمی بھی ہو رہی ہے مگر پھر بھی وہ اپنا شوق اور محنت جاری رکھیں گے۔
شوبز کی خبروں کے لیے ’’اردو نیوز شوبز‘‘ جوائن کریں

شیئر: